Breaking News

کامیاب زندگی کے چنداصول

       
(شمس مومند)
زندگی اللہ تعالی کا سب سے قیمتی تحفہ ہے اور کامیاب پرسکون اور صحت مند زندگی اس تحفے کی قدر و قیمت اور بڑھا دیتی ہے۔ اگر چہ کامیاب زندگی گزارنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو کم و بیش ایک جیسے بنیادی اعضاء اور صفات سے نوازا ہے۔ ہر انسان کے دو ہاتھ دو پاوں دو کان ایک زبان ، ایک دماغ اور دو آنکھیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر دنیا میں کوئی ایک انسان بھی اپنے اعضاء اوردستیاب وقت سے کام لیکر کامیاب زندگی گزارسکتا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ دنیا کے تمام انسان انہی اصولوں کو اپنا کر کم وبیش اسی قدر کامیاب زندگی گزارسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم ان اصولوں کو کتنے جانتے ہیں اور اگر جانتے ہیں تو اس پر کس حد تک عملدر آمد کرتے ہیں۔
پرسکون زندگی کا مجرب نسخہ یہ ہے کہ مثبت سوچ اپنائے۔ یعنی بی پازیٹیو،آپ دوسروں کی بہتری سوچے اللہ تعالی آپ کی بہتری کا سامان کرے گا۔ فرماتے ہیں کہ جو بندہ دوسروں کے مسائل حل کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی انہیں اپنے مسائل سے بے نیاز کرتا ہے۔ نیکی اور اچھائی پھل دار درخت کی مانند ہے ۔ جب آپ ایک دانہ اگاتے ہیں تو وہ بڑا ہوکر سینکڑوں پھل دے دیتا ہے۔ کسی کا بھی برا نہ سوچے۔ اللہ تعالی کسی کو بھی آپ کا برا نہیں کرنے دیگا۔یعنی کوئی چاہتے ہوئے بھی آپ کیساتھ برا نہیں کر سکے گا۔ تجربہ شرط ہے۔
کامیاب زندگی اور اونچی اڑان کا دوسرا اصول یہ ہے کہ اپنی خواہشات کے وزن کو کم رکھوں تاکہ آپ کو پرواز کرنے میں مشکل نہ ہو، کیونکہ اونچی اڑان سے پہلے اضافی سامان کو اتار دیا جاتا ہے۔ خواہشات کی فہرست جتنی کم ہوگی ۔ کامیابی اتنی ہی جلدی آپ کے قدم چومے گی۔کیونکہ کامیابی کا معنی صرف عالیشان محلات کی تعمیر اور جہازوں میں گھومنا نہیں ہے ۔ ایک چھوٹے سے مکان میں بھی اپنے خاندان کے ساتھ خوش وخرم اور پرسکون زندگی کامیاب زندگی کہلا سکتی ہے۔
اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو ماضی کو بھول جاو اور مستقبل کی فکر نہ کرو، اپنے حال پر فوکس کرو، کیونکہ ماضی جیسا بھی تھا وہ گزرچکا اور مستقبل کس نے دیکھا ہے۔ انسان کی اصل زندگی ماضی اور مستقبل کے درمیان (حال) ہے۔ اپنی پوری طاقت محنت اور دیانت کے ساتھ حال کو بہتر بنانے کی جدوجہد کیجئے کیونکہ یہی اصل زندگی ہے۔
بقول شاعر۔۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
زندگی میں پریشان رہنے کی سب سے بڑی وجہ زیادہ سوچنا ہے، زیادہ سوچنے کی بجائے اللہ تعالی پر توکل کر کے زیادہ محنت پر توجہ دیجئے۔ محنت وہ قیمتی اثاثہ ہے جو کھبی رائیگاہ نہیں جاتا ہے۔ یعنی یہ ہر حال میں اپنا پھل دے دیتا ہے۔ پریشان رہنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ صرف اپنی مسائل و مشکلات کا رونا روتے ہیں ۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اس عادت کا خاتمہ کیجئے اپنے مسائل کا بار بار ذکر کرنے کی بجائے اپنی خوشیوں کو یاد کیجئے۔ کیونکہ جس عمل کا خاتمہ چاہتے ہو اس کو بھلانے کی کوشش کیجئے اور جس عمل کودوام دینا چاہتے ہواس کا تذکرہ بڑھا دیجئے۔اور خوشی صرف نوکری ملنے ، شادی ہونے اور بیٹے کی پیدائش تک محدود نہیں ہے، دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا، اچھی صحت،امتحان میں کامیابی، سیر و تفریح،گھر بنانا،اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق سواری کا ملنا، حتی کہ بچے کے لئے کھلونا اور فروٹ خریدنا بھی خوشی کے اسباب ہیں۔ اگر یہ مواقع بار بار نہیں ملتے ہیں تو پھر بھی ملے ہوئے مواقع کو یاد کر کے خوش رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ بندہ غموں کویاد کر کے غمگین رہے۔
اگر تمہیں اپنا آپ اکیلانظر آتا ہے یعنی کوئی تمارے ساتھ نہیں ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ تم واقعی اکیلے ہو ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اکیلے ہی اپنے تمام مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔تمہیں کسی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا سوچنے اور اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر دیکھئے کہ کتنے لوگ تمہاری تنہائی ختم کرنے اور تمہارا ساتھ دینے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ اور یاد رکھئے کہ یہ دنیا صرف طاقتور اور کامیاب لوگوں کا ساتھ دیتی ہے غمگین اور مفلوک الحال لوگوں پر ایک ہمدردانہ نظر ڈال کر آگے بڑھتی ہے اس لئے اپنے دکھ اور تکالیف ہر شخص کے سامنے بیان کرنے کی بجائے اس ہستی کے سامنے بیان کیجئے جو اس کو فوری طور پر ختم کرنے پر قادر ہے۔
اور سب سے آخری بات یہ کہ اللہ تعالی سے مانگنے کا طریقہ سیکھئے۔ اللہ تعالی کے سامنے اپنی ضرورتوں کو اسی طرح بیان کیجئے جیسا چھوٹا بچہ اپنی ماں یا باپ کے سامنے پہلے اپنی ضرورتوں کو بیان کرتا ہے اور پھر اس کے حل کے لئے وسائل مانگتاہے۔ بچہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ والدین اسکے مسائل حل کرنے کے لئے وسائل کہا ں سے لاینگے مگر یہ جانتا ہے کہ صرف والدین ہی ان کے مسائل حل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ پر ایسا ہی بھروسہ رکھے جس طرح چھوٹا بچہ اس وقت اپنے باپ پر بھروسہ کر کے ہنستا ہے جب وہ اسے ہاتھوں سے اوپر اچال کر چھوڑتا ہے ۔ حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اگر والد نے اسے چھوڑ دیا تو وہ زمین پر گر جائے گا۔ تو یقین جانے کہ جس طرح والد اپنے بچے کو زمین پر گرنے نہیں دیتا ہے ۔ تو اس سے سو گنا زیادہ شفیق اللہ اپنے بندے کو کیونکر زمین پر گرنے 
دے سکتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے ذات اعلی پر ایسا ہی یقین نصیب فرمائے آمین




No comments