Breaking News

فاٹا میں این جی اوز کا کرداراورنوجوان





                           (غلام حسین محب)
قومی مسائل کے حل کے کی سب سے پہلی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے لیکن مہذب اقوام تمام کام حکومت پر نہیں چھوڑتیں بلکہ اپنے طور پر بعض اوقات وہ کارنامے انجام دیتی ہیں کہ حکومتیں بھی حیران رہ جاتی ہیں۔ موجودہ دورکے ترقیافتہ ممالک میں غیر سرکاری تنظیموں کاکردار نہایت اہم اور تقریباً بیس فیصد تک ہوتا ہے۔ان ممالک میں اہل ثروت افراد ازخود اپنی خدمات حکومت کو پیش کرتے ہیں اور اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اب ان پیسوں کی ضرورت نہیں رہی تو وہ وہ رقم دوسرے ایسے ممالک میں دیتی ہیں جہاں غربت، بے روزگاری،بیماری یا جنگی حالات ہوں ۔اکثراوقات ایسے فلاحی اور سماجی کاموں کے لیے ملکوں کے نوجوان تنظیمی شکل میں اکٹھے ہوکر قومی خدمات انجام دیتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ اپنے طور پر مختلف فلاحی ناموں سے تنظیمیں بناتے ہیں اوراہل ثروت لوگوں سے چندے اکٹھا کرتے ہیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں نوجوانوں کی سرگرمیاں قابل ستائش ہیں جبکہ وہ مختلف خدمات سرانجام دیتے ہیں ۔قبائلی علاقوں کے نوجوانوں میں بھی یہ جذبہ کافی بڑھ چکا ہے اور اب وہ بڑھ چڑھ کر قومی اورفلاحی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ویسے تو کئی سماجی اور فلاحی تنظیمیں اس وقت قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں لیکن دو مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں ۔ڈاکٹرابرارحسین مومند ایک ایسا جوان ہے جو عرصہ دراز سے پنجاب میں رہائش پذیر قبائل کی خدمت کے لیے کمر کس کر مصروف خدمت رہتے ہیں۔وہ ایک عرصے سے متحدہ قبائل کے نام سے راولپنڈی میں ایک فلاحی تنظیم چلارہے ہیں جس کے تحت وہاں موجود تمام پختونوں کوفائدہ مل رہا ہے۔غربت بے روزگاری کا مألہ ہو،ہسپتال یا ادویات کا معاملہ ہو ،شناختی کارڈ، پاسپورٹ کے حصول کی بات ہو یا تھانہ کچہری کاقانونی معاملہ ان سب کے لیے ڈاکٹر ابرارحاضر ہوں گے۔اسی طرح ایک فلاحی تنظیم مہمند ویلفیئر ارگنائزیشن کے نام سے گزشتہ کئی سالوں سے مہمند ایجنسی میں کام کررہی ہے جس کے صدرمیر افضل مومند ایک فعال اورجرأت مند شخصیت ہیں جو ہرقسم قومی مئلہ اٹھانے اور اس کے حل کے لیے پیش پیش رہے ہیں۔ڈومیسائل ،قومی تنازعات،بجلی،صحت کے مسائل،مردم شماری ہو یا پولیومہم ہر جگہ ایم ڈبلیو اوکے جوان موجود ہوں گے۔ کسی مئلے کے حل کے لیے تھوڑے وقت میں سینکڑوں جوانوں کو اکٹھا کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔گو کہ یہاں این جی اوز کے خلاف تحفظات کا اظہارکیا جاتا رہا ہے جو حکومتی بھی ہیں اورعوامی بھی،لیکن اس میں شک نہیں کہ این جی اوزکا کردار ملک میں انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پاکستان کے پسماندہ علاقے جہاں خوراک کی کمی،پینے کے پانی کی کمی،مختلف بیماریوں کے مسائل،آگاہی کی کمی ، غربت ،بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے این جی اوزکا کرداراہم ہے ان علاقوں میں جنوبی پنجاب، بلوچستان ،سندھ کے دیہی علاقے ،پختونخواکے اکثر اضلاع ،گلگت بلتستان اور فاٹا شامل ہیں۔ان این جی اوز میں اکثر یورپ، امریکہ اوریواین کے ذیلی اداروں کے ذریعے مختلف ممالک میں مصروف عمل ہیں۔ان ممالک میں افریقی ممالک،ایشیائی غریب ممالک اورخصوصاً جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں۔ہم بات کررہے ہیں قبائلی علاقوں کی، تو اس وقت درجنوں این جی اوز قبائلی علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔یہ ایسے این جی اوز ہیں جو اکثر یورپی ممالک ناروے،جرمنی،انگلینڈ،امرکہ یا یواین او سے فنڈز وصل کررہے ہیں ان این جی اوز پر محب وطن پاکستانیوں اور خود حکومت کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ان میں سے بعض ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت درجنوں این جی اوز کے این او سی معطل کیے جا چکے ہیں لیکن اس بات میں بھی شک نہیں کہ یہی این جی اوز غریب،پسماندہ اور اکیسویں صدی میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم قبائل کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ یو ایس ایڈ،یوکے ایڈ،ڈبلیو ایچ اواورڈبلیوایف پی کی طرف سے کئی ایسے پراجیکٹ اس وقت چل رہے ہیں جوان پسماندہ اور غریب قبائلی عوام کو مفت طبی سہولیات،تعلیم کے مواقع،سمال ڈیمزکی تعمیر اور خوراکی پیکج دے رہے ہیں۔ان این جی اوز اور پراجیکٹس میں بعض نیم سرکاری جبکہ بعض غیر سرکاری ہیں، جن میں حجرہ،ایل ایچ او،آئی آر ایم، این سی ایچ ڈی،ایف ڈی ایم اے،پاکستان ہلال احمروغیرہ مہمند ایجنسی میں مصروف عمل ہیں جبکہ اسی طرح بِسٹ ،ایل ایچ او ہلال احمر ،آر ایل سی آئی پی،اسلامک ریلیف،ایف ڈبلیوآرڈی پی،این آئی ڈی پی اور فاٹاڈیزاسٹر منجمنٹ وغیرہ اور کئی دیگر بھی کام کر رہے ہیں۔ان این جی اوز اور پراجیکٹس کے مفید اور کار آمد ہونے سے انکار ممکن نہیں مگر ان میں کرپشن اور گھپلوں کے انکشافات بھی سامنے آئے ہیں ان کے حوالے سے یہ بات بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ غریب اور پسماندہ قبائل کے نام سے کام کرنے والے این جی اوز کے پچیس فی صد فوائد ہی قبائلی عوام کو مل رہے ہیں جبکہ باقی پچھتر فی صد دوسے لوگ حاصل کر رہے ہیں ورنہ اگر یہ فنڈز مکمل طور پر قبائلی عوام پر خرچ ہوتے تو آج یہ علاقے سب سے آگے ہوتے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی این جی او جب کام شروع کرتی ہے تو سب سے پہلے کنٹری ڈائریکٹر لیا جاتا ہے جو اسلام آبادمیں کوئی پنجابی ہی ہوسکتا ہے
 اس کے بعد فیلڈ انچارج یا کوارڈینیٹر کا مرحلہ آتا ہے وہ اُسی این جی او کے مالک کی مرضی سے اُس کا اپنا بندہ یا مردان،صوابی،پشاور یا سوات سے ہوتا ہے ۔اس کے بعد باقی عملہ ہوتا ہے جو اُسی کوارڈینیٹر کے رشتہ داروں پر مشتمل ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان این جی اوز کی کارکردگی کے بہتر نتائج سامنے نہیں آتے کیونکہ جس علاقے میں کام ہورہا ہوتا ہے این جی اوز کے عملہ کو اُس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ گورنر پختونخوا نے ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے فاٹاسیکرٹریٹ اورمقامی انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ وہ مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کرے لیکن اس واضح حکم نامے کی صریح خلاف ورزی ہوتی رہی ہے اور اب بھی مقامی افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ان غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف قبائلی نوجوانوں نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا ہے اور ہر مہینے کسی نہ کسی قبائلی ایجنسی میں نوجوان سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اورایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ مقامی ملازمتوں پر مقامی افراد کا حق ہے لیکن پھر بھی این جی اوز اورپراجیکٹس والے پوری ڈھٹائی کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو ان کی مرضی ہوتی ہے۔جبکہ وہ کرپشن کرنے سے بھی نہیں کتراتے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ اُن سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔دوسری طرف قبائلی نوجوان مسلسل بے روزگاری اور غربت کا شکار ہوکر نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔اگر اس مألے کا بروقت حل تلاش نہ کیا گیا تو قبائلی نوجوان دہشت گردی کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں یا منشیات کا شکار ہوکر معاشرے پر بوجھ بن سکتے ہیں۔ایسے میں گورنر پختونخوا ان این جی اوزکا قبلہ درست کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ان پراجیکٹس میں ہونے والے گھپلوں کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ قبائلی کے نام پر حاصل ہونے والے کثیر غیرملکی فنڈز کا صحیح استعمال ممکن ہو سکے۔۔

No comments