Breaking News

فاٹا میں انسانی حقوق کی پامالی



،،غلام حسین محب ،،                                                                                               
فاٹا کا ذکر جب بھی آتا ہے تو وہاں آبادقبائل کی مسائل و مشکلات سے بھری زندگی کا عکس آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے 70،سال گزرنے کے بعد بھی فاٹا کے عوام بادشاہت اورظلم کا شکار نظرآتے ہیں۔ریاستی شہریت سے محروم، پولیٹیکل بادشاہت کے غیر انسانی رویوں میں محکوم، بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ سے مظلوم اور ایف سی آر جیسے کالے فرسودہ نظام کی زنجیروں میں قید یہ لوگ پاکستانی حکمرانوں اور انسانی حقوق تنظیموں کی نظروں سے اوجھل
افغانستان کی سرحد پر ایک دیوار کی شکل میں آباد ہیں۔
یہ تو وہ حقائق ہیں جو تمام فاٹا کے عوام میں موجود ہیں لیکن سات قبائلی ایجنسیوں میں بعض ایسے مسائل بھی ہیں جو ہر ایجنسی میں اپنی نوعیت کے حامل اور قابل توجہ ہیں۔جنوبی وزیرستان میں لوگ ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں جہاں کئی سال پہلے لوگ آرمی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ملک کے دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔آپریشن مکمل ہونے کے بعد اُن کو اپنے علاقے میں جانے کی اجازت دی گئی اور لاکھوں لوگ واپس اپنے آبائی وطن آگئے لیکن واپسی پر وہ جن مشکلات سے دوچار ہوگئے وہ ایک عذاب سے کم نہیں۔اُن کے گھروں کی ویرانی، اُن کے کاروباری مراکز اور بازارجو آپریشن میں مسمارکردیے گئے تھے کی حالت زار،روز روزکرفیو اور چیک پوسٹوں پر گھنٹوں روک کر تلاشی کی اذیت سے گزرنا اور سب سے بڑھ کر خطرناک صورتحال یہ کہ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کیجانب سے بچھائے گئے بارودی سرنگیں ، ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے جنوبی وزیرستان ایک جہنم بن چکا ہے۔آئے روز بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے بے گناہ قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہاہے اور ساتھ ہی واپس آنے والے قبائل خوف اور مایوسی کا شکار ہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ روز حکومتی اہلکاروں کے ساتھ وزیرستان قبائل کے جوانون او ر مشران کا جرگہ ہوا جس میں باقاعدہ مذاکرات کیے گئے کہ ان بارودی سرنگوں کا صفایا جلد از جلد کیا جائے۔ان مذاکرات کے بعد قبائلی مشران اور جوانوں نے دھمکی دی کہ اگر یہ مۂلہ حل نہ کیا گیا تو ہم اسلام آباد جاکرپارلیمنٹ ہاؤس، عالمی سفارتخانوں اور یو این آفس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
اسی طرح مہمند ایجنسی میں گزشتہ چھ مہینوں سے ہر قسم موبائل نیٹ ورک بند ہے جس کی وجہ سے مہمند قبائل بلکہ ملک سے باہر جانے والے قبائلیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔اس ظلم کے خلاف مہمند ایجنسی کے عوام نے کافی شور مچایا، سیاسی اور فلاحی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔اعلیٰ افسران کے سامنے یہ مۂلہ اٹھایا لیکن حکومت کی طرف سے ایسی خاموشی ہے جیسے کشمیریوں کی فریاد پر بھارت خاموش ہے۔ مہمند قبائل حیران اور پریشان ہیں کہ سیکیورٹی مئلہ تو ملک بھر میں ہے۔بلوچستان،کراچی ،لاہور اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات رونما ہوئے ، وہاں آپریشن کیے گئے مگر نیٹ ورک تھوڑے عرصے کے لیے بند کرکے پھربحال کیا جاتا ہے مگر یہاں تو کوئی حد معلوم نہیں ۔سیاسی اور حکومتی ارکان تو اس مألے کے حل سے رہے اس لیے آرمی چیف آف جنرل قمر جاوید باجوہ ان مسائل و مشکلات پر توجہ دیں۔تاکہ وزیرستان اور مہمند ایجنسی کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
اسی طرح قبائل کے جو اجتماعی مسائل ہیں اُن میں ایف سی آر سر فہرست ہے ۔اس لعنت اور انگریزوں کے سیاہ داغ کو مٹانے کے لیے قبائلی جوان ایک عرصے سے سراپا احتجاج ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد کی طرف 25،ستمبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔مگر بقول شاعر ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ ۔محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل رحمان قبائل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ورنہ حکومت نے کئی بار فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کا وعدہ کیا مگر ناکام رہی۔ فاٹاکے مسائل کا ذکر کیا جائے تو شمار کرنا ممکن نہیں ۔وانا ہسپتال اور غلنئی ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ان ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے ساتھ عملہ کی عدم دلچسپی، اور سپشلسٹ ڈاکٹرز کی کمی، ان ہسپتالوں میں آنے والی ادویات کی فراہمی میں گھپلے ہوتے ہیں ۔غلنئی ہسپتال میں کلاس فور اہلکاروں کی فوج اور نرسوں کی بڑی تعداد بھرتی ہے جن میں دس فی صد ہی ڈیوٹی پر حاضر ہوتے ہیں باقی اپنی تنخواہوں میں حصہ دیکر گھروں میں وصول کرتے ہیں۔اس طرح کے گھپلے اور کرپشن ہر ایجنسی کے تمام محکموں میں ہوتے ہیں جن کی انکوائری ضروری ہے۔قبائلی علاقوں میں ایک اور عجیب قسم کی روایت بن چکی ہے جو عوام کے لیے دردِ سر سے کم نہیں ور وہ یہ کہ جب بھی یومِ آزادی، یوم قرارداد، یوم دفاع وغیرہ منایا جاتا ہے تو ایجنسی بھر میں سڑکیں ہر قسم ٹریفک کے لیے بند کر دی جاتی ہیں یہی صورتحال اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب کوئی فوجی اعلیٰ آفیسریا گورنر ایجنسی میں تشریف لاتے ہیں تو لوگوں کو ایسی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔آئے روز ایسی مشکلات سے روزمرہ زندگی اور معاشی کاروبار پر بہت برا اثرپڑتاہے۔
روزانہ کمانے والے مزدور، دکاندار اور ریڑھی والے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح وانا میں لوگ شکایت کرتے ہیں کہ وہاں سیب کے باغات خراب ہوگئے ہیں جن سے کمائی کرنے والے مالی طور پر متاثر ہیں اور مارکیٹ کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی۔ محکمہ زراعت کی عدم توجہی ان باغات میں بیماریوں کا سبب ہے۔اکثر اوقات روڈ کی بندش یا حالات کی خرابی کی وجہ سے سیب کا پھل مارکیٹ میں بروقت نہیں پہنچ پاتے۔اس علاقے میں سیب کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں اگر ان پر توجہ دی جائے تو یہ ایک اہم ذریعۂ معاش ہے۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش سے بھی قبائلی عوام کو مشکلات درپیش ہیں۔ان سرحدی راستوں پر سے تجارت ہوا کرتی تھی جس سے قبائل کو معاشی فائدہ ہوتا تھا۔اب جب تک فاٹا کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ تسلیم نہیں کیا جاتا مسائل اور مشکلات جوں کے توں رہیں گے۔ کیونکہ ابھی قبائل کو پارلیمنٹ میں بولنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے آواز اٹھانے کی اجازت نہیں۔فاٹا کے انضمام کے بعد قبائل کی انصاف تک رسائی،قانون سازی میں شامل ہونے اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع ملیں گے۔قبائلی عوام تک بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ضروری ہے کہ حکومتی ایجنڈے میں شامل فاٹا انضمام پر عمل درآمد کیا جائے۔۔۔۔


No comments