افغان مہاجرین کی وطن واپسی
ایم این اے غازی گلاب جمال نے افغان مہاجرین کی واپسی پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مہاجر ہمارے مہمان ہیں ان کو اس طرح نہ نکالا جائے۔گفتار کے غازی کو پینتیس سال بعد خیال آیا کہ یہ مہمان ہیں۔اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ ایک دن مہمان دوسرے دن مہمان تیسرے دن پتہ نہیں کیا ؟ ملک بھر میں ایسے کئی لوگ ہیں جو جی جی جمال جیسے خیالات رکھتے ہونگے مگر پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ اب ان کو جانا چاہیے ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ وقتاً فوقتاً اٹھایا جاتا رہا لیکن پھر خاموشی چھا جاتی۔
پختونخوا کے بعد قبائلی علاقے ایسے ہیں جہاں افغان مہاجرین کی واپسی سب سے اہم ایشو بن چکا ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں یہ مہاجر ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ملک کے سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں کا آج کل یہی موضوع رہا ہے کوئی اس کے حق میں اور کوئی اس کے خلاف بول رہا ہے جبکہ دونوں جانب سے دلائل پیش کی جاتی ہیں۔ پاکستان اُن ممالک میں سے ہے جو دہشت گردی اور دیگر مسائل کے علاوہ مہاجرین کے دیرینہ مۂلہ سے دوچار ہے جہاں اب بھی تیس لاکھ تک افغان مہاجرین پختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں اور قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔جہاں سے وہ افغانستان جانے کے لیے پرتول رہے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جانے والے یہ مہاجرین پاکستان سے جاتے ہوئے ناراض ہیں اس لیے نہیں کہ انکو پاکستان سے پیار ہے بلکہ وہ تو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف بولتے اور غصہ نکالتے ہیں۔جن کا ثبوت طورخم اور چمن بارڈر پر افغانیوں کا شدید ردعمل ہے۔جبکہ افغانستان میں آئے روز پاکستان مخالف مظاہرے اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
افغان بھائی اگر تھوڑی دیر کے لیے تصوّر کریں کہ اگر روسی جارحیت کے وقت افغانستان کی سرحد پر پاکستان نہ ہوتا بھارت ایران اور چین ہی ہوتے تو کیا انکو پناہ دینے والا کوئی تھا ؟وہ سادہ لوح پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے اور پسند کرتے ہیں لیکن پاکستان نہ ہونے کی صورت میں انکا خیر خوا ہ کوئی نہیں ہوتا کیونکہ آج بھارت جو افغانستان کو خوش کرنے کے لیے میٹھی زبان بول رہا ہے تو اس کے پیچھے محض بھارت کی پاکستان دشمنی ہے۔ورنہ افغانستان کی معاشی اورسیاسی ترقی میں جو کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے کوئی اور نہیں کرسکتا کیونکہ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں ہے اور اگر پاک افغان تعلقات اچھے ہوں توبھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بھی افغانستان پاکستان کو استعمال کرسکتا ہے۔افغانستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان تسلیم نہیں کیا اور نہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے کہ پاکستان کو خراب اور غیر مستحکم کرے۔تو ایسے میں افغانستان کو ہوش سے کام لینا چاہیے تھا بجائے اس کے کہ وہ انڈیا کا آلہ کار بن کر پاکستان کواپنا دشمن بنائے۔پاکستان کو افغانستان میں مداخلت کا کوئی فائدہ نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب تک بھارت افغانیوں کو استعمال کرکے پاکستان کے خلاف کام کرے گا تو ردعمل میں پاکستان بھی دفاعی کردار ادا کرتا رہے گا۔بارڈر پر جگہ جگہ گیٹ تعمیر کے گا۔
پختونخوا اور فاٹا میں جہاں جہاں سے مہاجرین واپس جارہے ہیں لوگوں میں مختلف قسم کے ردعمل دیکھنے میں آئیں گے۔لیکن فطر ی بات ہے کہ اتنا عرصہ ایک ملک میں گزار کر جانے والوں میں پرشانی اور غم کے آثار ضرور نمودار ہونگے مگر یہ طے ہے کہ کسی ملک کی رٹ اور پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ سخت اقدامات کرنے ضروری ہوتے ہیں۔پاکستان کی نرم پالیسی ہی اس ملک کی تباہی کا سبب بنی ہوئی ہے کبھی امریکی جاسوس پکڑے جاتے ہیں اور کبھی بھارتی جاسوس ، لیکن پھر خاموشی سے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔اسی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جہاں چاہے اور جیسے چاہے گُھس آتا ہے اورپھر نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔کیا یہ ریاستی کمزوری نہیں کہ جہاں آپ اپنی رٹ اور حیثیت منوا نہیں سکتے۔ بات افغان مہاجرین کی ہورہی تھی تو اگر دوسرے دوردراز ملکوں کا یہ حال ہے تو افغان مہاجرین کے لیے کوئی مئلہ نہیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہے پاکستان میں در آتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک طویل ترین سرحد موجود ہے جو کئی جگہ غیر محفوظ ہے اور جہاں کوئی سرحدی کنٹرول نہیں یہی وجہ ہے کہ پاک آرمی نے کئی مقامات پر باقاعدہ گیٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے طورخم پر افسو ناک واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
لیکن جہاں تک افغانیوں کا تعلق ہے تو وہ تو انتہائی ڈھٹائی سے پاکستان کے خلاف سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہوتے ہیں جو پاکستان کے خلاف بھارت کی کامیابی ہے۔اس سلسلے میں افغانستان کے لوگ نہایت نمک حرام واقع ہوئے ہیں پینتیس سال پاکستان میں گزار کر بھی غصہ اور ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں بلکہ پاکستان دشمنی کا کھلم کھلااظہار کر رہے ہیں جس کے ثبوت آئے روز سامنے آرہے ہیں گزشتہ روز چمن بارڈر پر بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا وہاں گیٹ پر پتھراؤ،نعرے بازی اورپاک پرچم کو جلانے جیسے مناظر دیکھنے میں آئے۔ تو اس طرح کے کرتوتوں سے افغان مہاجر کیا بتانا چاہ رہے ہیں اگر انکا خیال ہے کہ بھارت افغانستان کا سچا دوست ثابت ہوگا تو یہ انکا پاگل پن اور خام خیالی ہے کیونکہ بھارت اپنے ملک کی اقلیتوں سکھ، مسلمان اور عیسائیوں کا دوست نہ بن سکا تو ایک ایسے ملک جس کی سرحدیں بھی بھارت کے ساتھ نہ ہوں تو وہ کیونکر مسلمانوں کا خیرخواہ ہوسکتا ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے گائے ذبح کرنے پر قتل کردیا جاتا ہے۔اور افغانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت ان کے لیے اچھا ہوگا۔ ایک بری بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو افغان واپس جارہے ہیں پاکستان دشمنی میں انکے ساتھ جانے والے ٹرانسپورٹروں پر ظلم و تشدد کرتے ہیں بلکہ اب تک کئی کو قتل کیا جا چکا ہے۔اس بزدلانا اقدام سے انکا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہورہا ہے کہ پختون خواہ افغانستان کا حصہ ہے اور لرو بر پختون ایک ہیں کیونکہ پشاور یا کوئٹہ سے ساتھ جانے والے ٹرانسپورٹر بھی تو پختون ہی ہیں۔ میری تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنا طویل عرصہ بعد بھی وہ جانے کے لیے تیار نہیں تو وہ کیسے کہتے ہیں کہ افغانستان سے انکو پیار ہے۔پشتو میں کہتے ہیں’’ پردے کٹ د نیمی شپی وی‘‘ ۔اُنہیں بہر حال جانا ہی ہے آج نہیں تو کل۔ تو بجائے اس کے کہ وہ شکریہ کے ساتھ پاکستان سے رخصت ہوں وہ ناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔اور اب تو یو این ایچ سی آر نے بھی مہاجرین کو سپورٹ کرنے سے ہاتھ لیا ہے تو پاکستان جو بے شمار مسائل کا شکار ہے مزید متحمل نہیں ہوسکتا کہ اتنی تعداد میں مہاجرین کو سنبھال سکے۔
پختونخوا کے بعد قبائلی علاقے ایسے ہیں جہاں افغان مہاجرین کی واپسی سب سے اہم ایشو بن چکا ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں یہ مہاجر ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ملک کے سیاستدانوں اور تبصرہ نگاروں کا آج کل یہی موضوع رہا ہے کوئی اس کے حق میں اور کوئی اس کے خلاف بول رہا ہے جبکہ دونوں جانب سے دلائل پیش کی جاتی ہیں۔ پاکستان اُن ممالک میں سے ہے جو دہشت گردی اور دیگر مسائل کے علاوہ مہاجرین کے دیرینہ مۂلہ سے دوچار ہے جہاں اب بھی تیس لاکھ تک افغان مہاجرین پختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں اور قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔جہاں سے وہ افغانستان جانے کے لیے پرتول رہے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جانے والے یہ مہاجرین پاکستان سے جاتے ہوئے ناراض ہیں اس لیے نہیں کہ انکو پاکستان سے پیار ہے بلکہ وہ تو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے خلاف بولتے اور غصہ نکالتے ہیں۔جن کا ثبوت طورخم اور چمن بارڈر پر افغانیوں کا شدید ردعمل ہے۔جبکہ افغانستان میں آئے روز پاکستان مخالف مظاہرے اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
افغان بھائی اگر تھوڑی دیر کے لیے تصوّر کریں کہ اگر روسی جارحیت کے وقت افغانستان کی سرحد پر پاکستان نہ ہوتا بھارت ایران اور چین ہی ہوتے تو کیا انکو پناہ دینے والا کوئی تھا ؟وہ سادہ لوح پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے اور پسند کرتے ہیں لیکن پاکستان نہ ہونے کی صورت میں انکا خیر خوا ہ کوئی نہیں ہوتا کیونکہ آج بھارت جو افغانستان کو خوش کرنے کے لیے میٹھی زبان بول رہا ہے تو اس کے پیچھے محض بھارت کی پاکستان دشمنی ہے۔ورنہ افغانستان کی معاشی اورسیاسی ترقی میں جو کردار پاکستان ادا کرسکتا ہے کوئی اور نہیں کرسکتا کیونکہ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں ہے اور اگر پاک افغان تعلقات اچھے ہوں توبھارت کے ساتھ تجارت کے لیے بھی افغانستان پاکستان کو استعمال کرسکتا ہے۔افغانستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان تسلیم نہیں کیا اور نہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے کہ پاکستان کو خراب اور غیر مستحکم کرے۔تو ایسے میں افغانستان کو ہوش سے کام لینا چاہیے تھا بجائے اس کے کہ وہ انڈیا کا آلہ کار بن کر پاکستان کواپنا دشمن بنائے۔پاکستان کو افغانستان میں مداخلت کا کوئی فائدہ نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب تک بھارت افغانیوں کو استعمال کرکے پاکستان کے خلاف کام کرے گا تو ردعمل میں پاکستان بھی دفاعی کردار ادا کرتا رہے گا۔بارڈر پر جگہ جگہ گیٹ تعمیر کے گا۔
پختونخوا اور فاٹا میں جہاں جہاں سے مہاجرین واپس جارہے ہیں لوگوں میں مختلف قسم کے ردعمل دیکھنے میں آئیں گے۔لیکن فطر ی بات ہے کہ اتنا عرصہ ایک ملک میں گزار کر جانے والوں میں پرشانی اور غم کے آثار ضرور نمودار ہونگے مگر یہ طے ہے کہ کسی ملک کی رٹ اور پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ سخت اقدامات کرنے ضروری ہوتے ہیں۔پاکستان کی نرم پالیسی ہی اس ملک کی تباہی کا سبب بنی ہوئی ہے کبھی امریکی جاسوس پکڑے جاتے ہیں اور کبھی بھارتی جاسوس ، لیکن پھر خاموشی سے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔اسی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جہاں چاہے اور جیسے چاہے گُھس آتا ہے اورپھر نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔کیا یہ ریاستی کمزوری نہیں کہ جہاں آپ اپنی رٹ اور حیثیت منوا نہیں سکتے۔ بات افغان مہاجرین کی ہورہی تھی تو اگر دوسرے دوردراز ملکوں کا یہ حال ہے تو افغان مہاجرین کے لیے کوئی مئلہ نہیں کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہے پاکستان میں در آتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک طویل ترین سرحد موجود ہے جو کئی جگہ غیر محفوظ ہے اور جہاں کوئی سرحدی کنٹرول نہیں یہی وجہ ہے کہ پاک آرمی نے کئی مقامات پر باقاعدہ گیٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے طورخم پر افسو ناک واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
لیکن جہاں تک افغانیوں کا تعلق ہے تو وہ تو انتہائی ڈھٹائی سے پاکستان کے خلاف سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہوتے ہیں جو پاکستان کے خلاف بھارت کی کامیابی ہے۔اس سلسلے میں افغانستان کے لوگ نہایت نمک حرام واقع ہوئے ہیں پینتیس سال پاکستان میں گزار کر بھی غصہ اور ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں بلکہ پاکستان دشمنی کا کھلم کھلااظہار کر رہے ہیں جس کے ثبوت آئے روز سامنے آرہے ہیں گزشتہ روز چمن بارڈر پر بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا وہاں گیٹ پر پتھراؤ،نعرے بازی اورپاک پرچم کو جلانے جیسے مناظر دیکھنے میں آئے۔ تو اس طرح کے کرتوتوں سے افغان مہاجر کیا بتانا چاہ رہے ہیں اگر انکا خیال ہے کہ بھارت افغانستان کا سچا دوست ثابت ہوگا تو یہ انکا پاگل پن اور خام خیالی ہے کیونکہ بھارت اپنے ملک کی اقلیتوں سکھ، مسلمان اور عیسائیوں کا دوست نہ بن سکا تو ایک ایسے ملک جس کی سرحدیں بھی بھارت کے ساتھ نہ ہوں تو وہ کیونکر مسلمانوں کا خیرخواہ ہوسکتا ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے گائے ذبح کرنے پر قتل کردیا جاتا ہے۔اور افغانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت ان کے لیے اچھا ہوگا۔ ایک بری بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو افغان واپس جارہے ہیں پاکستان دشمنی میں انکے ساتھ جانے والے ٹرانسپورٹروں پر ظلم و تشدد کرتے ہیں بلکہ اب تک کئی کو قتل کیا جا چکا ہے۔اس بزدلانا اقدام سے انکا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہورہا ہے کہ پختون خواہ افغانستان کا حصہ ہے اور لرو بر پختون ایک ہیں کیونکہ پشاور یا کوئٹہ سے ساتھ جانے والے ٹرانسپورٹر بھی تو پختون ہی ہیں۔ میری تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنا طویل عرصہ بعد بھی وہ جانے کے لیے تیار نہیں تو وہ کیسے کہتے ہیں کہ افغانستان سے انکو پیار ہے۔پشتو میں کہتے ہیں’’ پردے کٹ د نیمی شپی وی‘‘ ۔اُنہیں بہر حال جانا ہی ہے آج نہیں تو کل۔ تو بجائے اس کے کہ وہ شکریہ کے ساتھ پاکستان سے رخصت ہوں وہ ناراضگی اور مایوسی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔اور اب تو یو این ایچ سی آر نے بھی مہاجرین کو سپورٹ کرنے سے ہاتھ لیا ہے تو پاکستان جو بے شمار مسائل کا شکار ہے مزید متحمل نہیں ہوسکتا کہ اتنی تعداد میں مہاجرین کو سنبھال سکے۔
No comments