بی بی سی پشتوڈرامے کازندہ و تابندہ نام ،وطن دوست ’’ناظر‘‘
عمربھرلوگوں کو ہنسانے اور مسکراہٹیں بکھیرنے والافنکار ، شاعرخود روتے روتے چل بسا شربت گلہ کوخصوصی پروٹوکول دینے والی افغان حکومت،ایک اچھے شاعراورمحب وطن فنکار کے لیے کچھ نہ کر سکی
مہرعلی نام وطن دوست تخلص رکھنے والا شاعر اور فنکارگزشتہ ماہ ۸،جنوری کواس غم بھری دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔لاجواب اداکار، شاعر اورموسیقارکا تعلق افغانستان سے تھا مگر اپنی زندگی کے ۳۵ سال سے زیادہ عرصہ پشاور میں گزارا۔وہ افغانستان پر روسی یلغار کے ابتدائی دنوں میں ہی ہجرت کرکے پشاور آبسے۔انہوں نے اتہائی سخت حالات کا مقابلہ کیا، محنت مزدوری اور مسافرت کی تلخ زندگی گزاری وہ ایک فطری شاعر اور فنکار تھا اس لیے پشاور میں مختلف فنکاروں کے لیے مست اور پرجوش گانے لکھے اور اس وقت کے مشہور فنکاروں فرزانہ، نغمہ،شاہ ولی ،خیال محمد،اور ماہ جبین قزلباش وغیرہ نے ان کے گانے ریکارڈ کرکے وطن دوست کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا جبکہ اکثر گانے انہوں نے خود کمپوز کیے۔اس زمانے میں کیسٹ ریکارڈنگ کا رواج تھا۔ہر جگہ،ہر محفل اور ہرگاڑی میں وطن دوست کے نغمے گونجنے لگے۔ان کو اپنے ملک سے بے حد پیار اور عشق تھااس لیے اپنا تخلص وطن دوست رکھا تھا۔وہ خود دکھ دردبھری زندگی گزار رہا تھامگر دوسروں کو خوشیاں اور مسکراہٹیں دیتا رہا۔ انہوں نے ساری عمر لوگوں کو ہنسایا مگر خود روتے روتے رخصت ہوگیا۔ان کی ساری زندگی غم درد کا افسانہ اور تکلیفوں سے بھری تھی ۔ان کی شہرت میں اس وقت اضافہ ہوالوگوں نے ان کو بطور اداکار دیکھا اور سنا۔انہوں نے بی بی سی کے لیے چلنے والے مسلسل ڈرامے ’’ نوے کور نوے ژوند ‘‘ میں ’’ ناظر ‘‘ کا کردار ادا کیا۔یہ ڈرامہ ہزاروں قسطوں میں سالہاسال سے جاری ہے ۔اس ڈرامے کو لوگ ناظر ہی کی وجہ سے پسند کرتے رہے کیونکہ انہوں نے اتنی جاندار اور فطری اداکاری کی کہ لوگ اسی ایک کردار کی وجہ سے اسی ڈرامے کے ہوکر رہے۔یہ کردارمزاح اور سنجیدگی کا امتزاج تھا اسی مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے وہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں
لانے اور اپنے دکھ درد کو چھپانے میں کامیاب رہا۔
پشاور کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے صراف کی حیثیت سے کام شروع کیااور کابلی چوک میں بیٹھ کراپنے کام کے ساتھ شعروشاعری کو بھی جاری رکھا۔ان کی شہرت ہوئی تو لوگ ان کو دیکھنے کے لیے قصہ خوانی کے چکر لگاتے مگر کم لوگوں نے ان کو دیکھاکیونکہ ان کے گھریلونا مساعد حالات کی وجہ سے ہمیشہ ٹنشن میں رہے۔ انہوں نے شادی کی مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہے جس کی وجہ سے اندرہی اندرکڑھتے رہے دوستوں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اس وجہ سے انکار کردیا کہ انہیں اپنی بیوی سے بے حد پیار تھا۔وہ کرائے کے دوکمروں والے گھر میں رہ کر غربت کی زندگی گزارتامگر نئے آنے والے مہاجر مہمانوں کو خندہ پیشانی سے ملتے اور مہمان نوازی کرتے۔
وہ اپنی بے اولادی کا رونا روتے ہوئے ڈاکٹروں، عطائیوں اور ملاؤں کے ہاں جاتے مگرقسمت نے جھولی نہیں بھری ۔دوستوں کے مشورے پر کسی بچے کوگود لیامگر وہ بچہ بڑا ہوتا گیا تو وہ ذہنی طور پرمفلوج تھا جووطن دوست کے لیے مزید بوجھ کا باعث بنا۔انہوں نے اس بچے کو پچیس سال رکھ کر انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری۔بیوی بھی اکثر بیمار رہتی علاج معالجہ کرتے کرتے وہ مزید غربت کا شکار ہوتا گیا اور یار دوستوں سے قرض دھار لیکر تھک گیا جس کی وجہ سے اکثر ذہنی پریشانی کا شکار رہے۔علاج کرتے کرتے گزشتہ سال ان کی بیوی وفات پاگئی ۔ کئی ماہ اپنی بیوی کی یاد میں گزارے مگر دوستوں، رشتہ داروں نے دوسری شادی کرنے پر مجبور کیا۔شادی کے چند ماہ بعد وہ کسی حد تک خوش نظر آنے لگا تھا کیونکہ ڈاکٹر نے اس دوسری بیوی سے اولاد کی خوشخبری دی تھی۔مگر ان کی زندگی میں ابھی خوشی نہیں تھی ۔اُس نے اپنی پہلی بیوی کی برسی کے موقع پر خیرات کا ارادہ بھی کیا تھا۔لیکن خیرات کے لیے کی جانے والی تیاری وطن دوست کی اپنی وفات میں بدل گئی۔
اور وہ خیرات جو وہ اپنی بیوی کے ایصال ثواب کے لیے کرنے جارہا تھا وہی خیرات اُس کی موت پر کرائی گئی۔
وطن دوست کی کسی کے خلاف نفرت مہیں تھی وہ ہر کسی کے ساتھ خوشی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے۔میڈیا کے ساتھ ایک انٹر ویو میں وطن دوست سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے وطن افغانستان کیوں نہیں جارہا۔ اُس نے جواب دیا تھا کہ وہاں میرا گھر نہیں ہے نہ معاشی طور پر اتنی سکت ہے۔طالبان کے دور اقتدار میں انہوں نے ہر دفتر، ہربااختیار شخص کا دروازہ کھٹکٹایا ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ارباب اختیار سے ملے کہ وہ بھی اس ملک کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانا چاہتا ہے اور مسافرت کی زندگی چھوڑ کر واپس اپنے ملک آنا چاہتا ہے مگر کسی نے اُن کی قدر نہ جانی۔ وہ اپنے ملک کی دوبارہ آبادی اور ترقی کے خواب دیکھتا رہا اور یہ ارمان دل ہی میں لیکردفن ہوا۔وہ ہمیشہ اپنے ملک کے بارے میں بولتا اور اسی کے بارے میں سننا پسند کرتا تھا۔ان کی شاعری میں ایک درد اور غم چھپا ہوا ہوتا تھا مگر کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔کوئی اُن سے پوچھتا کہ آپ اتنے دکھی ہوکر بھی خوش نظر آتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ غم میرے اپنے لیے ہیں اور دوسروں کوخوش دیکھنا چاہتا ہوں۔انہوں نے لطیفوں ، مزاحیہ شاعری اور باکمال اداکاری کے ذریعے ہمیشہ لوگوں کو ہنْسایا خصوصاً بی بی سی کے طویل دورانیے کے ڈرامے میں ’’ ناظر‘‘ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔عجیب اور قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان نے اس لاجواب اداکار کو کھو کر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ بھارت کے کہنے پر ’’ شربت گُلہ‘‘ کو خصوصی پروٹو کول دیکر افغانستان بُلایا اور خاطر مدارت کرکے مراعات سے نوازا، مگر اپنے ایک جینئس فنکار،شاعر اور محب وطن شخصیت وطن دوست کا پوچھا تک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرعلی نام وطن دوست تخلص رکھنے والا شاعر اور فنکارگزشتہ ماہ ۸،جنوری کواس غم بھری دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔لاجواب اداکار، شاعر اورموسیقارکا تعلق افغانستان سے تھا مگر اپنی زندگی کے ۳۵ سال سے زیادہ عرصہ پشاور میں گزارا۔وہ افغانستان پر روسی یلغار کے ابتدائی دنوں میں ہی ہجرت کرکے پشاور آبسے۔انہوں نے اتہائی سخت حالات کا مقابلہ کیا، محنت مزدوری اور مسافرت کی تلخ زندگی گزاری وہ ایک فطری شاعر اور فنکار تھا اس لیے پشاور میں مختلف فنکاروں کے لیے مست اور پرجوش گانے لکھے اور اس وقت کے مشہور فنکاروں فرزانہ، نغمہ،شاہ ولی ،خیال محمد،اور ماہ جبین قزلباش وغیرہ نے ان کے گانے ریکارڈ کرکے وطن دوست کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا جبکہ اکثر گانے انہوں نے خود کمپوز کیے۔اس زمانے میں کیسٹ ریکارڈنگ کا رواج تھا۔ہر جگہ،ہر محفل اور ہرگاڑی میں وطن دوست کے نغمے گونجنے لگے۔ان کو اپنے ملک سے بے حد پیار اور عشق تھااس لیے اپنا تخلص وطن دوست رکھا تھا۔وہ خود دکھ دردبھری زندگی گزار رہا تھامگر دوسروں کو خوشیاں اور مسکراہٹیں دیتا رہا۔ انہوں نے ساری عمر لوگوں کو ہنسایا مگر خود روتے روتے رخصت ہوگیا۔ان کی ساری زندگی غم درد کا افسانہ اور تکلیفوں سے بھری تھی ۔ان کی شہرت میں اس وقت اضافہ ہوالوگوں نے ان کو بطور اداکار دیکھا اور سنا۔انہوں نے بی بی سی کے لیے چلنے والے مسلسل ڈرامے ’’ نوے کور نوے ژوند ‘‘ میں ’’ ناظر ‘‘ کا کردار ادا کیا۔یہ ڈرامہ ہزاروں قسطوں میں سالہاسال سے جاری ہے ۔اس ڈرامے کو لوگ ناظر ہی کی وجہ سے پسند کرتے رہے کیونکہ انہوں نے اتنی جاندار اور فطری اداکاری کی کہ لوگ اسی ایک کردار کی وجہ سے اسی ڈرامے کے ہوکر رہے۔یہ کردارمزاح اور سنجیدگی کا امتزاج تھا اسی مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے وہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں
لانے اور اپنے دکھ درد کو چھپانے میں کامیاب رہا۔
پشاور کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے صراف کی حیثیت سے کام شروع کیااور کابلی چوک میں بیٹھ کراپنے کام کے ساتھ شعروشاعری کو بھی جاری رکھا۔ان کی شہرت ہوئی تو لوگ ان کو دیکھنے کے لیے قصہ خوانی کے چکر لگاتے مگر کم لوگوں نے ان کو دیکھاکیونکہ ان کے گھریلونا مساعد حالات کی وجہ سے ہمیشہ ٹنشن میں رہے۔ انہوں نے شادی کی مگر اولاد کی نعمت سے محروم رہے جس کی وجہ سے اندرہی اندرکڑھتے رہے دوستوں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اس وجہ سے انکار کردیا کہ انہیں اپنی بیوی سے بے حد پیار تھا۔وہ کرائے کے دوکمروں والے گھر میں رہ کر غربت کی زندگی گزارتامگر نئے آنے والے مہاجر مہمانوں کو خندہ پیشانی سے ملتے اور مہمان نوازی کرتے۔
وہ اپنی بے اولادی کا رونا روتے ہوئے ڈاکٹروں، عطائیوں اور ملاؤں کے ہاں جاتے مگرقسمت نے جھولی نہیں بھری ۔دوستوں کے مشورے پر کسی بچے کوگود لیامگر وہ بچہ بڑا ہوتا گیا تو وہ ذہنی طور پرمفلوج تھا جووطن دوست کے لیے مزید بوجھ کا باعث بنا۔انہوں نے اس بچے کو پچیس سال رکھ کر انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری۔بیوی بھی اکثر بیمار رہتی علاج معالجہ کرتے کرتے وہ مزید غربت کا شکار ہوتا گیا اور یار دوستوں سے قرض دھار لیکر تھک گیا جس کی وجہ سے اکثر ذہنی پریشانی کا شکار رہے۔علاج کرتے کرتے گزشتہ سال ان کی بیوی وفات پاگئی ۔ کئی ماہ اپنی بیوی کی یاد میں گزارے مگر دوستوں، رشتہ داروں نے دوسری شادی کرنے پر مجبور کیا۔شادی کے چند ماہ بعد وہ کسی حد تک خوش نظر آنے لگا تھا کیونکہ ڈاکٹر نے اس دوسری بیوی سے اولاد کی خوشخبری دی تھی۔مگر ان کی زندگی میں ابھی خوشی نہیں تھی ۔اُس نے اپنی پہلی بیوی کی برسی کے موقع پر خیرات کا ارادہ بھی کیا تھا۔لیکن خیرات کے لیے کی جانے والی تیاری وطن دوست کی اپنی وفات میں بدل گئی۔
اور وہ خیرات جو وہ اپنی بیوی کے ایصال ثواب کے لیے کرنے جارہا تھا وہی خیرات اُس کی موت پر کرائی گئی۔
وطن دوست کی کسی کے خلاف نفرت مہیں تھی وہ ہر کسی کے ساتھ خوشی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے۔میڈیا کے ساتھ ایک انٹر ویو میں وطن دوست سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے وطن افغانستان کیوں نہیں جارہا۔ اُس نے جواب دیا تھا کہ وہاں میرا گھر نہیں ہے نہ معاشی طور پر اتنی سکت ہے۔طالبان کے دور اقتدار میں انہوں نے ہر دفتر، ہربااختیار شخص کا دروازہ کھٹکٹایا ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ارباب اختیار سے ملے کہ وہ بھی اس ملک کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانا چاہتا ہے اور مسافرت کی زندگی چھوڑ کر واپس اپنے ملک آنا چاہتا ہے مگر کسی نے اُن کی قدر نہ جانی۔ وہ اپنے ملک کی دوبارہ آبادی اور ترقی کے خواب دیکھتا رہا اور یہ ارمان دل ہی میں لیکردفن ہوا۔وہ ہمیشہ اپنے ملک کے بارے میں بولتا اور اسی کے بارے میں سننا پسند کرتا تھا۔ان کی شاعری میں ایک درد اور غم چھپا ہوا ہوتا تھا مگر کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔کوئی اُن سے پوچھتا کہ آپ اتنے دکھی ہوکر بھی خوش نظر آتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ غم میرے اپنے لیے ہیں اور دوسروں کوخوش دیکھنا چاہتا ہوں۔انہوں نے لطیفوں ، مزاحیہ شاعری اور باکمال اداکاری کے ذریعے ہمیشہ لوگوں کو ہنْسایا خصوصاً بی بی سی کے طویل دورانیے کے ڈرامے میں ’’ ناظر‘‘ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔عجیب اور قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان نے اس لاجواب اداکار کو کھو کر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ بھارت کے کہنے پر ’’ شربت گُلہ‘‘ کو خصوصی پروٹو کول دیکر افغانستان بُلایا اور خاطر مدارت کرکے مراعات سے نوازا، مگر اپنے ایک جینئس فنکار،شاعر اور محب وطن شخصیت وطن دوست کا پوچھا تک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments