غزل
غزل
زخم دل کے نظر آتے ہیں میری آنکھوں میں
غم کے نالے جو بڑھاتے ہیں میری آنکھوں میں
یوں بدلنا تیری آنکھوں کا بھری محفل میں
چند سوالات اٹھاتے ہیں میری آنکھوں میں
ہر سحر کے یہ اُجالے شبِ ہجراں کے بعد
پھر نئے خواب سجاتے ہیں میری آنکھوں میں
یہ شفق رنگ سرِ شام تیری یادوں کے
کیسے طوفان اٹھاتے ہیں میری آنکھوں میں
کیا کہوں حُسن پرست دل کا فسانہ اپنا
شہر خوبان بساتے ہیں میری آنکھوں میں
راہ جینے کی محبؔ جن کو دکھائی تو نے
اب وہی دھول اڑاتے ہیں میری آنکھوں میں
No comments