Breaking News

ہم مُردہ قوم ہیں افسُردہ قوم ہیں


                                                                                                                       
                                                                                                             
                                                                                                                                                                                                                                                                              (غلام حسین محب)
سانحہ کوئٹہ کا المناک منظر ہے، آگ اور خون ہے، چیخ و پکار ہے، ایمبولینس ہیں، بریکنگ نیوز ہیں ،شہدا ء کی تعداد ساٹھ تک پہنچ چکی، قیامت صغرا، نہیں کربلا کامنظر ہے ، جو ایک بار پھر سارے پاکستان کو زخمی کر گیا۔ لیکن یہ تو ہونا تھا کیونکہ پھر کوئٹہ اور کوئٹہ میں سریاب روڈ ہے وہی سریاب روڈ جس پر گزشتہ ایک عرصے سے مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکوں کے واقعات ہوتے آرہے ہیں ۔ایف سی پر حملہ ہو، پولیس پر حملہ ہو، شیعہ برادری پر حملہ ہو وکلاء پر خود کش حملہ ہو یا پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ ،جائے وقوعہ کوئٹہ سریاب روڈ ہی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’ مسلمان ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا ‘‘جبکہ پشتو میں کہاوت ہے کہ ’’اگر ایک بار تُو نے مجھے دھوکہ دیا تو مجھے خدا غرق کرے اور دوسری بار تو نے مجھے دھوکہ دیا تو مجھے خدا غرق کرے‘‘ اب ذرا غور کریں کہ پاکستان میں سب سے حساس اور نشانے پر بلوچستان ہے جہاں بھارت کھلم کھلا مداخلت کرکے بلوچ علیٰحدگی پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کرتا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی وہی روایتی اظہار ہمدردی،وہی مگر مچھ کے آنسو ،وہی طفل تسلیاں،وزیراعظم آئے،آرمی چیف آئے،وزیراعلیٰ آئے،زخمیوں کی عیادت کی ، اعلانات کیے گئے، ’’قوم کے حوصلے بلند ہیں، دہشت گردی کو ختم کرکے دم لیں گے،دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہے،دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے وغیرہ وغیرہ، ‘‘ اب زخم خوردہ اورشہیدوں کی وارث قوم اس طرح کے سرکاری اعلانات اور حوصلہ افزائی کو لے کر کیا کرے گی۔اُن کے جگر گوشوں کی واپسی اس قسم باتوں سے تو ممکن نہیں، ۔ اوپر سے وقتاً فوقتاً اعلانات کہ ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔دوسرے روز پھر ایک نئے سانحے سے گزرنا پڑتا ہے۔اب چلیے ہم سب یہ تو مان چکے ہیں کہ بیرونی ہاتھ ہے، بھارت ملوث ہے، لیکن روکنا کس کا کام ہے ؟ روکنے والا نہ ہو تو دشمن یہی کچھ تو کرے گا پاکستان کی شہرت یافتہ ایجنسیاں کہاں ہیں ؟ پاکستان کی بہترین فوج کہاں ہے ؟بلوچستان خصوصاًکوئٹہ جیسے حساس شہر میں جہاں پاک چائنہ کوریڈور ہی دشمن کی آنکھوں کاکانٹا بنا ہوا ہے دنیا میں کوئی دوست بھی نہیں رہا اور پھر بھی اتنی کمزور سکیورٹی کیا معنی ؟ پشتو کہاوت ہے کہ ’’ اگردشمن گیدڑ بھی ہو مگر تیاری شیر کے مقابلے کی کرنی چاہیے۔‘‘اب جبکہ سارا ملک آگ کی لپیٹ میں ہے نہ جانے کس گلی میں سے دشمن چھپ کر وار کرے تو پھر کیوں نہ ہمہ وقت الرٹ اورمستعد رہیں۔بہترین فوج اور بہترین اسلحہ کس وقت کام آئے گا۔ امریکہ نے ویتنام جنگ میں شکست کے بعد جدید جنگوں کا معیار ہی بدل لیا۔اب کسی ملک کو تباہ کرنا ہو تو اُسی ملک اندر سے لوگوں کو خریدو اور جنگ کرونقصان ہر طرف سے اسی ملک کا ہوگا۔ 



ہر دردناک اور غمناک واقعہ کے بعد نئے تبصرے اور نئے انکشافات سامنے آتے ہیں ورنہ یہ بات تو اکثر سننے میں آتا ہے کہ یہ سب کچھ پختون قوم کے خلاف ہو رہا ہے لیکن میں اس بات سے اس لیے بھی متفق نہیں ہوں کہ اگر پختون کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو نشانہ بنانے والا یعنی قاتل بھی تو پختون ہیں ،اب سوچنے کی بات ہے کہ پختون کس کے ہاتھ کا کھلونا ہے ؟
سانحہ کوئٹہ میں 62جوان شہید کیے گئے جنہوں نے ابھی عملی زندگی کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔سب جوان تھے نئے ولولے،نئے عزم اور نئی امیدیں لے کر بھرتی ہوئے تھے، مگر ’’ دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘۔مگر اس نئے منظم حملے نے بے شمار سوالات کو جنم لیا ہے۔
(۱) اتنے حساس اور بدنام روڈ جس پر اس جیسے حملے معمول بن چکے ہیں پر پولیس ٹریننگ سنٹر کی سکیورٹی اتنی کمزور کیوں تھی ؟ (۲) چند روز پہلے فارغ کیے گئے رنگروٹوں کو چٹھی دیدی گئی اور پھر اچانک کیوں بلایا گیا۔؟ (۳) اگر ان کو اسلام آباد دھرنے کے خلاف ڈیوٹی پر بھیجنا تھا تو ان کو اسلحہ کیوں نہیں دیا گیا کیا یہ اسلام آباد میں جاکر کراٹوں سے احتجاجیوں کو روکتے؟ (۴) سینکڑوں جوانوں کی ٹریننگ والا سنٹر جہاں پولیس کو لڑنے کے لیے ٹریننگ دی جانی تھی کے ارد گرد کوئی سکیورٹی انتظام نہیں کیا گیا تھا؟ (۵) واقعے کی سکیورٹی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوگی بھی یا سانحۂ وکلا کی طرح چند روزوعدے وعید اور تعزیتیں ہونگیں ؟ 
کوئٹہ میں اب تک سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایاگیا۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ سب سے پسماندہ مگر قدرتی وسائل میں سب سے امیر ترین صوبہ نشانے پر کیوں ہے ؟ جواب واضح ہے کہ پاکستان کو قدرتی وسائل اور گوادر منصوبے کے حوالے سے غیر مستحکم کرنا ہے تو اسی صوبہ کو نشانہ بنایا جائے یہی دشمن کی چال ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ اب بھی سدھرتے نہیں۔اپنے ازلی دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے بھی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔جبکہ دشمن کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کلبھوشن بھارتی جاسوس پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکاہے کراچی میں بھارتی مداخلت کے سینکڑوں ثبوت منظرعام پر آچکے ہیں، مگر دنیا کے سامنے بھارت ہی چلّا رہا ہے اور ہم خاموش ہیں۔ہم اگر دبے الفاظ میں الزام لگاتے ہیں تو اس سے ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔دنیا کے خوبصورت اور ہر قسم نعمتوں سے مالامال ، بہترین آرمی اور بہترین اسلحے سے لیس پاکستان میں اگر کمی ہے تو لیڈر کی ہے۔ہم پاکستانی قوم جوش سے کام لیتے ہیں ہوش سے نہیں ، ہم سیاسی طور پر بالکل یتیم ہیں۔وہ سیاسی لیڈر جو الیکشن کے دوران بھڑکیں مار مارکر اپنی صفائی اور دیانتداری کے گیت گاتے ہیں اقتدار میں آکرملک کو لوٹنے اور قوم کو دھوکہ دینے میں لگ جاتے ہیں مگر وہی لوگ آئندہ الیکشن میں ہمارے سامنے پارسا بن کر آجاتے ہیں مگر پوچھتے بھی نہیں کہ یہ ’’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔پاک بھارت سرحد پر فائرنگ کا کوئی واقعہ ہوجاتا ہے تو میڈیا پر قومی نغمے گونجتے ہیں۔ 


’’اے وطن کے سجیلے جوانو!، میرے نغمے تمھارے لیے ہیں‘‘ یعنی تم لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے مٹھی بھر دشمن سے مات کھاتے رہو شہدا پر شہدا دیتے رہو اور میں صرف تمھارے نغمے گاؤں۔پھر نغمہ چلایا جاتا ہے ’’ وطن کو ہم عظیم سے ؑ ظیم تر بنائیں گے ہم اپنے ملک کا وقار روزو شب بڑھائیں گے‘‘۔ عظیم تر بنائیں مگر اپنے سجیلے جوانوں کو دہشتگردوں کے ر حم و کرم پر چھوڑیں گے۔ایک طرف وطن کے گیت سن کر جذبۂ حب الوطنی جاگ جاتا ہے تو دوسری طرف کوئٹہ جیسا سانحہ دیکھ کر دل لہو لہو بن جاتا ہے۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ ’’ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں‘‘ میرے مُنہ سے بے اختیار نکلتا ہے ’’ ہم مُردہ قوم ہیں افسُردہ قوم ہیں‘‘۔۔۔ 

No comments