Breaking News

انتہا پسندی کے انسداد میں ادب اورفنونِ لطیفہ کا کردار


                               غلام حسین محب
                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ انسان بنیادی طور پر اُنس سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پیار ،محبت اور ہمدردی۔یہی وجہ ہے کہ انسان میں غار کے زمانے کی زندگی سے ایک قسم کی اپنائیت اور جذبِ باہم موجود ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ رفتہ رفتہ انسان نے رہنے کے لیے گھر، گاؤں ،قصبوں اور شہروں تک کا ماحول اپناکرموجودہ ترقیافتہ اور مہذب زندگی تک پہنچا ہے جسے دورِ جدید میں گلوبل    ویلج کا نام دیا گیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسان ہی اس کائنات کا بادشاہ اور مالک ہے یہ وجہ ہے کہ آج دنیا میں وہ سب کچھ ایجاد ہوکر سامنے آچکے ہیں جن کا تصوّربھی چند صدیاں پہلے تک ممکن نہیں تھا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیا کی اس خوبصورت زندگی میں بگاڑ، فساد اور خون خرابے کا ذمہ دار بھی انسان ہی ہے۔ اور یہ صورتِ حال تب پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنی انسانی حدود سے تجاوز کر کے انتہا پسندی پر اُتر آتا ہے۔ چونکہ انسانی معاشرہ یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے وقت اور ضرورت کے مطابق انبیاء کرام علیہ سلام بھیجے جنہوں نے انسانیت سازی پر کام کیا یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بعض علماء محض اُن عبادات پر زور دیتے ہیں جو کہ ذاتی نوعیت کے دینی فرائض میں شامل ہیں جبکہ انسانی رویوں اور معاملات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہیں سے مذہب انسانیت کے خلاف استعمال ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ 
انسانوں میں اس طرح کے حالات پیش آنے کی صورت میں اس کے خلاف خود بخود وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو کہ ذہین ،دانشور اور حساس قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔اور ایسا فطری طور پر ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک جاندار جسم میں مدافعتی نظام موجودہوتا ہے۔
شاعر ادیب اور فنکار بھی معاشرے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کائنات کے اس خوبصورت اور منظّم نظام کو اچھے اور صحیح انداز میں جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ زندگی کی رعنائیوں اور رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھا جاسکے۔اس مقصد کے لیے وہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں جو عام انسانوں میں نہیں ہوتے۔ ان صلاحیتوں میں شاعری، ادب اور فن موسیقی شامل ہیں ۔یہی فنونِ لطیفہ کہلاتے ہیں جن کا تعلق انسان کے مثبت رویوں ، اچھے اقدار ا،ہمدردی ،فلاح و بہبود اور حُسن و محبت سے ہوتا ہے۔لیکن ان اوصاف اور خصوصیات کو اجاگر کرنے اور اور عام کرنے میں اہم کردار فنونِ لطیفہ سے وابستہ یہی لوگ ادا کر سکتے ہیں
جو کہ تعداد میں کم مگر سوچ، فکر اور ذہانت میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
بقولِ رحمان بابا۔ جؤ دانہ قد ری یو لعل پکی پید ا شی گنی نو رھسی د تورو کانڑ و غر دے 
یعنی ’’جو کے دانے جیسا ایک لعل پیدا ہوتا ہے ورنہ باقی کالے پتھروں کا پہاڑ ہے‘‘۔ قمتی پتھر کم ہوتے ہیں مگر اہمیت اور افادیت میں سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
شاعرادیب اور فنکار ہمہ وقت اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ معاشرتی استحکام ، باہمی انسانی مراسم اور ہمدردانہ جذبوں کو فروغ دیا جا سکے جن کے بغیر ایک پرامن اور خوبصورت معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
امن و محبت کے فروغ اور دہشت گردی کے انسداد میں ادیب اور فنکار کے کردار سے انکار ممکن نہیں بلکہ جب سے پاکستان میں امن و امان کا مألہ پیدا ہوا ہے شاعر اور فنکار ہی نے اس خلاف بولا اورگایا ہے۔حالانکہ دینی علماء کے کے مطابق اسلام کا اصل روح ظالم جابر کے خلاف آواز اٹھانا ہے لیکن افسوس کہ جو کام انہی علماء کا کام تھا وہ فی زمانہ شااعر ادیب کر رہا ہے۔موجودہ گھمبیر صورت حال میں انسانی زندگی جتنی اجیرن ہوگئی ہے اتنی ہی اس دور میں اچھی شاعری اور ادب تخلیق ہوا ہے۔
فاٹا کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہاں کافی حد تک ہر مکتب فکر کے لوگ متاثر ہوئے ہیں اور کافی جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے۔ لیکن پھر بھی شاعر خاموش نہیں رہا۔ان حالات کے دوران ہی فاٹا کی سطح پر ’’قبائل ادبی جرگہ‘‘ کا قیام عمل میںآیا۔ جس میں تمام قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے شعراء شامل تھے مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جرگہ فعال نہ ہوسکا حالانکہ اس جرگے کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ محروم اور مایوس قبائلی عوام کو ایک حوصلہ اور امید دی جائے تاکہ موجودہ صورت حال سے بخوبی نمٹا جاسکے۔اسی طرح ہر قبائلی ایجنسی میں مقامی سطح پر ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کی ایک مثال راقم الحروف زیر نگرانی چلنے والا ’’مومند ادبی غنچہ‘‘ بھی ہے جو گزشتہ ستائیس سال سے سرگرم عمل ہے جس کے زیر اہتمام اب تک درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور امن کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ادبی تقریبات اور مشاعروں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔اسی طرح کئی ادبی تنظیمیں فعال کردار ادا کرکے قوم و ملک کے استحکام اور امن کی بحالی کے لیے نظم اور نثر میں لکھنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔شعراء اس ہنگامی ماحول میں فن و ادب کے ذریعے نازک اور شیرین الفاط سے نفرتوں کے اندھیروں میں رنگ و روشنی بکھیر رہے ہیں۔بدامنی کا شکار پاکستانی عوام کے لیے اسی طرح فنون لطیفہ کے فروغ کی ضرورت ہے جو انسان کے اصل جوہرِ انسانیت کوچھیڑ کر اس میں محبت ،ہمدردی،بھائی چارہ ،صبرو برداشت اور امن و آشتی کا جذبہ بیدار کرسکے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جب امن و امان کا مألہ پیدا نہیں ہوا تھا قبائلی زندگی باوجود اس کے کہ کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں تھی لیکن ایک پرامن زندگی کا دوردورہ تھا ہرطرف خوشحالی اور سکون کا ماحول تھا اُس وقت شعرو شاعری کے ساتھ ساتھ فنکارانہ سرگرمیاں بھی جاری رہیں اکثر حجروں میں آدھی آدھی رات تک نوجوان بیٹھ کر رباب اور گھڑے کے ساتھ موسیقی کی محفلیں سجاتے تھے جو اس بات کی علامت تھی کہ لوگ ایک دوسرے سے مطؤن اور بے خوف تھے۔کسی شادی میں موسیقی کے فنکاروں کو بلایا جاتا جو صبح تک محفلیں گرم رکھتے اور علاقے کے لوگ دور دراز سے آکر ان سے محظوظ ہوتے۔شعراء کا کردار تو ایسے میں سب سے زیادہ اور اہم بن جاتا ہے۔کیونکہ شاعر امن پسند اور باہمی محبتوں کو بانٹتے ہوئے تمام انسانوں کو ایک پیج پر دیکھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔وہ ہمیشہ نفرتوں کی تاریکیوں کے خلاف محبت روشنی پھیلانا چاہتے ہیں جیسا کہ کہتے ہیں،۔ 
قسم بہ درتہ وکڑمہ پہ رب د رنڑا گانو ما ٹول عمر لہ کڑے دے طلب د رنڑا گانو 
یعنی ’’ میں اپنے روشنیوں کے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمر بھرروشنیوں کی طلب کی ہے۔
پس معلوم ہوا کہ معاشرے میں سب سے زیادہ پرامن لوگ شاعر اور فنکار ہوتے ہیں۔ اب یہ شاعر اور فنکار پر منحصر ہے کہ وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتیں کس طرح استعمال کرتاہے کہ اچھے اور موؤر انداز میں پیغامِ امن و محبت کو کس طرح عام کرتا ہے۔
خود ہم نے اس مقصد کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو مثلاً شادی، سالگرہ یا عید وغیرہ شعرو شاعری کی محفل سجانا چاہیے اور کم از کم مہمند ایجنسی میں تو ہم نے کافی حد تک اس کو عملی کیا ہے۔اور بعض جگہوں پر شادی کے موقع پرمشاعرے کے بعد محفل موسیقی کا اہتمام کیا جاتا ہے جس سے کافی حد تک ہمت اور حوصلہ بحال کرنے میں مدد ملتی ہے۔یوں تو مشاعروں میں شعرا ایک دوسرے واہ واہ کرکے داد دیتے ہیں لیکن اس سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو کہ شاعری کی بنیاد ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مشاعروں کو عام کرکے عوامی حیثیت دی جائے تاکہ شعرا کو اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کا موقع مل سکے اور ساتھ ہی عوام کو بھی شعرو شاعری کی حیثیت و اہمیت کا پتہ چلے۔ اس طرح شاعری ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال ہوگی اور کردار سازی اور باہمی رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ے۔
الغرض فی زمانہ جہاں بد امنی ، مایوسی، افراتفری،شکوک و شبہات اور بد اعتمادی کی فضا ہے ایسے میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنا مثبت کردار ادا کرے مگر سب سے اہم رول شاعر ادیب کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے احساس و شعور کی نعمت سے نوازا ہے اورسخن سازی کا ہنر دیا ہے۔وہ ہی اس معاشرے تشکیلِ نو اور اعتماد سازی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ گزشتہ روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان 
HRCPکی جانب سے منعقدہ ورکشاپ میں اسی موضوع پر راقم الحروف نے لکچر دیا جس کا کچھ حصہ اس کالم میں پیش کیا گیا۔



لیکن اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ان اہم ستونوں یعنی شاعر ادیب اور فنکارکے سپورٹ کی بھی اشد ضرورت ہے گو کہ اس مقصد کے لیے حکومتی سطح پرباقاعدہ وزارت اور ادارے موجود ہیں مگر یہ وزارت اور ادارے کہاں تک اپنا فرض نبھاتے ہیں یہ قابل افسوس اور قابل تشویش ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے محکمۂ ثقافت اور اکادمی ادبیات پاکستان اس سلسلے میں فوری اقدامات کرے۔شعرا ، ادیبوں اور فنکاروں کو مواقع فراہم کرے انکی حوصلہ افزائی کرے انکی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرے اور ان کی مالی معاونت کرے۔تاکہ معاشرے کی آنکھ، کان اور دماغ کہلانے والے یہ لوگ اپنا مقام پاکر اپنا کردار مزید بہتر انداز میں ادا کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments