فاٹا میں کرپشن اور احتساب
،،غلام حسین محب ،،
1993ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھنے والے ایگن پیٹر کے مطابق جب تک کرپشن کنٹرول نہیں ہوگی کوئی ملک معاشی ’’ٹیک آف‘‘ نہیں کرسکتا۔قدرتی وسائل اور پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا شمار امیرترین ملکوں میں ہوتا ہے مگر کرپشن کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بھی ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘۔ اگر پاکستان میں چھوٹے سے بڑے تک کرپشن کا ماہر نہ ہوتا تو آج ان قدرتی وسائل اور بہترین جغرافیائی ساخت رکھنے والا پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہوتا کہ سارے ممالک پاکستان کے محتاج ہوتے۔
ماشاء اللہ مسلمانان عالم میں کرپشن اس طرح عام ہوچکی ہے جس طرح موبائل اور کمپیوٹرٹیکنالوجی گھر گھر پہنچ چکی ہے۔لیکن اگر ہم بات کریں پاکستان کی تو یہاں آپ عام لوگوں سے جن میں مزدورکار،دکاندار،ٹھیکدار،چپراسی سے لیکر آفسرشاہی تک اور پھروزراء اور امراء تک اس خوشذائقہ گناہ میں ملوث ہوچکے ہیں ۔ہمارے حکمران بلکہ اکثر سیاسی لیڈر اپنے آپ کو پاک اور پارسا ثابت کرنے کے لیے میڈیا اور ایڈورٹائزمنٹ کا سہارلیتے ہیں جبکہ اصل میں ایسا نہیں اور نہ ایسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول شاعر
پہ خپلہ پاکبازئی چی ی قسم خوڑو تقریر کی پہ وینو د مظلوم ورلہ بینری جوڑید لی
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لیڈر تقریروں میں ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا، مارٹرلوتھرکنگ، قائداعظم، بلکہ حضرت عمر فاروقؓ تک کی مثال دیتے ہیں اور شرم انکو مگر نہیںآتی۔یہ وجہ ہے کہ آج ہر چیز میں ملاوٹ عام ہوچکی ہے کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا علاج معالجے کی دوائیاں یہاں تک کہ اگر کوئی ان حالات سے تنگ آکر خودکُشی کرنا چاہے تو زہر میں بھی ملاوٹ کی وجہ سے نہیں کرسکتا اس کے لیے دوسرے طریقے ڈھونڈنا ہونگے۔ہم بات کررہے تھے کرپشن کی تو اگر پاکستان کا یہ حال ہے تو اُن بے چارے قبائل کا کیا حال ہوگا جہاں عرب ملکوں کے بادشاہوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط شخص پالیٹیکل ایجنٹ مختارِ کُل ہوتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں کرپشن کے لیے افسران FCRکا سہارا لیتے ہوئے آسانی سے چھپ جاتے ہیں اور کوئی یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ اُن سے پوچھے کہ ہر ایجنسی کے لیے کتنی رقم سالانہ ADPمیں رکھی جاتی ہے اور کہاں کہاں خرچ ہوتی ہے۔ایک پولیٹیکل ایجنٹ آکرکروڑوں روپے خرچ کرتا ہے تو دوسرا آکر خزانے کے اوپر اژدہا بن کر بیٹھ جاتا ہے لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ پیسے اچانک کہاں غائب ہوگئے۔
یوں تو ملک میں ایف آئی اے، نیب اور وفاقی محتسب جیسے احتساب کے سرکاری ادارے موجود ہیں مگر ہر بڑے کرپشن کیس کے لیے خصوصی کمیٹیاں بناتے بناتے سالوں گزر جاتے ہیں اور عوام نتائج کے انتظار میں ایک اور کرپٹ حکومت کا شکار ہوجاتی ہے ۔اب اگر ہم بات کریں قبائلی علاقوں کی تو وہاں تو چوپٹ راج ہے نہ احتساب کا ڈراور نہ اللہ کا خوف، وہاں تو بادشاہ لوگ بیٹھے ہیں اُن سے کون پوچھ سکتا ہے
سالانہ اربوں روپے فاٹا کے نام پر منظور کیے جاتے ہیں جن کا باقاعدہ اعلان گورنر پختونخوا کرتا ہے مگر پھر سال گزر جاتا ہے اور کائی پتہ نہیں چلتا کہ کتنی رقم کہاں سے آئی کہاں خرچ ہوئی،ہرقبائلی ایجنسی کو سالانہ گرانٹ کے علاوہ معدنیات، ماربل، کرومائٹ،نیپرائٹ اور دوسرے اشیاء کی مد میں کروڑوں روپے ٹیکس ملتا ہے ۔ہر پولیٹیکل ایجنٹ انگریزوں کے وضع کردہ نظام ایف سی آر کے تحت چند ملکان اور منظور نظر عمائدین کو ماہانہ خرچہ دیتا ہے جو پی اے کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے کہ کسے دینا ہے اور کسے نہیں۔کتنا دینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج فاٹا سے اس کالے نظام کے خاتمے کی مخالفت یہی لوگ کررہے ہیں جو انپڑھ ہیں اور جن سے صاف کاغذ پر انگوٹھا لگاکر معمولی خرچے پر ٹرخایا جاتا ہے اور یاکسی تنازعہ کی صورت میں اسی کاغذ پر اپنی مرضی کا فیصلہ لکھوایا جاتا ہے۔

آج فاٹا میں ہر محکمہ،صحت،تعلیم،مواصلات،زراعت،جنگلات، کرپشن میں مکمل طور پر ڈوبا ہوا ہے مگر عدالتی اور صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے سب پارسا اور محب وطن ہیں۔کبھی کبھی گورنر انسپکشن ٹیم قبائلی علاقوں کا دورہ کرتی ہے لیکن آج تک کسی پولیٹیکل ایجنٹ یا کسی اور آفیسر کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنا اور نہ کوئی ریکوری ہوئی۔کیونکہ وہ کمیٹی بھی ایسے ہی لوگوں کا ٹولہ ہوتی ہے ورنہ یہ تو سب جانتے ہیں اسی پولیٹیکل ایجنٹ کی پوسٹ کے لیے کروڑوں روپے رشوت دی جاتی ہے آخر کیوں ؟
پچھلے دنوں ’’نوٹو کرپشن‘‘ کے نام پر ایک نعرہ لگا تھا بلکہ عالمی سطح پر کرپشن کے خلاف دن منایا جارہا تھا اسی سلسلے میں ہیڈ کوارٹر غلنئی میں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک سرکاری آفیسر نے مذاق مذاق میں ایک پتے کی بات بتا دی۔کہ اس تقریب میں جو لوگ شریک ہیں عجیب بات ہے کہ یہ لوگ خود کرپٹ ہیں اور آج کرپشن کے خلاف تقریریں کررہے ہیں۔
آج کل بات گرم ہے کہ قبائل کا مستقبل تبدیل کرنا ہے مگر بڑے پیمانے پر کرپشن کے خاتمے کی ڈر سے کون کون سے لوگ اکٹھے ہوچکے ہیں یہ سب جانتے ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مہمند ایجنسی میں سینکڑوں خاصدار اور لیوی فورس سے جرمانوں کے بہانے کروڑوں روپے وصول کیے جاتے ہیں اگر کوئی سپاہی ایک یا دو دن غیر حاضر ہوتا ہے تو اس سے مہینے بھر کی یا آدھی تنخواہ جرمانہ کی صورت میں کٹوتی ہوتی ہے ان کے علاوہ درجنوں ایسے بھی ہیں جو کہ ڈیوٹی نہیں کرتے اور اُن کی تنخواہ نکال کر دوسروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے یا اُسی شخص کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ففٹی ففٹی کر دی جاتی ہے۔اب اگر قبائل کو صوبہ پختونخوا میں شامل کیا گیا تو سب سے پہلے اب تک کے تمام گزشتہ پولیٹیکل ایجنٹوں اور دیگر افسران کا حتساب کرنا ہوگا جس سے اربوں روپے واپس آکر قومی خزانے میں جمع ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔
No comments