جانوروں کا مسکن یا انسانوں کا جنگل ؟
(شمس مومند)
شاعر فرماتے ہیں، سینچا تھا جسے زہر سے نفرت سے لہو سے
اب تم کو مبارک ہو وہی پیڑ جواں ہے
نہایت افسوس کیساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہم جدید اور مہذب دنیا کے جس خطے میں رہایش پزیر ہیںآرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام اور احتجاجوں میں غریب بے کس اور بے گناہوں کے مال و املاک حتی کہ خون سے ہولی کھیلنے کے بعد اسکو انسانوں کا معاشرہ کہنا بہت مشکل ہے۔ یا تو یہ جانوروں کا مسکن ہے جہاں جس کے جی میں جس وقت جو آئے وہ کر گزرے، نہ کوئی قانون نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ جزا و سزا کا کوئی باقاعدہ نظام۔ یا پھر یہ انسانوں کا جنگل ہے۔ کیونکہ شکل و صورت سے تو اللہ تعالی نے ہمیں انسان بنادیا ہے۔ مگر انسان اور جانور کے درمیان سب سے بڑا فرق صرف عقل علم اور شعور کا ہے۔ اگر انسان کے پاس علم نہ ہو یا اس کے پاس علم ہو مگر عقل اور شعور نہ ہو یا پھر یہ دونوں ہو مگر وہ اس کا صحیح استعمال نہ کرے تو پھر ہم جیسے انسان نما جانوروں کے جنگل بنتے ہیں مہذب اورخوبصور ممالک نہیں۔
گزشتہ چار روز ملک بھر میں عموما اور پنجاب میں خصوصاعشق رسول کے نام پر امت رسول کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا۔ یقین جانئے ایسا سلوک کسی نے جانوروں کے جنگل میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ کیونکہ جانور بھی بلاوجہ نہ ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں نہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ مگر یہاں پر مزدور کاروں کے رکشوں، موٹر سائیکلوں گاڑیوں اور بسوں کو جس شوق وحشت اور بر بریت کیساتھ جلایا گیا۔ اس کی مثال دنیا میں جنگوں کے دوران بھی ملنا مشکل ہے۔ کیا کسی عاشق رسول مولوی کے پاس اس بات کا کوئی جواز ہے کہ ایک غریب کم سن ریڑھی بان کیلے فروش کے کیلے جب یہ عاشقان رسول مال غنیمت سمجھ کر ہنستے ہنستے لوٹ رہے تھے تو ان بے چارے کے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ اور وہ جب خالی ہاتھ گھر پہنچا ہوگا تو اسکی بے چاری والدہ پر کیا گزرا ہوگا۔ کیا کسی مفتی کے پاس اس مسئلے کا کوئی شرعی پیمانہ ہے کہ جس بوڑھے رکشہ ڈرائیور کا زندگی بھر کی کمائی ان کا رکشہ جب یہ انسان نما جانور آگ میں جھونک رہے تھے جب وہ غریب مزدوروں اور طلباء کی موٹر سائیکلیں جلا رہے تھے تو اس سے ان مجاہدین کے ایمان میں کتنا اضافہ ہوریا تھا۔ اور خاص کر یہ کہ یہ جہاد کا کونسا درجہ تھا۔ مجھے کوئی خادم، مسکین ، مولوی مفتی دانشور یا انکر جواب دے ، کیا سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو اس کیلہ فروش بچے نے مجبور کیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو بری کردے۔ یا ججز صاحبان نے ان بیچارے بس ڈرائیوروں سے مشورہ کیا تھا جن کے بسوں کو ڈندوں کے زور سے مسلمان بنایا گیا۔
مگر اس موقع پر مجھے یہ کہتے ہوئے بھی کوئی عار نہیں کہ ملک وقوم کے لاکھوں نوجوانوں کو مفت اور لازمی تعلیم سے محروم رکھ کر ، معیاری تعلیمی اداروں کی بجائے انہیں فرقہ پرست مدارس کے حوالے کرکے ہم نے خود یہ بیج بویا ہے۔ ہم نے مدارس تو درکنار سکولوں اور کالجوں میں بھی نوجوانوں کو ہم آہنگی محبت اور جوڑ کی بجائے دوسروں سے علیحدگی توڑ اور نفرت کی تعلیم دی ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو مثبت مقابلے اور دوسروں کیساتھ چلنے کی بجائے منفی مقابلے اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر چلنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ہم نے انہیں جہاد کی فضیلت اور اہمیت تو بتا دی مگر انہیں اس کی فرضیت اور مسنون طریقہ نہیں سکھایا۔ ہم نے قوم کو پیغمبر سے محبت کا درس تو دیا مگر انہیں یہ نہیں بتایا کہ ان سے محبت کا تقاضا اور طریقہ کیا ہے۔ بقول شاعر ۔ تم نے ہر کھیت میں انسانوں کے سر بوئے ہیں۔۔۔۔۔ اب زمیں خون اگلتی ہے تو شکوہ کیسا؟
جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم بحیثیت قوم تہذیب نرگسیت کے شکار ہے اس کے باوجود کہ دنیا کی ترقی ، سائینس ٹیکنالوجی اور سہولیات کی فراہمی میں ہمارا کردار صفر کے برابر ہے ہم بلاوجہ خود کو پوری دنیا سے افضل اور برتر سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی جہالت معصیت اور بدکرداری کے باوجود نیابت خداوندی کے دعویدار ہیں ہم اپنی تمام تر بد اعمالیوں کمزوریوں اورجہالت کے باوجود خود کو خلافت کے حقدار اور دوسروں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔اگر برا نہ لگے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کئے کی سزا دوسروں کو دینے پر فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان میں جمہوری حق اور احتجاج کے نام پر گزشتہ پانچ سال سے جو جمہور اور قانون کا مذاق اڑایا جارہا ہے اس کا راستہ ہر حال میں بند کرنا ہوگا۔ کیونکہ قانون کی رو سے ہر انسان کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کا حق شروع ہوتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق احتجاج کے ان چار روز میں ملک کو ایک سو پچاس ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس کی تلافی کون کرے گا۔ اور سب سے اہم ترین بات یہ کہ جس طرح بات بے بات چند سو یا چند ہزار لوگ نکل کر پورے ملک کو یرغمال بناتے ہیں ، کاروبار کو ٹھپ کرتے ہیں زندگی مفلوج کرتے ہیں، اور دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، کیا حکومت اور ریاستی اداروں کا کام صرف یہ ہے کہ دنوں اور ہفتوں تک ان سے صرف مذاکرات کئے جاتے رہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بار بار یہ اعلان بھی کرتے رہے کہ طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کیا پولیس کا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں اگر ہے تو پھرپولیس اپنا فرائض منصبی پورا کرنے کے لئے حکمرانوں سے ہدایات لینے پر مجبور کیوں ہے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں یہ طریقہ ہے کہ پولیس کے سامنے ایک درجن احتجاجی لوگ سڑک بند کرکے دس ہزار افراد کے حق حرکت کو سلب کرتے ہیں ، ایک درجن جوشیلے جوان پولیس کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں کا سرکاری و غیر سرکاری املاک تباہ کرتے ہیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہے۔
میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی اور وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے احتجاج اور جمہوری حقوق کے نام پر جو فصل بویا ہے اس کو کاٹا جائے۔ اور عمران خان اپنے بلند و بانگ دعووں کے مطابق پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ اور عدالتی خوف سے مکمل آزادی دلائے اور انہیں امن و امان برقرار رکھنے کی مکمل ذمہ دار سونپے۔۔ اور جوجو لوگ ان چار روز میں شرپسندی اور املاک کو تباہ کرنے میں ملوث رہے ہیں ان کو قانون کے کٹھرے میں کھڑا کیا جائے۔ جن علماء نے آرمی چیف ججز اور وزیر اعظم کے خلاف بغاوت کرانے اور تختہ الٹنے کے فتوے جاری کئے ہیں انہیں ملک اور آئین سے غداری کرنے اور بغاوت کرنے کی جرم میں سزائے دی جائے۔ بصورت دیگر تباہی بربادی اور جہالت کا یہ سلسلہ مزید پھیلتا جائے گا۔اور خدانخواستہ۔۔۔ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔


No comments