فاٹا انضمام اور نابیناوں کا ہاتھی
(۔۔۔۔۔۔( شمس مومند
قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ چار نابینا افراد کو ایک کمرے میں چھوڑا گیا جس میں ایک بڑا ہاتھی پہلے سے موجود تھا۔ چاروں سے ایک ہی سوال تھا کہ کمرے میں پہلے سے کیا چیز موجودہے؟ ایک نابینا نے ہاتھ مارتے ہوئے ہاتھی کا پاوں پکڑ لیا اور نعرہ لگایا یہ تو ستون ہے۔ دوسرے نے کوشش کی تو اس کے ہاتھ ہاتھی کی دم لگی وہ چلایا یہ تو بڑی رسی ہے۔ تیسرا نابینا ہاتھی کے جسم سے ٹکرایا ، اس نے کہا یہ تو مٹی کا ٹیلا ہے چھوتے نابینا کو ہاتھی کی سونڈ ہاتھ آئی اس نے اپنی مرضی کی ہانکی۔ مختصر یہ کہ جس کو جو حصہ ہاتھ لگا اس نے پورے ہاتھی کو ڈھونڈنے اورسمجھنے کی بجائے جلد سے جلد کامیابی حاصل کرنے کے شوق میں اسی کو کمرے میں موجود شے قراردیا ۔اور اس کا اعلان کردیا۔ کم و بیش یہی حال آج کل فاٹا انضمام کے بعد قبائل کا ہے۔ انضمام کے حامیوں کا دعوی ہے کہ انضمام ہی قبائل کے تمام مسائل کا واحد حل اور محرومیوں کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ ملکان صاحبان نے واویلا مچادیا ہے کہ مفت کے سرکاری خرچے بند ہونے سے ہزاروں قبائلی عوام کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے۔ بیوروکریسی کے وہ افسران و اہلکار جن کے پانچوں انگلیاں گھی میں تھی وہ اگرچہ خود کنفیوز ہے مگر عوام کو کنفیوز کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ان کا موقف ہے کہ اختیارات اور فنڈز کے استعمال کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں جس کی وجہ سے ٹرائبل ڈسٹرکٹ خدانخواستہ تباہ ہوجائے گی۔ علی ھذ القیاس۔ جتنی منہ اتنی باتیں۔
ہر شخص اپنی مرضی کی جز پر بات کررہا ہے اور انہیں اپنی مرضی کی تعبیریں اور شکلیں دے رہا ہے۔ کوئی بھی کل پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ تمام پشتون عموما جبکہ قبائل خصوصا بے صبریں واقع ہوئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم میں سے اکثریت کسی بھی مسئلے کی گہرائی میں جانے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے بس سطحیت کے دلدادہ ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ انضمام کے حامی کامیابی کے زعم میں تھوڑے سے خاموش ہوکر آرام فرما رہے ہیں جبکہ اس کے مخالفین بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی بھلی کے مصداق کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی لالچ میں میدان میں کود پڑے ہیں۔ آئیے ذیل میں انضمام کے بعد کی پیش رفت کا ذرا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں۔
اٹھائیس مئی دو ہزار اٹھارہ کوآئینی انضمام کے فورا بعد ملک کے زمام اقتدار نگران حکومت کے حوالے کئے گئے ۔ جس کا کام ملک میں انتخابات کروانا تھا، انھوں نے دو مہینے دن رات ایک کر کے پچیس جولائی کوعام ا نتخابات کروائے۔ جس کے بعد انتقال اقتدار کا مر حلہ شروع ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا قیام صدر مملکت کا انتخاب ،وزرا کاچناوں، گورنروں کی تعیناتی اور ضرورت کے مطابق مناسب بیوروکریسی کی تعیناتی اور تبدیلی کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اکیس کروڑ عوام کی زندگی سے تعلق رکھنے والے یہ تمام وہ اہم ترین مراحل تھے۔ جس کو کسی بھی مر حلے پر نظر انداز کرنا ناکامی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی نئی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان نے قبائل کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ انھوں نے پہلی فرصت میں انضمام کی رفتار کو تیز کرنے اور مناسب اقدامات اٹھانے کی خاطر فاٹا ٹاسک فورس قائم کی۔ اگرچہ ٹاسک فورس میں سابق اے سی ایس حبیب اللہ خان ، سینیٹر ہدایت اللہ خان اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری صاحب کی شمولیت سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہ تینوں افراد فاٹا انضمام تو درکنار وہاں بڑے پیمانے پر اصلاحات ہی کے خلاف رہے ہیں۔ مگر دوسری جانب اسی ٹاسک فورس میں وزیر دفاع اور سابق وزیر اعلی پختونخوا پرویز خٹک اور سابق بیوروکریٹ ارباب شہزاد کی بحیثیت چئیرمین موجودگی اس بات کی نشاندہی ہے کہ ٹاسک فورس کوئی بھی فیصلہ یک طرفہ نہیں کر سکے گی۔
جہاں تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے پارٹی موقف کا تعلق ہے وہ بہت واضح ہے کہ وہ انضمام کے حق میں ہے بلکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے وزیر خزانہ اسد عمر کو واضح ہدایات دی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کچھ بھی ہو، انضمام کو یقینی بنانے اور قبائل کے مسائل حل کرنے میں فنڈز کی کمی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ اور اسد عمر نے انہیں بھرپور یقین دہانی کرادی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ وزیر اعظم کے اسی اخلاص اور پارٹی موقف کی بدولت درجہ بالا تمام اہم ترین مصروفیات کے باوجود حکومت نے واضح اعلان کیا ہے کہ این ایف سی کے آئندہ اجلاس میں ٹرائبل ایریاز کے لئے تین فیصد فنڈز کی تخصیص یقینی بنائی جا ئے گی۔ حکومت نے انضمام کو بلا رکاوٹ یقینی بنانے کے لئے فاٹا سیکرٹریٹ کے خاتمے کا واضح اعلان کردیا ہے جس پر مر حلہ وار عملدرآمد بھی جاری ہے۔ اب تک محکمہ صحت، تعلیم، سوشل ویلفئر عشر و زکوات وغیرہ صوبائی سیکرٹریٹ منتقل کر دئے گئے ہیں۔ ٹرائیبل اضلاع کے لئے چوبیس ارب روپے کاسالانہ ترقیاتی پروگرام منظور کیا گیا ہے ۔ صحت کارڈ کا دائرہ قبائلی اضلاع تک بڑھانے کے لئے اقدامات جاری ہے۔ جبکہ خطے میں صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کے لئے کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ کالم لکھتے ہوئے ابھی ابھی یہ اطلاع بھی موصول ہوئی کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایف سی آر کے متبادل فاٹا انٹرم ریگولیشن کے تحت انتظامیہ کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا۔ جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔بادشاہی اختیارات کے حامل پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدے ختم کر کے ڈپٹی کمیشنر اور اسسٹنٹ کمیشنر میں تبدیل کئے گئے۔ جس کے اثرات کا اندازہ اس ایک بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ گریڈ انیس کے پولیٹیکل ایجنٹ خیبر کی پوسٹ پر تعیناتی کے لئے بیوروکریسی اعلی فوجی افسران سمیت وزیر اعظم اور صدر پاکستان تک کی سفارشات ڈھونڈتے تھے اور رشوت کے طور پر پیسوں بھرے بریف کیسز ان کے گاڑیوں میں موجود ہوتے۔ مگر ڈی سی بنتے ہی اس پوسٹ کی اہمیت اس حد تک گر گئی کہ عید الاضحی سے لیکر ایک ہفتہ قبل تک یعنی تقریبا دو مہینے یہ پوسٹ خالی رہی۔ کسی کو یاد بھی نہیں تھا کہ اس پوزیشن پر کسی کی بروقت تعیناتی بھی ضروری ہے۔
جہاں تک حکومتی ترجیحات میں غلطیوں اور کوتاہیوں کا تعلق ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک طرف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی سے متاثرہ تقریبا چھ سو سکول کھنڈر پڑے ہیں، درجنوں ہسپتال اور دوسرے سرکاری عمارتیں ناقابل استعمال ہیں۔ باجوڑ سے وزیرستان تک لاکھوں گھر اور ہزاروں دکانیں ابھی تک ملبے کا ڈھیر بنی پڑی ہے۔ مگر حکومت کو فکر پڑگئی ہے پولیس تھانوں اور پولیس لائن کے قیام کی، ٹاسک فورس کو فکر ہوگئی ہے وہاں جیلوں کے قیام کی اور حکومت کو فکر ہورہی ہے جوڈیشل کمپلیکسیز کے قیام کی جس کے لئے نہ صرف اربوں روپے درکار ہیں بلکہ پولیس جیل اور عدالت یہی وہ تین اشیاء ہیں جس سے قبائلی عوام شدید خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انضمام کے حامی بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انضمام کے بعد تصویر کے بہتر رخ دکھاکر قبائل کو تبدیلی پر آمادہ کرنے اور ان کو سہولیات اور حقوق دینے کی بجائے ان کو انضمام سے ارادتا متنفر کیا جا رہا ہے۔ محروم قبائلی عوام کو سکول ہسپتال بجلی گیس اور روزگار جیسے بنیادی حقوق و سہولیات دینے کی بجائے ان کے سروں پر پولیس کو بٹھایا جارہا ہے ۔ان کو جیلوں سے ڈرایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کی تباہی کے ذمہ دار پورا ایف سی آر اور اس کے تحت قائم نظام تھا یا صرف لیوی اور خاصہ دار فورس، جو آج سب کچھ چھوڑ کر صرف ان کو پولیس میں تبدیل کرنے کی کوششیں زوروں
پر ہے۔اس لئے ان سطور کے ذریعے قبائلی عوام سے گزارش ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی، اگر ستر سال تحصیلدار اور پولیٹیکل محرر کی غلامی میں گزارسکتے ہیں تو دو چار سال جمہوری حکومت اور ڈپٹی کمیشنر کو بھی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ انضمام کے مخالفین سے عرض ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اب اپنی توانائیاں انضمام کی مخالفت پر صرف کرنے کی بجائے انضمام کے فوائد سے اپنے بچوں کو مستفید کرانے کی کوشش کیجئے۔ اور ساتھ ہی ٹاسک فورس سمیت حکومتی ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ دو تین سال تک پولیس کا کام لیوی اور خاصہ دار سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ وہاں پہلے سے قائم جیل ابھی بھرے نہیں ہیں نہ ہی قبائلی عوام جرائم پیشہ ہیں کہ ان کو جیلوں میں ڈالنے کے لئے سب سے پہلے جیلیں بنائی جائے۔خدا را ، انضمام کے فوائد سے غریب عوام کو فیض پہنچانے کے لئے وہاں ترقی کی رفتار تیز کی جائے وہاں لازمی اور مفت تعلیم، صحت کی سہولیات ، بجلی گیس اور انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے۔ اور روز گار کو بڑھایا جائے۔ پانچ سال بعد وہ لوگ خود پولیس عدالت اور ملکی قوانین کا مطالبہ کرینگے۔
shamsmomand@gmail.com
قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ چار نابینا افراد کو ایک کمرے میں چھوڑا گیا جس میں ایک بڑا ہاتھی پہلے سے موجود تھا۔ چاروں سے ایک ہی سوال تھا کہ کمرے میں پہلے سے کیا چیز موجودہے؟ ایک نابینا نے ہاتھ مارتے ہوئے ہاتھی کا پاوں پکڑ لیا اور نعرہ لگایا یہ تو ستون ہے۔ دوسرے نے کوشش کی تو اس کے ہاتھ ہاتھی کی دم لگی وہ چلایا یہ تو بڑی رسی ہے۔ تیسرا نابینا ہاتھی کے جسم سے ٹکرایا ، اس نے کہا یہ تو مٹی کا ٹیلا ہے چھوتے نابینا کو ہاتھی کی سونڈ ہاتھ آئی اس نے اپنی مرضی کی ہانکی۔ مختصر یہ کہ جس کو جو حصہ ہاتھ لگا اس نے پورے ہاتھی کو ڈھونڈنے اورسمجھنے کی بجائے جلد سے جلد کامیابی حاصل کرنے کے شوق میں اسی کو کمرے میں موجود شے قراردیا ۔اور اس کا اعلان کردیا۔ کم و بیش یہی حال آج کل فاٹا انضمام کے بعد قبائل کا ہے۔ انضمام کے حامیوں کا دعوی ہے کہ انضمام ہی قبائل کے تمام مسائل کا واحد حل اور محرومیوں کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔ ملکان صاحبان نے واویلا مچادیا ہے کہ مفت کے سرکاری خرچے بند ہونے سے ہزاروں قبائلی عوام کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے۔ بیوروکریسی کے وہ افسران و اہلکار جن کے پانچوں انگلیاں گھی میں تھی وہ اگرچہ خود کنفیوز ہے مگر عوام کو کنفیوز کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ان کا موقف ہے کہ اختیارات اور فنڈز کے استعمال کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں جس کی وجہ سے ٹرائبل ڈسٹرکٹ خدانخواستہ تباہ ہوجائے گی۔ علی ھذ القیاس۔ جتنی منہ اتنی باتیں۔
ہر شخص اپنی مرضی کی جز پر بات کررہا ہے اور انہیں اپنی مرضی کی تعبیریں اور شکلیں دے رہا ہے۔ کوئی بھی کل پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ تمام پشتون عموما جبکہ قبائل خصوصا بے صبریں واقع ہوئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم میں سے اکثریت کسی بھی مسئلے کی گہرائی میں جانے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے بس سطحیت کے دلدادہ ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ انضمام کے حامی کامیابی کے زعم میں تھوڑے سے خاموش ہوکر آرام فرما رہے ہیں جبکہ اس کے مخالفین بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی بھلی کے مصداق کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی لالچ میں میدان میں کود پڑے ہیں۔ آئیے ذیل میں انضمام کے بعد کی پیش رفت کا ذرا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں۔
اٹھائیس مئی دو ہزار اٹھارہ کوآئینی انضمام کے فورا بعد ملک کے زمام اقتدار نگران حکومت کے حوالے کئے گئے ۔ جس کا کام ملک میں انتخابات کروانا تھا، انھوں نے دو مہینے دن رات ایک کر کے پچیس جولائی کوعام ا نتخابات کروائے۔ جس کے بعد انتقال اقتدار کا مر حلہ شروع ہوا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا قیام صدر مملکت کا انتخاب ،وزرا کاچناوں، گورنروں کی تعیناتی اور ضرورت کے مطابق مناسب بیوروکریسی کی تعیناتی اور تبدیلی کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اکیس کروڑ عوام کی زندگی سے تعلق رکھنے والے یہ تمام وہ اہم ترین مراحل تھے۔ جس کو کسی بھی مر حلے پر نظر انداز کرنا ناکامی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی نئی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان نے قبائل کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ انھوں نے پہلی فرصت میں انضمام کی رفتار کو تیز کرنے اور مناسب اقدامات اٹھانے کی خاطر فاٹا ٹاسک فورس قائم کی۔ اگرچہ ٹاسک فورس میں سابق اے سی ایس حبیب اللہ خان ، سینیٹر ہدایت اللہ خان اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری صاحب کی شمولیت سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہ تینوں افراد فاٹا انضمام تو درکنار وہاں بڑے پیمانے پر اصلاحات ہی کے خلاف رہے ہیں۔ مگر دوسری جانب اسی ٹاسک فورس میں وزیر دفاع اور سابق وزیر اعلی پختونخوا پرویز خٹک اور سابق بیوروکریٹ ارباب شہزاد کی بحیثیت چئیرمین موجودگی اس بات کی نشاندہی ہے کہ ٹاسک فورس کوئی بھی فیصلہ یک طرفہ نہیں کر سکے گی۔
جہاں تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے پارٹی موقف کا تعلق ہے وہ بہت واضح ہے کہ وہ انضمام کے حق میں ہے بلکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے وزیر خزانہ اسد عمر کو واضح ہدایات دی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کچھ بھی ہو، انضمام کو یقینی بنانے اور قبائل کے مسائل حل کرنے میں فنڈز کی کمی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ اور اسد عمر نے انہیں بھرپور یقین دہانی کرادی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ وزیر اعظم کے اسی اخلاص اور پارٹی موقف کی بدولت درجہ بالا تمام اہم ترین مصروفیات کے باوجود حکومت نے واضح اعلان کیا ہے کہ این ایف سی کے آئندہ اجلاس میں ٹرائبل ایریاز کے لئے تین فیصد فنڈز کی تخصیص یقینی بنائی جا ئے گی۔ حکومت نے انضمام کو بلا رکاوٹ یقینی بنانے کے لئے فاٹا سیکرٹریٹ کے خاتمے کا واضح اعلان کردیا ہے جس پر مر حلہ وار عملدرآمد بھی جاری ہے۔ اب تک محکمہ صحت، تعلیم، سوشل ویلفئر عشر و زکوات وغیرہ صوبائی سیکرٹریٹ منتقل کر دئے گئے ہیں۔ ٹرائیبل اضلاع کے لئے چوبیس ارب روپے کاسالانہ ترقیاتی پروگرام منظور کیا گیا ہے ۔ صحت کارڈ کا دائرہ قبائلی اضلاع تک بڑھانے کے لئے اقدامات جاری ہے۔ جبکہ خطے میں صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کے لئے کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ کالم لکھتے ہوئے ابھی ابھی یہ اطلاع بھی موصول ہوئی کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایف سی آر کے متبادل فاٹا انٹرم ریگولیشن کے تحت انتظامیہ کو عدالتی اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا۔ جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔بادشاہی اختیارات کے حامل پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدے ختم کر کے ڈپٹی کمیشنر اور اسسٹنٹ کمیشنر میں تبدیل کئے گئے۔ جس کے اثرات کا اندازہ اس ایک بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ گریڈ انیس کے پولیٹیکل ایجنٹ خیبر کی پوسٹ پر تعیناتی کے لئے بیوروکریسی اعلی فوجی افسران سمیت وزیر اعظم اور صدر پاکستان تک کی سفارشات ڈھونڈتے تھے اور رشوت کے طور پر پیسوں بھرے بریف کیسز ان کے گاڑیوں میں موجود ہوتے۔ مگر ڈی سی بنتے ہی اس پوسٹ کی اہمیت اس حد تک گر گئی کہ عید الاضحی سے لیکر ایک ہفتہ قبل تک یعنی تقریبا دو مہینے یہ پوسٹ خالی رہی۔ کسی کو یاد بھی نہیں تھا کہ اس پوزیشن پر کسی کی بروقت تعیناتی بھی ضروری ہے۔
جہاں تک حکومتی ترجیحات میں غلطیوں اور کوتاہیوں کا تعلق ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک طرف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی سے متاثرہ تقریبا چھ سو سکول کھنڈر پڑے ہیں، درجنوں ہسپتال اور دوسرے سرکاری عمارتیں ناقابل استعمال ہیں۔ باجوڑ سے وزیرستان تک لاکھوں گھر اور ہزاروں دکانیں ابھی تک ملبے کا ڈھیر بنی پڑی ہے۔ مگر حکومت کو فکر پڑگئی ہے پولیس تھانوں اور پولیس لائن کے قیام کی، ٹاسک فورس کو فکر ہوگئی ہے وہاں جیلوں کے قیام کی اور حکومت کو فکر ہورہی ہے جوڈیشل کمپلیکسیز کے قیام کی جس کے لئے نہ صرف اربوں روپے درکار ہیں بلکہ پولیس جیل اور عدالت یہی وہ تین اشیاء ہیں جس سے قبائلی عوام شدید خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انضمام کے حامی بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انضمام کے بعد تصویر کے بہتر رخ دکھاکر قبائل کو تبدیلی پر آمادہ کرنے اور ان کو سہولیات اور حقوق دینے کی بجائے ان کو انضمام سے ارادتا متنفر کیا جا رہا ہے۔ محروم قبائلی عوام کو سکول ہسپتال بجلی گیس اور روزگار جیسے بنیادی حقوق و سہولیات دینے کی بجائے ان کے سروں پر پولیس کو بٹھایا جارہا ہے ۔ان کو جیلوں سے ڈرایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کی تباہی کے ذمہ دار پورا ایف سی آر اور اس کے تحت قائم نظام تھا یا صرف لیوی اور خاصہ دار فورس، جو آج سب کچھ چھوڑ کر صرف ان کو پولیس میں تبدیل کرنے کی کوششیں زوروں
پر ہے۔اس لئے ان سطور کے ذریعے قبائلی عوام سے گزارش ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی، اگر ستر سال تحصیلدار اور پولیٹیکل محرر کی غلامی میں گزارسکتے ہیں تو دو چار سال جمہوری حکومت اور ڈپٹی کمیشنر کو بھی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ انضمام کے مخالفین سے عرض ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اب اپنی توانائیاں انضمام کی مخالفت پر صرف کرنے کی بجائے انضمام کے فوائد سے اپنے بچوں کو مستفید کرانے کی کوشش کیجئے۔ اور ساتھ ہی ٹاسک فورس سمیت حکومتی ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ دو تین سال تک پولیس کا کام لیوی اور خاصہ دار سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ وہاں پہلے سے قائم جیل ابھی بھرے نہیں ہیں نہ ہی قبائلی عوام جرائم پیشہ ہیں کہ ان کو جیلوں میں ڈالنے کے لئے سب سے پہلے جیلیں بنائی جائے۔خدا را ، انضمام کے فوائد سے غریب عوام کو فیض پہنچانے کے لئے وہاں ترقی کی رفتار تیز کی جائے وہاں لازمی اور مفت تعلیم، صحت کی سہولیات ، بجلی گیس اور انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے۔ اور روز گار کو بڑھایا جائے۔ پانچ سال بعد وہ لوگ خود پولیس عدالت اور ملکی قوانین کا مطالبہ کرینگے۔
shamsmomand@gmail.com


No comments