سعداللہ جان برق اور میں !
(خالد خان) عجیب آدمی ہے ۔ برق زبان اور برق رفتار ۔ سعداللہ جان برق کے بارے میں ابھی تک یہ فیصلہ میں نہیں کرسکا کہ انہیں مجھ سے محبت ہے یا وہ مجھ سے بے زار ہے ۔
پہلی ملاقات نوتھیہ میں ہوئی تھی ۔ ایک مشاعرہ تھا جسکی صدارت برق صاحب کر رہے تھے اور مہمان خصوصی اجمل خٹک صاحب تھے ۔
پشتو ادب کے تمام بڑی شخصیتں موجود تھیں ۔ میں کالج کا طالب علم تھا ۔ نظم پڑھی ۔ بڑی واہ واہ ہوئی ۔ مشاعرے کے بعد چائے کے دور کے دوران برق صاحب اور اجمل خٹک صاحب نے بلایا اور تعارف کا پوچھا ۔
اجمل خٹک صاحب چونکہ میرے والد صاحب کے سکول استاد رہے تھے اور دادا مرحوم کے دوست بھی تھے لہذا تعارف ہونے پر پرانے قصے چھڑ گئے اور میری ذات پس پردہ چلی گئی ۔
برق صاحب نے مجھے نشست کے اختتام پر ملتے رہنے کا کہا اور میری نظم کی حد سے زیادہ تعریف کی ۔
برق صاحب سے میں کبھی بھی منصوبہ بندی کے تحت اور دو بہ دو نہیں ملا مگر ملاقاتیں تواتر سے ہوتی رہیں ۔ کبھی ریڈیو ، کبھی ٹی وی اور کبھی تقریبات میں ۔
میں بطور شاعر اور ادیب ہمیشہ ان کا معتقد رہا اور ان کو بہت بڑا لکھاری سمجھتا ہوں ۔ برق صاحب واحد کالم نگار ہے جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور اردو کالم نگاری میں پاکستان بھر میں قد آور شخصیت ہیں ۔ برق صاحب کے علاوہ باقی تمام زندہ و مدفون مضمون نگار ہیں ۔
برق صاحب کے تن و توش نے مجھے ہمیشہ انکے قریب ہونے سے روکا کہ مبادہ جس طرح کے زبان دراز ہیں اگر اس طرح دست دراز بھی نکلے تو کیا ہوگا ؟
باقاعدہ دشمنی کا آغاز برق صاحب نے میرے اوپر اخبار میں کالم لکھ کر کیا ۔ ہوا یوں کہ میری مونچھیں سفید ہوگئی ۔ رنگنا مجھے دو نمبری لگ رہی تھی لہذا میں نے کلین شیو کرنا شروع کردیا ۔
برق صاحب نے میری مونچھ صفائی پر کالم لکھ کر مجھے پشتون ولی سے خارج کر دیا ۔
میری اور برق صاحب کی ادبی جنگ شروع ہوئی اور یوں اس جنگ میں بالآخر ہم دونوں ہار گئے اور محبت جیت گئی ۔
پچھلے دنوں برق صاحب سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی ۔
قومی وطن پارٹی کے قائد جناب آفتاب احمد خان شیرپاو صاحب نے اپنے گھر وطن کور واقع پشاور یونیورسٹی ٹاون میں عزیز دوست نورالبشر نوید کے اعزاز میں ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔
بشر نوید کے بچے پشتو رسالے لیکوال کی سلور جوبلی تھی ۔
ماشاللہ لیکوال کو چھپتے ہوئے اب 25 سال ہوگئے ہیں ۔
عصمت شاجہان کے گھر میں جنم لینے والا لیکوال اب 25 سال کا گھبرو پشتون جوان ہے ۔
پہلی ملاقات نوتھیہ میں ہوئی تھی ۔ ایک مشاعرہ تھا جسکی صدارت برق صاحب کر رہے تھے اور مہمان خصوصی اجمل خٹک صاحب تھے ۔
پشتو ادب کے تمام بڑی شخصیتں موجود تھیں ۔ میں کالج کا طالب علم تھا ۔ نظم پڑھی ۔ بڑی واہ واہ ہوئی ۔ مشاعرے کے بعد چائے کے دور کے دوران برق صاحب اور اجمل خٹک صاحب نے بلایا اور تعارف کا پوچھا ۔
اجمل خٹک صاحب چونکہ میرے والد صاحب کے سکول استاد رہے تھے اور دادا مرحوم کے دوست بھی تھے لہذا تعارف ہونے پر پرانے قصے چھڑ گئے اور میری ذات پس پردہ چلی گئی ۔
برق صاحب نے مجھے نشست کے اختتام پر ملتے رہنے کا کہا اور میری نظم کی حد سے زیادہ تعریف کی ۔
برق صاحب سے میں کبھی بھی منصوبہ بندی کے تحت اور دو بہ دو نہیں ملا مگر ملاقاتیں تواتر سے ہوتی رہیں ۔ کبھی ریڈیو ، کبھی ٹی وی اور کبھی تقریبات میں ۔
میں بطور شاعر اور ادیب ہمیشہ ان کا معتقد رہا اور ان کو بہت بڑا لکھاری سمجھتا ہوں ۔ برق صاحب واحد کالم نگار ہے جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور اردو کالم نگاری میں پاکستان بھر میں قد آور شخصیت ہیں ۔ برق صاحب کے علاوہ باقی تمام زندہ و مدفون مضمون نگار ہیں ۔
برق صاحب کے تن و توش نے مجھے ہمیشہ انکے قریب ہونے سے روکا کہ مبادہ جس طرح کے زبان دراز ہیں اگر اس طرح دست دراز بھی نکلے تو کیا ہوگا ؟
باقاعدہ دشمنی کا آغاز برق صاحب نے میرے اوپر اخبار میں کالم لکھ کر کیا ۔ ہوا یوں کہ میری مونچھیں سفید ہوگئی ۔ رنگنا مجھے دو نمبری لگ رہی تھی لہذا میں نے کلین شیو کرنا شروع کردیا ۔
برق صاحب نے میری مونچھ صفائی پر کالم لکھ کر مجھے پشتون ولی سے خارج کر دیا ۔
میری اور برق صاحب کی ادبی جنگ شروع ہوئی اور یوں اس جنگ میں بالآخر ہم دونوں ہار گئے اور محبت جیت گئی ۔
پچھلے دنوں برق صاحب سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی ۔
قومی وطن پارٹی کے قائد جناب آفتاب احمد خان شیرپاو صاحب نے اپنے گھر وطن کور واقع پشاور یونیورسٹی ٹاون میں عزیز دوست نورالبشر نوید کے اعزاز میں ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔
بشر نوید کے بچے پشتو رسالے لیکوال کی سلور جوبلی تھی ۔
ماشاللہ لیکوال کو چھپتے ہوئے اب 25 سال ہوگئے ہیں ۔
عصمت شاجہان کے گھر میں جنم لینے والا لیکوال اب 25 سال کا گھبرو پشتون جوان ہے ۔
برق صاحب کو تقریب میں اپنی کتاب "راگ درباری " پیش کی ۔
آج انکا فون آیا ۔ ڈرتے ڈرتے اٹینڈ کیا تو حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔
آج انکا فون آیا ۔ ڈرتے ڈرتے اٹینڈ کیا تو حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔
برق صاحب "راگ درباری" کی تعریف کر رہے تھے۔
یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے؟
کہیں برق صاحب تو شاڑٹ سرکٹ نہیں ہوگئے ہیں؟
کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں؟
کیا واقعی راگ درباری اچھی تخلیق ہے؟
کوئی تو رائے دے مجھے ۔
خالد خان

No comments