چیف جسٹس آف کو پاکستان، عوام کی آواز
(تحریر : ڈاکٹر ابوبکر جواد)
چیف جسٹس آف کو پاکستان عوام کی اتنی فکر کیوں لگی ہوں ہے
پاکستان میں سچے اور اچھے انسان سے ڈر لگتا ہے ایماندار اور اصولوں پر چلنے والی انسان سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں عدل نہ کر جائے کہیں کرپشن نہ بند کر جائے کہیں انصاف نہ کر جائے کہیں کرپشن لوٹ مار کو بند کرنے کے آڈر نہ کردجائے
چیف جسٹس کیوں نوٹس لے رہا ہے عوامی مسائل کا یہ سیاستدان کا کام ہے اور سیاستدانوں لوٹ مار میں مصروف ہے اور اپنی کرپشن چھپانے کے لیے مصروف ہے آپنی سیاست چمکانے اور عوام پر صرف ٹیکس لگانے میں مصروف ہے ان کو عوام کی کیا فکر مرے یا جیے
چیف جسٹس صاحب کی کمزوری کیوں نہیں مل رہی یہ رات کو سوتے کب ہے ان کو پاکستان کی اتنی فکر کیوں لگی ہوئی ہے ان کو روکا کیسے جائے میڈیا پرشان سارے سیاستدانوں اور کرپٹ بیوروکریسی پرشان ہے یہاں تک کہ ہمارے دوست و دشمن ممالک بھی پرشان چیف جسٹس پر عالمی پریشر ڈالا جا نہیں سکتا کیا کرے اس شخص کا نہ بکتا ہے نہ مانتا ہے نہ ڈرتا ہے سب کو سیدھا کررہا ہے کیا یہ فرشتہ ہے خلائی مخلوق ہے یہ جن بھوت یا فرشتہ ہے یہ اللہ پاک کی رحمت ہے یا اللہ پاک کی پاکستان فضل وکرم ہے
جسے پاکستان عوام کی اتنی فکر کیوں لگی ہوں ہے
جسے پاکستان عوام کی اتنی فکر کیوں لگی ہوں ہے
> چیف جسٹس نے تباہ حال یونیورسٹیوں کا نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر جگہ وائس چانسلرز اقربا پروری اور کمیشن کی بنیاد پر تعینات ہیں۔
> جب پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کی تلاشی لی تو پتہ چلا کہ موصوف نے یونیورسٹی کا 80 ایکڑ رقبہ، بلا اجازت گرڈ اسٹیشن کے لیے بیچ دیا گیا ہے۔
> ادویہ ساز کمپنیوں کا نوٹس لیا تو پتہ چلا وہ بھی سیاستدانوں کو پیسہ لگا کر سیمپل پاس کرواتے ہیں اور غیر معیاری ادویہ بناتے ہیں۔
> ایموکسل،آگمنٹن، سینکوس سمیت 100 قسم کی ادویہ غیر معیاری نکلیں۔اسپتالوں کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر اسپتال کا MS، اقربا پروری اور پیسے کی بنیاد پر تعینات ہوا۔ اور اسپتالوں میں مشینری تک موجود نہیں۔
> میڈیکل کالجز کا نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ 9 لاکھ فیس کی بجاۓ 30 سے 35 لاکھ فیس وصول کی جا رہی ہے۔ اور کالج گیراجوں میں بناۓ گئے۔جبکہ تقریباً ہر میڈیکل کالج کسی سیاست دان یا سیاسی اثر رسوخ والے کا ھے۔
> ریلوے کا نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ اس کا خسارہ مزید سے مزید تر بڑھتا جا رہا ہے۔ مسئلہ پھر وہی لوہے کے چنوں والے سیاست دان۔
> جب PIA کا نوٹس لیا تو پتہ چلا اس کے نقصان میں ہوش ربا حد تک اضافہ۔ جب کہ شاہد خاقان عباسی اور شجاعت عظیم کی ائیرلائینز عظیم سے عظیم تر۔
> جب PIC کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ دل کی نالیاں کھولنے والا سٹنٹ ،جو اپنے ملک میں 15 ہزار میں تیار ہوسکتا ہے وہ باہر سے لاکھوں میں منگواۓ گئے۔
> جب پنجاب انتظامیہ کو چیک کیا تو 56 کمپنیاں نکل آئیں۔ جن کے سربراہوں کو 15 سے 25 لاکھ کے درمیان تنخواہیں اور کروڑوں مالیت کی بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی ھیں۔جب کہ چند ایک کے علاوہ باقی تمام کمپنیاں صرف کاغذوں تک محدود۔ لیکن مراعات جاری۔ عوام کی جیب سے۔
> جب سیکورٹی پہ نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ ہر سیاستدان نے عوام کی حفاظت پہ مامور رہنے والے پولیس اہلکار اپنی خدمت پہ مامور کیے ہوۓ ہیں۔یہاں تک کے ان کی بیگمات کے لیے بازار سے سبزی وغیرہ اور بچوں کو سکول لانے لے جانے کے کام پہ مامور ہیں۔میاں صاحب کے محل کی سیکورٹی پہ 2200 اہلکار تعینات تھے۔جبکہ قانون کے مطابق سابق وزیراعظم صرف 15 گارڈز رکھ سکتا ہے۔
> جب ترقیاتی کاموں پہ نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ پارکوں کی جگہ پہ سڑکیں اور پلازے تعمیر کیے جارہے ہیں۔
> بیوہ، غریب، یتیم، مسکین، مظلوم الغرض ہر وہ شخص جس نے پاکستان کے فرعون صفت حکمرانوں اور بیوروکریسی سے مایوس ہو کر اپنی فریاد چیف جسٹس تک پہنچائی اس نے سنی۔اس پہ نوٹس لیا اور اس کی دادرسی کی۔
> عطائیوں پہ نوٹس لیا تو پتا چلا کہ ہر گلی میں لوگوں کی جان کے ساتھ کھیلنے والے یا تو ڈرگ انسپکٹر کو بھتہ دیتے ہیں ہا انکی پشت پناہی کوئی سیاستدان کرتا ہے.
> جب موبائل کمپنیوں پر کارڈ ریچارج کرنے کا نوٹس لیا تو پتا چلا کہ عوام کا 100 کا کارڈ لوڈ کتنے پر 33 % ان چور سیاستدانوں کے اکاونٹ میں جاتا ہے
> یہ اوپر بیان کیے گئے چند ایک نوٹسز ہیں جو چیف صاحب نے لیے۔اور یہ سب عوام کے حقوق سے متعلق ہیں۔اس پہ اگر کسی کو تکلیف ہے تو کم از کم میں تو اسے انسان ہی نہیں سمجھتا۔کرپٹ تو بہت بعد میں آتا ہے۔اور جن جن طبقات کو چیف صاحب سے تکلیف ہے انہیں بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔
> کرپشن مافیہ اور اس کے سیاسی اتحادیوں کے لیے اس وقت زیادہ خوف کی علامت چیف جسٹس صاحب ہیں۔کیونکہ اس بلا سے کیا ڈرنا ہے کہ کہیں انصاف نہ کر جائے عدل نہ کر جائے چیف جسٹس کی صورت میں آفت ان پہ مسلط اور سر پر کھڑی ہے۔
> ہم سب پاکستانی، چیف جسٹس کے انتہائی مشکور ہیں۔اور اپیل کرتے ہیں کہ ان نوٹسز کو جلد سے جلد عبرتناک انجام تک پہنچایا جاۓ، تاکہ آئندہ وطنِ عزیز میں کسی کو غریب عوام کا حق مارنے کی جراءت نہ ھو سکے !!

No comments