Breaking News

پشتون تحریک کا ادراک۔ وقت کا تقاضا

 (شمس مومند)
پشتو کی ایک کہاوت ہے ( چی غل نہ اے نو دہ باچا نہ ھم مہ یریگہ) یعنی اگر آپ چور نہیں ہے تو پھر بادشاہ وقت سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے بانی منظور پشتین نے صرف اس پشتو کہاوت پر عمل کیا ہے کیونکہ نہ وہ خود چور ہے نہ اس کے دل میں کوئی چور ہے اگر وہ چور ہوتے تو وہ نواز شریف سے زیادہ طاقتور نہیں ۔ کوئی نہ کوئی حسد کا جلا انکو عدالت کھینچ ہی لاتے، اگراس پر غداری کا شبہ بھی ہوتا تو کلبھوشن کیساتھ اسکو جوڑنا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اگر وہ کسی آئینی اور قانونی غداری کا بھی مرتکب ہوتا تو پرویز مشرف کی طرح ملک چھوڑ کر فرار ہونے میں ہی عافیت جانتا۔ اگر وہ نوجوانوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر حق مانگنے کی بجائے قانون توڑنے پر اکساتا ، تو پاکستانی ادارے اب تک انہیں الطاف حسین کی طرح خودساختہ جلاوطنی اور میڈیا بلیک اوٹ کے زریعے ہیرو سے زیرو بنا چکے ہوتے۔لیکن چونکہ اس کے دل میں کوئی چور نہیں ہے اس لئے اپنی سادہ لوحی ، تجربے کی عدم موجودگی اور بے سر و سامانی کے باوجود انھوں نے پشتونوں کو بنیادی حقوق دلوانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ایک ایسا مشکل کام جس کے لئے آواز اٹھانا تو درکنار،بڑے بڑے تیس مارخان سیاسی رہنماٗ اس کا تذکرہ بھی کھلے الفاظ میں نہیں کر سکتے۔ جہاں تک حکومتی اور ریاستی اداروں کی جانب سے اس تحریک کے خلاف ردعمل کا تعلق ہے اسے کسی بھی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سول انتظامیہ سیاسی اور پارلیمانی رہنماٗ اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے کھلے عام جلسے جلوس میں فوج کو مخاطب کر کے اپنا حق مانگنا شروع کیا ہے۔ چونکہ یہ کام ذاتی اور پارٹی مفادات کے غلام سیاسی رہنمااپنی چوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے پارلیمان میں کھڑے ہوکر بھی نہیں کر سکے تھے۔ اس لئے وہ اس موقع پر اپنے حصے کی کوئی بھی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار نہیں۔ اورقومی سطح کے تمام رہنماوں نے انتظار کرو اور دیکھوں کی پالیسی اپناتے ہوئے اسے فوج اور پشتون نوجوانوں کا مسئلہ سمجھتے ہوئے خود کو اس سے الگ کر رکھا ہے۔ جہاں تک فوج کی جانب سے ردعمل کا تعلق ہے۔ اس کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، مثلا ایک طرف اسلام آباد دھرنے کے دوران تحریک کے رہنماوں کو جی ایچ کیو، اور اس کے بعد میرانشاہ بلایا جاتا ہے۔ انتہائی کھلے دل کیساتھ اچھے ماحول میں ان کی شکوے شکایات سنی جاتی ہیں اور اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ بعد از خرابی بسیار۔ لیکن بھر حال راو انوار کو عدالت کے سامنے پیش کیاجاتا ہے اور آرمی چیف بذات خود نقیب محسود کے والد اور بچوں سے مل کر ان کی دلجوئی کرتے ہیں۔ وزیرستان کی حد تک ایک آدھ چیک پوسٹ کو بھی ختم کیا جاتا ہے ، یہ سب مثبت اقدامات ہیں اور کسی بھی فوج کو اپنے ملک کے پر امن باسیوں کیساتھ ایسے ہی معاملات طے کرنے چاہیئے۔ لیکن دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سے جب منظور پشتین اور اس کی تحریک کی بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ میں خود منظور پشتین سے ملا ہوں وہ اچھے نوجوان ہے مگر انہیں افغانستان سے مدد مل رہی ہے۔ بدقسمتی سے اسی جواب کے تناظر میں اس پر امن اور قانون کے دائرے میں رہنے والے تحریک کے خلاف روایتی ہتھکنڈے شروع ہوجاتے ہیں۔ تقریبا تمام قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے مراعات یافتہ افراد کے زریعے منظور پشتین کے خلاف مظاہرے شروع کئے جاتے ہیں۔ پشاور میں بدنام زمانہ ان افراد کی جانب سے پاکستان زندہ باد جلسہ منعقد کیاجاتا ہے جنھوں نے راحیل شریف کی ملازمت کے آخری ایام میں سینکڑوں بینر اویزاں کئے تھے۔ جس میں جانے کی باتیں جانے دو، اور اب آ بھی جاو جیسے غیر آئینی نعروں کے زریعے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور ان جلسوں اور جلوسوں میں اگر ایک طرف پاکستان زندہ باد اور پاک وفوج زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں تو دوسری جانب منظور پشتین مردہ باد اور غدار کے نعرے بھی اس کا لازمی جز ہے۔ اگرچہ پشتون تحفظ تحریک کے جلسوں میں چند جذباتی نوجوانوں کی ہیجان اور گھٹن پر مبنی نعروں سے ہٹ کر منظور پشتین نے آئین اور قانون کے دائرے سے باہر نہ کوئی مطالبہ کیا ہے نہ کوئی نعرہ لگایا ہے۔ کیا ہمارے پالیسی ساز اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پاک فوج زند ہ باد اور منظور پشتین مردہ باد کے نعرے کا مطلب منظور پشتین کو فوج  جیسے طاقتور آئینی ادارے کے برابر مگر مخالفت میں لاکھڑا کرنا ہے۔ کسی بھی مخالف آواز کو دبانے کے لئے اس روایتی ہتھکنڈوں ،پیسے کے زور پر جلسے جلوسوں، غیر ملکی امداد اور غداری کے الزامات سے اس بات کو تقویت ملے گی کہ خدانخواستہ فوج پشتون نوجوانوں کی دکھ بھری فریاد کو ڈرامہ سمجھتی ہے جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کے دھرنے والے ڈرامے کو حقیقی مسئلہ تصور کرتی ہے۔ جس کو اپنی ذمہ داری پر حل کرنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے انہی سطور کے زریعے تمام مقتدر قوتوں سے درخواست ہے کہ خدا را۔ پشتونوں کے زخموں پر غداری جیسے الزامات کے نشتر چلانے کی بجائے ان پر مذاکرات اور ان کے شکایات کے حل کا مرہم رکھا جائے۔ ان کے زخموں کو ناسور بننے سے روکا جائے۔ پشتون تحفظ تحریک کے چار بڑے مطالبات میں کوئی بھی مطالبہ غیر آئینی نہیں نہ ہی ناممکن ہے۔ پھر کیوں اس کو توجہ دینے اور حل کرنے کی بجائے اس کو طول دیا جا رہا ہے ۔ اگر منظور پشتین کو غیر ملکی امداد کا مطلب ان کا کسی بھی ملک یا ادارے سے پیسے لینا ہے تو ایسی صورت میں ان کی گرفتاری اور سزا دلوانے میں کوئی امر مانع نہیں ہونی چاہیئے۔ لیکن اگر امداد سے مراد اس تحریک کیلئے دنیا بھر میں رہائش پزیر پشتونوں کی جانب سے آواز اٹھانا ہے تو اس کو نہ غلط کہا جا سکتا ہے نہ اسکو بند کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے جلسوں اور جوابی جلسوں کے زریعے مزید نفرت اور تفرقہ پھیلانے کی بجائے منظور پشتین اور اس تحریک کو سینے سے لگاکر پشتونوں کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ میرے خیال میں پاکستان کو زندہ باد کہنے کے لئے پیسہ خور نعرہ بازوں کی نہیں مخلص نقادوں کی ضرورت ہے کیونکہ فوج کاکام صرف ملک کے جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے، نظریاتی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی اقدار کا تحفظ باشعور شہری ہی کر سکتے ہیں اس لئے ان کو اپنا کام کرنے دے۔ تاکہ ملک آگے بڑھ سکے۔

No comments