Breaking News

آنکھیں خواب نیا کیا دیکھیں ؟

(بہ شکریہ سید عون شیرازی)

                                                                                                                آنکھیں خواب نیا کیا دیکھیں 
                                                     پہلا خواب جو ٹوٹ گیا ہے 
                                                    اب تک اس کی عدت میں ہیں 
اسے بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ آج کل پڑھنے کا ٹائم کم ہی مل رہا ہے ، 3 کتابیں سرہانے پڑی ہیں اور ان میں سے خرم بقاء کی کلیشے زد مطالعہ ہے ، ٹائم نہ ہونے کے باوجود رات کو سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ صفحے ضرور پڑھتا ہوں ، کیونکہ یہ مطالعہ کا نشہ ہونٹوں کے ذریعے دماغ کو لگا ہوا ہے اور اس کے بغیر نیند ممکن نہیں 
کل برادرم محترم اور صاحب طرز شاعر سید عمران نقوی جن کا تعلق بھی میرے آبائی علاقے سرگودھا سے ہیں ان کی شاعری کی کتاب "میثاق محبت" بذریعہ ڈاک پہنچی
رات کو جب بستر پر لیٹا تو گھڑی ایک سے دس منٹ اوپر بتا رہی تھی ، کتاب اٹھائی تو ایک دم دل کو بھائی
کیونکہ ماورا والوں نے چھاپی تھی اور ماورا کی پرنٹنگ اور کاغذ باکمال ہوتا ہے ، ماورا پبلیکیشنز کے ساتھ ہمارا پرانا تعلق ہے کیونکہ ہماری پسندیدہ شاعری کے ایک معشوق جن سے ہمیں عشق بھی تھا اور عقیدت بھی جنابِ محسن نقوی کی ساری کتابیں ماورا سے ہی چھپیں پس جب محسن صاحب کی شاعری رگ رگ میں سرایت کر رہی تھی تو ماورا کا انداز چھپائی بھی اس کا حصہ بن رہا تھا
کتاب شروع کی اور سچ میں جیسے جیسے پڑھتا گیا ، لطف بڑھتا گیا عمران نقوی کے انداز نے جہاں متاثر کرنا شروع کیا وہیں لفظوں کے چناو اور موضوع کے انتخاب نے اس کو چار چاند لگا دیئے
رات گزرتی جا رہی تھی اور میرے سامنے محبت کا میثاق طے ہو رہا تھا ، لطف بڑھتا جا رہا تھا ، شاعری کا ذائقہ پسند آ رہا تھا ، جیسے کوئی پسندیدہ خوراک مل جائے تو پھر ہاتھ رکتے نہیں اسی انداز میں کتاب من کو بھا جائے تو وہ ادھوری چھوڑی نہیں جاتی ، یہ ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہم شاعری پڑھتے گئے اور رات گزرتی گئی
عمران نقوی کے ساتھ فیس بک پر یار اللہ کافی عرصہ سے تھی لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ شاعری کا ایک آتش فشاں اندر چھپا ہے ،150 سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آخری شعر پڑھا تو گھڑی پر رات کے 3 بج کر 40 منٹ ہوئے چاہتے تھے
لیکن سچ میں صبح آٹھ بجے کا جاگا ہوا رات کے اس پہر بھی فریش تھا کیونکہ عمران کی شاعری نے ساری تھکن اتار دی تھی
عمران بھائی اتنی خوبصورت شاعری کرنے اور پھر مجھے کتاب بھیجنے کا شکریہ
چلیں عمران نقوی کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں کہ دوران مطالعہ جنہوں نے مجھے بار بار دہرانے پر مجبور کیا
ماں سے لیتا ہوں بوسہ ماتھے پر
کیسے چہرے کی تازگی اترے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کرتا ہی نہیں ان پہ عطا بھول گیا ہے
لگتا ہے غریبوں کو خدا بھول گیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے جن کا درد بانٹا درد کے لمحات میں
آج وہ ہنستے ہیں مجھ پہ لوگ سارے بیٹھ کر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیسے ہیں قانون کے یہ رکھوالے بھی
بولنے والے لوگ پکڑتے جاتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نکلا ہے انصاف کو لینے ایک غریب
اس کے گھر کے برتن بھی اب بکنے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا دھول سے اٹ کر میں گھر آتا ہوں
اپنا تعارف روز کرانا پڑتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہوا سے کہہ دو
کہ اب نگر میں
کسی کے گھر میں
چراغ کوئی بجھا تو ہم
تم کو دیکھ لیں گے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آنکھیں خواب نیا کیا دیکھیں
پہلا خواب جو ٹوٹ گیا ہے
اب تک اس کی عدت میں ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں
یہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو
ہمت سے کام نہیں لیتے
مقتول کا نام تو لیتے ہیں
قاتل کا نام نہیں لیتے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک بات کہنا بھول گیا ، سچ میں عمران نقوی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے پاس موضوعات کی کمی نہیں ہر غزل ، آزاد نظم کا موضوع دوسرے سے جدا ہی نظر آیا

No comments