Breaking News

پاکستان بندگلی میں



(شمس مومند)
خدا خدا کر کے پاکستان کے سر پر ( Financial Action Task Force (FATF)) کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت والے ممالک کی فہرست میں فوری شمولیت کی لٹکنے والی تلوار ٹل گئی۔ لیکن صرف تین مہینے کے لئے۔ بلکہ اگر ہم یہ کہے کہ پاکستان کو اس واچ لسٹ سے نکلنے اوردنیا کے سنگ چلنے کے لئے تین مہینوں کا گراس پیریڈ دیا گیا تو بے جا نہ ہوگا۔ لیکن کیا پاکستان میں مقتدر قوتیں ، دفاعی ادارے اور سیاسی قیادت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ملک کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے اور تنہائی سے بچانے کے لئے درکار مناسب اقدامات کر سکے۔ جواب یقیناًمایوس کن حد تک نفی میں ہے۔ کیونکہ کسی بھی مرض کا علاج اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب مریض کھلے ذہن کیساتھ اپنی بیماری کو تسلیم کرے اور ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ استعمال کرنے اور مکمل پرہیز کرنے پر آمادہ ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان کی مثال اس مریض کی مانند ہے جس کو انتہا پسندی کا کینسر لا حق ہوچکا ہے۔ مگر پاکستان کے کرتا دھرتا ابھی تک یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان کو کینسر جیسا موذی مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مولانا مسعود اظہر، جماعت الدعوہ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان جیسے پھوڑے پاکستان کے جسم پر امریکہ کے ساتھ اپنے ناجائز تعلقات کیوجہ سے ابھر آئے ہیں جس کا علاج معمولی سے دواوں سے ممکن ہے۔ لیکن انہیں احساس ہونا چاہیئے کہ ایسے موذی مرض سے جان بچانے کے لئے اپنے جسم کے اہم اعضاء تک کو کاٹنا پڑتا ہے۔ اس کا علاج ڈسپرین اور پینا ڈول سے ممکن نہیں۔ اس لئے تین مہینے کا یہ گراس پیریڈ خالی خولی بیانات اور کاغذی منصوبہ بندی میں ضائع کرنے کی بجائے عملی اقدامات وقت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ بذات خود انتہا پسند ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں عالمی برادری کی برداشت جواب دے چکی ہے اور وہ پاکستان کے مزید نخرے برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ اب اس بحث لا حاصل کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ یہ کس کی جنگ تھی۔ ہم نے کس کی ایماء پر لڑی۔ ہمیں اس کا فائدہ زیادہ ہوا یا نقصان، اب دو جمع دو چار کی طرح تلخ حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کسی کی بھی تھی اب انھوں نے کامیابی کیساتھ یہ پاکستان کے سر تھوپ دی ہے۔ یورپ اور امریکہ تو درکنار اب تو سعودی عرب اور چین نے بھی پاکستان کی حمایت میں وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی روایتی طور پر ان سے توقع کی جاتی رہی ہے۔ مگر پاکستان کی ان مشکلات اورتنہائی کی وجوہات بھی بہت سادہ اور واضح ہیں۔ جس کی تفصیلات لکھنے کی بجائے میں اس کی سرسری نشاندہی ہی کافی سمجھتا ہوں۔ مثلا تیسری مرتبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم اور عالمی رہنماوں سے تعلقات کے حامل سیاسی رہنماء کو اس مشکل وقت میں پاکستان کی بجائے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ پاوں مارنے پر مجبور کیا گیا۔  نوازشریف کے متبادل وزیر اعظم کو بھی ہمارے محترم اپوزیشن رہنماوں نے نوازشریف کی حمایت پر آڑے ہاتھوں لیا ۔ ان پر الزامات کی وہ بوچھاڑ کر دی کہ ان کی خود اعتمادی ختم کر کے رکھ دی۔اور آج وہ اعتماد اور جرات سے ملک چلانے کی بجائے بحالت مجبوری اپنی وزارت عظمی کے دن گن رہا ہے۔ کہ یہ خیر و عافیت سے پوری ہو اور ان کی جان چوٹ جائے۔
اکثر وزرا اس بات پر مجبور ہیں کہ ان میں سے بعض خود کو توہین عدالت سے بچائے اور بعض سینیٹ میں اپنی پارٹی کی نشستیں بچانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے۔ جہاں تک فوج سمیت دفاعی اداروں کا تعلق ہے، وہ ملک کی جغرافیائی حدود کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ،خارجہ امور،عالمی سفارتکاری اور عالمی برادری سے دوستانہ تعلقات نہ ان کا کام ہے نہ ان کی ذمہ داری۔ اگر وہ خود ان سب ذمہ داریوں کا ٹھیکہ لے رہی ہے تو وہ غلطی پر ہے اورشاید موجودہ مشکل حالات میں ان کو اس کا احساس بھی ہوچکا ہوگا۔ کہ جس کاکام اسی کو ساجھے۔ اگر ہمارے سیاست دانوں نے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ان کے سر تھوپ دی ہے تو ان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اپنے اختیارات مانگنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان اس وقت بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے عالمی خطرات سے نظریں چراکر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے دیا ہے۔ کہ شاید خطرہ سر کے اوپر سے گزر جائے گا لیکن۔ یقین جانے ایسا نہیں ہوگا۔ اس لئے ہماری درخواست ہے کہ عدلیہ انتظامیہ مقننہ اور میڈیا سمیت عسکری قیادت ہوش کے ناخن لے۔ اختیارات کی جنگ اور آپس کی لڑائیوں کا وقت نہیں رہا۔ پاکستان عالمی تنہائی، معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کیوجہ سے حقیقی خطرات میں گھراہوا ہے۔ جس سے نکلنے کا واحد رستہ آئین کے مطابق اختیارات پر اکتفا اور اتفاق سے ہی ممکن ہے۔ 

No comments