نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا
................(شمس مومند)
شاعر فرماتے ہیں ع ۔۔۔۔ نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا
نام میرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے نفرت کھل کر کی جاتی ہے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ مگر محبت چھپ کر کرنا پڑتا ہے۔ ان جملوں کی کئی ایک تشریحات ہو سکتی ہے اس پر بحث بھی ہو سکتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کی عزت و احترام اور محبت کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ ہم نفرتوں کے شیدائی ہے ہم دوریوں سے محبت کرتے ہیں۔ ہم دراصل اناپرست قوم ہے اور خود ساختہ انا کے نام پر قیمتی رشتوں پر یوں قینچی پھیر لیتے ہیں کہ پھر انکو جوڑنا ناممکن بن جاتا ہے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ جن باتوں کیوجہ سے جھگڑا کر کے لوگ مٹی کے نیچے دفن ہوجاتے ہیں اگر انہی باتوں پر مٹی ڈال دی جائے تو یہ نوبت ہی نہ آئے۔
ہم میں سے ہر ایک مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہے۔ مگر ہماری اسلام اس حد تک محدود ہے جہاں یہ ہماری تہذیب و روایات سے متصادم نہ ہو، جب تہذیب و روایات اور اسلام میں سے کسی ایک کو چننا پڑتا ہے تو ہم میں سے اکثر جانے انجانے میں روایات کو چن لیتے ہیں ۔ اور اسکو برا بھی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ معاشرے کے باقی لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔ مثلا۔ اسلام خواتین کو والدین اور شوہر کی جائداد میں وراثت کا حق دیتا ہے ۔ اور اسلام میں شاید یہ واحدمسئلہ ہے جسے نماز اور روزے سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کریم میں خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے۔ مگر نماز روزے کے پابند لاکھوں مسلمانوں میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی ان واضح احکامات کو من و عن قبول کرتا ہے۔ یہاں ہم میں سے ہر ایک روایات کا سہارا لیکر بہنوں بیٹیوں کا حق مارتا ہے اور انجان بن جاتاہے۔ اسلام بالغ اولاد کو اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہم میں سے لاکھوں متقی اور پر ہیز گار دن رات تسبیح کے دانے گنتے ہوئے اپنی اولاد سے یہ حق چھین لیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ معاشرے میں عزت و احترام پھیلے گی اور محبت کا دور دورہ ہوگا۔
اگر ہم اس سادہ سائینسی اصول پر یقین کر کے اپنالے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ۔ اور ردعمل کی شدت وہی ہوتی ہے جو عمل کی ہوگی، تو ہم بڑی آسانی کیساتھ دنیا کو محبت اور امن کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سائینسی اصول کی رو سے اگر ہم کسی کیساتھ برا کرتے ہیں تو ظاہر ہے جواب میں ہمارے ساتھ بھی برا ہوگا۔ خواہ وہ اسی وقت ہو یا پھر کچھ عرصہ بعد، وہ اسی شخص کی جانب سے ہو یا کسی اور کی جانب سے۔ اسکو ہم دوسرے لفظوں میں مکافات عمل بھی کہتے ہیں۔ یا محاورتا کہتے ہیں جیسا کرونگے ویسا بھرونگے۔بالکل اسی طرح اگر ہم کسی کو حاجی صاحب، چوھدری صاحب یا وزیر صاحب سمجھ کر سلام کرنے کی بجائے خلق خدا سمجھ کر سلام کرے اور محبت کے دو بول بول لے۔ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا نرم اور خوشگوار رویہ اپنائے خواہ وہ چوھدری صاحب ہو یا وہ کوئی دکاندار یا مزدور، تو یہی محبت اور نرم رویہ عمل اور ردعمل کے اصول کے تحت گھوم پھر کر ہمارے پاس آجاتا ہے۔ یہ وہ پتھر پر لکیر جملے ہیں جس کو ہم روزانہ سنتے یا پڑھتے رہتے ہیں مگر اس کا اطلاق صرف دوسروں پر کرتے ہیں خود کو اس سے مستثنا سمجھتے ہیں۔
محبت پھیلانے اور کسی کی دل میں جگہ بنانے کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی تعریف کیا کرے، اور شکریہ ادا کرتے رہے۔ مثلا کوئی پڑوسی نیا جوڑا پہن کر دکھائی دے، تو کپڑوں کی مبارکباد اور تعریف کیساتھ ساتھ یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ ماشاٗاللہ یہ جوڑا آپ پر بہت ججتا ہے۔ یا ماشاٗ اللہ کیا خوبصورت کلر کا انتخاب کیا ہے۔ آپ دفتر پہنچتے ہیں تو چند ساتھی آپ سے پہلے پہنچ کر کام میں مصروف ہیں۔ آپ اگر سلام کے بعد فورا کہے کاش کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح وقت سے پہلے پہنچ سکتا۔ یا یار اگر آپ لوگ بروقت پہنچ کر کام نہ سنھبالتے تو ہم سب کیلیے تو بہت مشکل ہوجاتااس لئے آپ سب کا بہت شکریہ۔ کوئی بزرگ گاڑی میں چڑھتا ہے تو نوجوان اٹھ کر ان کے لئے جگہ خالی کرتا ہے ۔ بزرگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے ، مگر اگر اس نے اسے اپنا حق سمجھ لیا اور خاموش رہا تو اس نے دوسرے بزرگوں کے لئے جگہ چھوڑنے کا رستہ بند کردیا اور اگر اس نے نوجوان کو شاباش دی ان کا شکریہ ادا کیا۔ تو نیکی اور احترام کا یہ سلسلہ صدقہ جاریہ بن کر چلتا رہے گا۔ اسی لئے تو فرماتے ہیں کہ جو لوگ بھلائی کرنے پر کسی انسان کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے وہ اللہ تعالی کے شکر گزار بھی نہیں ہو سکتے۔
دوستوں آج کے کالم میں نہ سیاست ہے نہ صحافت ہے بس ایک آرزو ہے ایک دردمندانہ اپیل ہے کہ اگر ہم میں سے ہر شخص دل میں تہیہ کر لے کہ میں روازانہ کم از کم دو افراد کو خوشی مہیا کروں گا۔وہ خوشی کسی کے کام آکر، کسی مسکین کو دو چار روپے دیکر، یاکسی کیساتھ دو میٹے بول بول کر ہی کیوں نہ ہو، یہ سلسلہ اگر جزو ضربی کے حساب سے آگے بڑھتا رہے تو دنیا جنت بن جائے گی۔ ورنہ محبت اور سچائی کی تلاش میں اگر آپ دنیا بھی چھان مارے ۔ جب تک محبت اور سچائی آپ کے اندر نہیں ہوگی آپ کو دنیا بھر میں نہیں ملے گی۔
نام میرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے نفرت کھل کر کی جاتی ہے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ مگر محبت چھپ کر کرنا پڑتا ہے۔ ان جملوں کی کئی ایک تشریحات ہو سکتی ہے اس پر بحث بھی ہو سکتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کی عزت و احترام اور محبت کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ ہم نفرتوں کے شیدائی ہے ہم دوریوں سے محبت کرتے ہیں۔ ہم دراصل اناپرست قوم ہے اور خود ساختہ انا کے نام پر قیمتی رشتوں پر یوں قینچی پھیر لیتے ہیں کہ پھر انکو جوڑنا ناممکن بن جاتا ہے۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ جن باتوں کیوجہ سے جھگڑا کر کے لوگ مٹی کے نیچے دفن ہوجاتے ہیں اگر انہی باتوں پر مٹی ڈال دی جائے تو یہ نوبت ہی نہ آئے۔
ہم میں سے ہر ایک مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہے۔ مگر ہماری اسلام اس حد تک محدود ہے جہاں یہ ہماری تہذیب و روایات سے متصادم نہ ہو، جب تہذیب و روایات اور اسلام میں سے کسی ایک کو چننا پڑتا ہے تو ہم میں سے اکثر جانے انجانے میں روایات کو چن لیتے ہیں ۔ اور اسکو برا بھی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ معاشرے کے باقی لوگ اسے برا نہیں سمجھتے۔ مثلا۔ اسلام خواتین کو والدین اور شوہر کی جائداد میں وراثت کا حق دیتا ہے ۔ اور اسلام میں شاید یہ واحدمسئلہ ہے جسے نماز اور روزے سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کریم میں خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے۔ مگر نماز روزے کے پابند لاکھوں مسلمانوں میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی ان واضح احکامات کو من و عن قبول کرتا ہے۔ یہاں ہم میں سے ہر ایک روایات کا سہارا لیکر بہنوں بیٹیوں کا حق مارتا ہے اور انجان بن جاتاہے۔ اسلام بالغ اولاد کو اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہم میں سے لاکھوں متقی اور پر ہیز گار دن رات تسبیح کے دانے گنتے ہوئے اپنی اولاد سے یہ حق چھین لیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ معاشرے میں عزت و احترام پھیلے گی اور محبت کا دور دورہ ہوگا۔
اگر ہم اس سادہ سائینسی اصول پر یقین کر کے اپنالے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ۔ اور ردعمل کی شدت وہی ہوتی ہے جو عمل کی ہوگی، تو ہم بڑی آسانی کیساتھ دنیا کو محبت اور امن کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سائینسی اصول کی رو سے اگر ہم کسی کیساتھ برا کرتے ہیں تو ظاہر ہے جواب میں ہمارے ساتھ بھی برا ہوگا۔ خواہ وہ اسی وقت ہو یا پھر کچھ عرصہ بعد، وہ اسی شخص کی جانب سے ہو یا کسی اور کی جانب سے۔ اسکو ہم دوسرے لفظوں میں مکافات عمل بھی کہتے ہیں۔ یا محاورتا کہتے ہیں جیسا کرونگے ویسا بھرونگے۔بالکل اسی طرح اگر ہم کسی کو حاجی صاحب، چوھدری صاحب یا وزیر صاحب سمجھ کر سلام کرنے کی بجائے خلق خدا سمجھ کر سلام کرے اور محبت کے دو بول بول لے۔ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا نرم اور خوشگوار رویہ اپنائے خواہ وہ چوھدری صاحب ہو یا وہ کوئی دکاندار یا مزدور، تو یہی محبت اور نرم رویہ عمل اور ردعمل کے اصول کے تحت گھوم پھر کر ہمارے پاس آجاتا ہے۔ یہ وہ پتھر پر لکیر جملے ہیں جس کو ہم روزانہ سنتے یا پڑھتے رہتے ہیں مگر اس کا اطلاق صرف دوسروں پر کرتے ہیں خود کو اس سے مستثنا سمجھتے ہیں۔
محبت پھیلانے اور کسی کی دل میں جگہ بنانے کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی تعریف کیا کرے، اور شکریہ ادا کرتے رہے۔ مثلا کوئی پڑوسی نیا جوڑا پہن کر دکھائی دے، تو کپڑوں کی مبارکباد اور تعریف کیساتھ ساتھ یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ ماشاٗاللہ یہ جوڑا آپ پر بہت ججتا ہے۔ یا ماشاٗ اللہ کیا خوبصورت کلر کا انتخاب کیا ہے۔ آپ دفتر پہنچتے ہیں تو چند ساتھی آپ سے پہلے پہنچ کر کام میں مصروف ہیں۔ آپ اگر سلام کے بعد فورا کہے کاش کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح وقت سے پہلے پہنچ سکتا۔ یا یار اگر آپ لوگ بروقت پہنچ کر کام نہ سنھبالتے تو ہم سب کیلیے تو بہت مشکل ہوجاتااس لئے آپ سب کا بہت شکریہ۔ کوئی بزرگ گاڑی میں چڑھتا ہے تو نوجوان اٹھ کر ان کے لئے جگہ خالی کرتا ہے ۔ بزرگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے ، مگر اگر اس نے اسے اپنا حق سمجھ لیا اور خاموش رہا تو اس نے دوسرے بزرگوں کے لئے جگہ چھوڑنے کا رستہ بند کردیا اور اگر اس نے نوجوان کو شاباش دی ان کا شکریہ ادا کیا۔ تو نیکی اور احترام کا یہ سلسلہ صدقہ جاریہ بن کر چلتا رہے گا۔ اسی لئے تو فرماتے ہیں کہ جو لوگ بھلائی کرنے پر کسی انسان کا شکریہ ادا نہیں کرسکتے وہ اللہ تعالی کے شکر گزار بھی نہیں ہو سکتے۔
دوستوں آج کے کالم میں نہ سیاست ہے نہ صحافت ہے بس ایک آرزو ہے ایک دردمندانہ اپیل ہے کہ اگر ہم میں سے ہر شخص دل میں تہیہ کر لے کہ میں روازانہ کم از کم دو افراد کو خوشی مہیا کروں گا۔وہ خوشی کسی کے کام آکر، کسی مسکین کو دو چار روپے دیکر، یاکسی کیساتھ دو میٹے بول بول کر ہی کیوں نہ ہو، یہ سلسلہ اگر جزو ضربی کے حساب سے آگے بڑھتا رہے تو دنیا جنت بن جائے گی۔ ورنہ محبت اور سچائی کی تلاش میں اگر آپ دنیا بھی چھان مارے ۔ جب تک محبت اور سچائی آپ کے اندر نہیں ہوگی آپ کو دنیا بھر میں نہیں ملے گی۔

No comments