Breaking News

بے ہنگم شور؟

                                                                                                                                  (محمد ارشد خان)
 انگریزی میڈیم ڈان نیوز سے اردو میڈیم دیسی لبرلزم کی طرف ترقی معکوس کرنے والے ایک صحافی نے فوج کے سربراہ کی جانب سے ٣٠ نامور صحافیوں کے گروپ سے آف دی ریکارڈ گفتگو کو جمہوریت کے خلاف ایک اور سازش قرار دیکر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوۓ لکھا ہے کہ آرمی چیف کا یہ موقف غیر قانونی، غیر آئینی اور قابل مواخذہ ہے کہ فوج ہر حالت عدالت اور قانون کا ساتھ دیگی- دانشور صاحب کے خیال میں چونکہ"چین آف کمانڈ" کے تحت آرمی چیف حکومت وقت کے ماتحت ہے اسلئے کسی عدالتی حکم کے نتیجے میں آئین کے تحت بھی سپریم کورٹ کو مدد فراہم کرنا فوج صرف حکومت کے احکامات کے تحت ہی کر سکتی ہے ورنہ بغاوت کا ارتکاب کریگی- ویسے جناب کو تو پتہ ہی ہوگا کہ بلاۓ جانے والے صحافیوں میں حامد میر جیسے کئی "اسٹیبلشمنٹ دوست" نام بھی موجود تھے لیکن شاید دکھ بریفنگ کے موضوع سے زیادہ نہ بلاۓ جانے پر تھا- ویسے ایک بات کے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ہاں کے "صحافی" اور "تجزیہ نگار" کھاتے کیا ہیں اور پھر پڑھتے کیا ہیں؟ اس صاحب نے بھی پاکستان میں "مقبول" کئی مغربی تصورات کی طرح شائد چین آف کمانڈ کی صرف سپیلنگ سیکھی ہے ورنہ اسے پتہ ہوتا کہ قانون کی حکمرانی میں اس کا مطلب یہ قطعی طور پر نہیں ہوتا کہ انتظامی سربراہ مالک اور ماتحت غلام بن جاتے ہیں اور اگر اخلاقیات کو نظرانداز بھی کیا جاۓ تو قانون، آئین اور سب سے بڑھ کر ریاست کے باقی اداروں کا آزادانہ اختیار ختم ہوجاتا ہے- ایسا تو قرون وسطا کے بادشاہتوں میں ہوتا تھا- جدید جمہوریتوں میں تو ایک ماتحت عدالت کے جج کے فیصلے کے نفاز کیلئے بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کا ایک پولیس افسر وزیر اعظم سمیت کابینہ کے کسی بھی رکن کو بغیر کسی "حکومتی" اجازت نامے کے گرفتار کر سکتا ہے سپریم کورٹ تو دور کی بات ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی بھی حقیقی جمہوریت میں کوئی سیاسی عہدیدار ایسی شرمندگی کی نوبت آنے سے پہلے ہی کرسی اور سیاست دنوں چھوڑ دیتے ہیں نہ کہ بےشرمی سے "مجھے کیوں نکالا" کے بیانیے کے زور پر اپنے سیاسی غلاموں کے ذریعے ریاستی اداروں کو بے وقعت اور تباہ کرنے کے مشن پر نکل پڑے اور وہ بھی اپنی موروثی سیاست اور اس کے ذریعے حاصل کردہ بے پناہ ناجائزدولت کو بچانے کیلئے جسکا نہ اس نے ٹیکس بھرا اور نہ ہی کوئی ذرائع ۔۔۔آمدن بتا سکا ہو-
ویسے پاکستانی "جمہوروں" اور "قوم پرستوں" کے جہاد کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو دیکھ کر اس ملک اور معاشرے میں تو انکا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا ہاں پاکستان کے متعلق ایسے "گرم اور مسالےدار" بیانیوں کے بین الاقوامی سامعین اور خریداروں کے مکمل زوال تک انکا تبلیغ جاری رہیگا- جس بدقسمت ملک کے وجود اور انکے قومی اداروں کے خلاف ایک مخصوص بیانیہ اپنے تمام تر گھٹیا معیار کے باوجود بین اقوامی مارکیٹ میں مہنگے داموں بکتا رہا ہو، وہاں ماضی کے کامیاب مثالوں سے متاثر ہوکر ایسے "تجزیہ نگار" جنم لیتے رہینگے خصوصاً جب کہ ایک کم پڑھی لکھی آبادی والے تیسری دنیا کے اس ملک میں ٧٠ سے زیادہ "نیوز چینل" اور درجنوں قومی اخبارات ہو اور جہاں پر نسلی قومیتوں میں ١% سے کم حمایت رکھنے والے اپنے تمام تر ثابت شدہ جھوٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ان قومیتوں کے سب سے بڑے علمبرداروں کے طور پر وجود رکھتے ہو- ایسے "جمہوری حق پرستوں" کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں اگر ایک دو اوریا مقبول جان، شاہد مسعود اور زید حامد بیچارے جنکے اوقات کا ہم سب کو پتہ ہے جنم لے بھی لے تو اس پر بھی اتنا بے ہنگم شور؟ ان لبرل جمہوروں کا شکریہ کہ ہم جیسوں کو بھی "مطالعہ پاکستان" اور "جمہوریت" کا مطلب سکھا دیا-- 

No comments