Breaking News

پشتون تحفظ مومنٹ۔ احتیاط کی ضرورت


(۔..........( شمس مومند
پشتون تحفظ مومنٹ نے قلیل عرصے میں نہ صرف نام کمایا ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کا اعتماد بھی حاصل کیا ہے۔ کیونکہ پشتون عوام کو یقین ہے کہ یہ تحریک نہ صرف ان کے حقیقی مسائل کو سامنے لانے بلکہ اس کو حل کرنے کی طرف بھی پیش رفت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تحریک کی تیزی سے شہرت اور کامیابی کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گزشتہ مہینے اسلام آباد میں بارہ روزہ پشتون لانگ مارچ کے دوران انھوں نے قانون کے دائرے میں پر امن اور مہذب رہ کر دوٹوک موقف کیساتھ اپنی ساکھ پر آنچ نہیں آنے دی۔ اسی مہذب طریقہ کار اور قانون کی پاسداری نے دنیا بھرمیں رہایش پزیر پشتونوں کو اس تحریک کیطرف متوجہ کیا۔اور اور وہ کسی منظم منصوبہ بندی اور مہم جوئی کے بغیر پی ٹی ایم کا ساتھ دینے کے لئے آگے آئے۔
کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب محسود کی ہلاکت سے توانائی حاصل کرنے والی اس تحریک کے ابتدائی مطالبات کچھ یوں تھے۔ کہ نقیب محسود کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جبری طور پر لاپتہ افراد کو فوری عدالتوں میں پیش کیا جائے، وزیرستان سے لینڈ مائن کا صفایا کیاجائے۔ اور بے گناہ مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ فاٹا میں قائم سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر عوام کو بے جا تنگ کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ اور کسی دھماکے یا حملے کے بعد کرفیوں لگاکر عام عوام کو گرفتار کر کے ذلیل کرنے کو بند کیا جائے۔ یہ وہ بنیادی مطالبات ہیں جس کو تمام پشتونوں کے عموما اور قبائلی عوام کے خصوصا بنیادی ضروریات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان مطالبات کو بہت تیزی کیساتھ پزیرائی ملی۔ یہاں تک تو بات سادہ صحیح اور عام فہم ہے اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں۔ مگر جو جو تحریک کو تقویت ملتی گئی ۔ اس کے جلسوں میں ہزاروں لوگوں کی شمولیت شروع ہوگئی۔تواس کے بعض رہنماوں کے الفاظ و انداز میں باغیانہ پن اور تند خوئی نمایا ہونے لگی۔ دوسری طرف اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مختلف الخیال لوگ اپنی اپنی مفادات اور سوچ کیساتھ اس تحریک کا حصہ بنتے چلے گئے۔ جس میں سیاسی طور پر پاکستان کی سا لمیت پر یقین رکھنے والے قوم پرستوں کے علاوہ باغیانہ یا پاکستان مخالف سوچ رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان میں جلسہ کے بعد اس تحریک کے کئی رہنماوں کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی۔ میں ذاتی طور پر جس طرح اس ایف آئی آر کو غلط اور جلتی پر تیل سمجھتا ہوں اسی طرح پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور پاک فوج کے خلاف نعروں اور تقریروں کو بھی غلط سمجھتا ہوں۔ کیونکہ بقول شاعر۔۔۔۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام ۔
آفاق کی اس کارگاہ شیشہ گری کا
اس ایف آئی آر اور پی ٹی ایم کے خلاف مزید اٹھنے والی آوازوں اور خدشات کو مد نظر رکھ کر چند گزارشات پیش کررہاہوں۔ ہوسکتا ہے کہ میری تجاویز کئی لوگوں کو اچھا نہ لگے مگر بحیثیت ایک پشتون صحافی پی ٹی ایم کوممکنہ خدشات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اولایہ کہ پشتون تحفظ مومنٹ کا باقاعد آئین و منشور بناکر اس کوجسٹرڈ کیا جائے۔ اور اسکی مکمل تنظیم سازی کی جائے تاکہ ہر علاقے کے تنظیمی رہنماء اور ذمہ دار معلوم ہو۔ ثانیا یہ کہ تنظیم کے تمام اخراجات و آمدن کاواضح اور تحریری ریکارڈ موجود ہو، تاکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ بلاوجہ اسکو بدنام نہ کر سکے۔جو لوگ تنظیم کے پلیٹ فارم سے سوشل میڈیا کا استعمال یا جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں ۔ ان کی حب الوطنی اور قوم پرستی شک و شبہے سے بالاتر ہونی چاہیئے تاکہ نام نہاد علیحدگی پسندانہ یا باغیانہ خیالات کیوجہ سے تنظیم کے مقاصد کو نقصان نہ پہنچ جائے۔
ثالثا یہ کہ اپنے مطالبات کو یک جا کر کے اس میں فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ قانونی معاشی اور سماجی مشکلات کا بہتر حل اس میں بھی مضمر ہے۔  اربعا یہ کہ جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیا پر اعداد وشمار دینے سے پہلے قبائلی عوام کی اموات، زخمیوں، لاپتہ افراد اور گھروں کی تباہی کا سائینسی بنیادوں پر سروے کر کے ڈیٹا اکھٹا کرنا ضروری ہے۔ تاکہ میڈیا سمیت کسی بھی قومی اور بین الاقوامی فورم پر دلیل، ثبوت اور ٹھوس اعداد وشمارکیساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا جاسکے۔
خامسا یہ کہ جس طرح اس تنظیم کا نام محسود تحفظ مومنٹ سے بدل کر پشتون تحفظ مومنٹ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح تنظیم کے سربراہ منظور کو بھی اب وزیرستانی لہجے یعنی پشتین کی بجائے اپنے نام کیساتھ پورے پختونخوا کے معروف لہجے اور تلفظ یعنی پشتون لکھنا چاہیئے۔ تاکہ دنیا بھر کے لوگ تنظیم اور اسکے سربراہ کے ناموں میں تعلق کو آسانی سے سمجھ سکے۔ اور سب سے آخری مگر اہم بات یہ کہ اگر تنظیم کے رہنماء پشتون قوم اور اپنے کاز کیساتھ سچے اور مخلص ہیں تو انہیں علیحدگی پسند بلوچ رہنماوں کی طرح باغیانہ سوچ اور جذباتی بیانات کی بجائے سوچ سمجھ کر قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مہذب اور جمہوری انداز میں اپنا مقدمہ لڑنا چاہیئے۔ کیونکہ پشتونوں کے مسائل کا حل اسی پر امن منظم اور جمہوری جدوجہد میں مضمر ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سوشل میڈیا کے بامقصد استعمال اور پشتون نوجوانوں کی بیداری کی بدولت مشکلات کا دور جلد ختم ہونے والا ہے کہیں ایسا نہ ہو، کہ خدانخواستہ پی ٹی ایم کے نوجوان رہنماوں کی کسی جذباتی غلطی یا کسی اور کے اشاروں پر ناچنے والے کسی خفیہ غدار کی شمولیت کیوجہ سے پشتونوں کی مشکلات کا نیا دور شروع ہوجائے۔ اسی لئے تمام پشتونوں کو جذباتی ہونے کی بجائے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی تحریک کے لئے بد قسمتی کی بات یہ ہوتی ہے جب وہ اپنی توانائیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے صرف کرنے کی بجائے اپنی صفائیاں پیش کرنے پر صرف کرنا شروع کردے۔اگر اس مرحلے پر تحریک کے لوگ اپنے مقاصد کی بجائے اپنی صفائیاں دینے پر مجبور ہوگئے تومتاثرہ قبائلی اور پشتون عوام کو مایوسی اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ سولہ مارچ دو ہزار اٹھارہ

No comments