Breaking News

صافی صاحب، ہمیں ذہنی یرغمال مت بنائیں





-
 تحریر:    سلیم جاوید
 
                                                                          بشکریہ:    روشن محسود
فرمایا: ایک نیا صوبہ کھڑا کرنا مذاق نہیں ہوتا -آپ چاہتے ہیں راتوں رات فاٹا کو صوبہ بنا دیا جائے-
عرض کیا: ہمارے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئ تھی کہ آپ نے راتوں رات گلگت بلتستان صوبہ بنا دیا تھا جو دو جمہوری ٹینیور مکمل کرنے والا ہے-فاٹا والے بھی اتنے گئے گذرے نہیں-فرمایا: فاٹا کی سات ایجنسیاں ہیں- ہر ایجنسی میں نیا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں کروڑوں روپے لگ جائیں گے-
عرض کیا: ہر ایجنسی میں دو دو ارب کا انفراسٹرکچر بنادو تو 14 ارب درکار ہیں-لاہور میں میٹرو چلانے کیلئے 11 ماہ میں 37 ارب کا انتظام ہوسکتا ہے تو فاٹا کیلئے کیوں نہیں؟
فرمایا: صرف عمارتوں کا خرچہ تو نہیں ہوتا نا- پھر محکمے چلانے کیلئے رقم درکار ہوگی-
عرض کیا: فاٹا کو برباد کرنے ضرب عضب کے نام پہ 40 ارب میسر ہوگئے تو آباد کرنے بھی ہوجائیں گے-ویسے اربوں کا فنڈ تو اب بھی فاٹا کو دیا جاتا ہے جو ملکان اور پولیٹیکل والوں کی جیبوں میں جاتا ہے-صوبہ بننے کی صورت میں کم از کم ، کوئ آڈٹ تو ہوسکے گا-
فرمایا: ان ساتوں ایجنسیوں کا آپس میں سڑک تک کا رابطہ نہیں تو کیا ایسا صوبہ ہوگا جسکے دو حصوں میں جانے کیلئے ایک اور صوبے سے گذرنا پڑے ؟
عرض کیا: حضور، آپ کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی-آپ تیس سال تک ایسا ملک چلاتے رہے جسکے ایک سے دوسرے حصے تک ، دشمن کی فضا سے ہوکر جانا پڑتا تھا-آج بھی پختونخواہ میں ایبٹ آباد سے پشاور جانے کیلئے پنجاب سے ہوکر جانا پڑتا ہے-
لیکن حضور، اگر انکا ڈائریکٹ رابطہ نہیں ہے تو بنا دونا-رابطہ سڑکیں کیوں نہیں بناتے؟ یا پھر درمیان پڑنے والے علاقے کو فاٹا کے صوبے میں شامل کرکے لائن سیدھی کرلیں-آخر ڈیرہ اسماعیل خان کے 32 موضعہ جات(مٹھے والی وغیرہ) بھی تو آپ نے ون یونٹ کے بعد پنجاب میں شامل کردیئے تھے-
فرمایا: یار، یہ فاٹا ایک لمبی پٹی ہے- کیا باجوڑ والے وزیرستان جاکر مسئلے حل کرائیں گے؟
عرض کیا: جناب، پختونخواہ بھی لمبی پٹی ہے اور چترال والے ، ڈیرہ تک جاتے رہتے ہیں-باقی، آپ فاٹا کا کیپٹل، خیبر ایجنسی کو بنا دیں- ٹانک سے پشاور جانا اور وانا سے خیبر جانا، ایک ہی بات ہے-
فرمایا: آپکو قبائل اور پختونخواہ کے تعلیمی معیار کا فرق معلوم ہے-انضمام سے یہ ہوگا کہ قبائل کی تعلیمی سطح بلند ہوگی-
عرض کیا: آپکو پنجاب اور پختونخواہ کے تعلیمی معیار کا فرق معلوم ہے-پختونخواہ کو ختم کرکے دوبارہ ون یونٹ بنا دیں تو تعلیمی سطح زیادہ بلند ہوجائے گی-
ناراض ہوگئے-: یار ، فاٹا سے زیادہ قبائلی تو اسوقت پشاور اور کوہاٹ میں مقیم ہیں-عقل کا تقاضہ ہے کہ انکو پختونخواہ میں ضم کیا جائے-
عرض کیا: آپ فاٹا کی دولت نہ لوٹتے رہتے اور انکو وہاں روزگار کی سہولت دیتے تو کیوں علاقہ چھوڑتے؟ اب چونکہ قبائلی پشاورمیں زیادہ آباد ہیں تو آپ فرما رہے ہیں انکا صوبہ نہ بناؤ بلکہ یہیں ضم کردو-ویسے وانا اور میرانشاہ سے زیادہ وزیر ومحسود، دبئ میں آباد ہیں تو کیا دبئ کو وزیرستان میں ضم کردیں یا وزیرستان ختم کردیں؟
کہنے لگے: آپ اسلئے الگ صوبہ کا ایشو اٹھا رہے ہیں تاکہ ایف سی آر والا ظالمانہ نظام باقی رہے-
عرض کیا: جنہوں نے ایف سی آر ختم کرنا ہے تو اپنے درد کی وجہ سے کرنا ہے نہ کہ آپکے غم میں-آپ یہ نہ سمجھیں کہ کوئ آپ پہ ترس کھارہا ہے-لہذا جب وہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایک کام کرنے جارہے ہیں تو آپ بھی ذرا سخت سودا کریں نا-
کہنے لگے: کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بحث میں انضمام سے بھی جائیں اور صوبہ بھی نہ بنے؟
عرض کیا : اگر ایسا ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟-نئ نسل اب ویسے بھی یہ نظام نہیں مانے گی - جلدبازی میں غلط چیز تسلیم کرکے کچھ عرصے بعد، بنگلہ دیش کی طرح حالات ہوں، اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا خون بہے تو اس سے بہتر ہے جیسے تھے ویسے ہی رہیں"-
زچ ہوگئے: آپ کیوں قبائل کے مامے بنے ہو-سب قبائلی پختونخواہ کے ساتھ انضمام چاہتے ہیں چاہے آپ رفرنڈم بھی کروا لو-
عرض کیا: یہی تو ہم کہہ رہے کہ آپ اور ہم قبائلیوں کے مامے کیوں بن رہے ہیں-رفرنڈم کروا لو اورجو وہ چاہتے ہیں، ویسے کرلو-اتنی سی بات ہے-
کہنے لگے: یار، کیا فاٹا کے حالات میں رفرنڈم ہوسکتا ہے؟ اور اب وہاں ہے کون جس پہ رفرنڈم کرو گے؟ 90 فیصد قبائلی تو فاٹا سے باہر رہ رہے ہیں-
عرض کیا: من حرامی تے حجتاں ہزار- جب فاٹا میں صرف 10 فیصد آبادی رہ رہی ہے تو انکا رفرنڈم کیا مشکل ہے؟ باقی 90 فیصد پرامن پاکستان میں رہتے ہیں تو کشمیریوں کی طرح انکا رفرنڈم بھی آسان ہے-زیادہ سے زیادہ یہی کہ دھاندھلی ہوجائے گی تو اگر پہلے دھاندھلی زدہ رفرنڈم اور الکشن قبولے ہیں پس ایک اور سہی-اگربرسوں سےمحروم ، ایک غریب قبائلی کو جھوٹی عزت ہی مل جائے کہ اس سے بھی ملکی پالیسی بارے پوچھا جاتا ہے تو اس پہ چند کروڑ لگانا ،مہنگا سودا نہیں- وعلیکم السلام

No comments