Breaking News

فرمان کسکراور ہمارا معاشرتی زوال

( شمس مومند)

میں جب بھی کسی گلی محلے یا بازار میں کسی ہیرویینچی یا نیم پاگل شخص کے پیچھے نوجوانوں کا ہجوم دیکھتا ہوں ان کے قہقہے سنتا ہوں۔ اس بے چارے کی بے بسی دیکھتا ہوں ۔ اس شخص کی بے بسی سے زیادہ مجھے اپنے قومی اور معاشرتی انحطاط پر رونا آتا ہے۔ میں نے کئی بار معذور اور کمزور لوگوں کے سر راہ گرنے پر بچوں اور جوانوں کے قہقہے سنے ہیں۔ مجھے اس وقت ان معذوروں سے زیادہ ان بچوں اور نوجوانوں کے والدین کی تربیت پر ترس آتا ہے۔ جس معاشرے کے پندرہ سے پچیس سال کے نوجوانوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انسانی ہمدردی کیا چیزہے کسی کیساتھ ہنسنے اور کسی پر ہنسنے میں کیا فرق ہے ۔ تو اس معاشرے میں بے حسی ، کم ظرفی اور انحطاط کے ایسے ہی نظارے دیکھنے کو ملینگے۔
فرمان کسکر کو سوشل میڈیا کیساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹی وی نے چند روز میں شہرت کی جس بام عروج پر پہنچایا۔نامی گرامی شاعر و ادیب اس کی تمنا ہی کر سکتے ہیں۔ مگر اس کی مثال پشتو کی اس کہاوت سے ملی جلی ہے کہ ایک شخص کو کوئی نہیں جانتا تھا تو انھوں نے جاکر مسجد میں گندگی کر ڈالی۔ ہر شخص گندگی کرنے والے کا نام پوچھتا تھا اور اسے بد دعائیں اور گالیاں دیتا تھا مگر وہ شخص خوش تھا کہ لوگ انہیں جاننے لگے ہیں۔ بقول شاعر۔۔ بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔۔مگر یہ بے چارہ فرمان کسکر تو اس لیول کا بھی نہیں کہ وہ خود کو مشہور کرنے کے لئے کچھ کر سکے۔ میری دانست میں ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے فرمان کسکر کا شمار ان بچوں میں ہوتا ہے جن کو معذور تو شاید کہنا مناسب نہ ہو مگر یہ سلو لرنر( یعنی آہستہ آہستہ سیکھنے والے) ہوتے ہیں وہ باقی بچوں کی نسبت ایک سال کی بجائے اڑھائی تین سال میں باتیں شروع کرتے ہیں ۔ ان کا ذخیرہ الفاظ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ نارمل بچے اگر پندرہ سولہ سال میں میٹرک پاس کرتے ہیں تو ایسے بچے بیس سال بعد اس قابل ہوجاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ ان کا مذاق اڑانے کے لئے اس پر ہنستے ہیں، مگر وہ خوش ہوتا ہے کہ لوگ میری شاعری کو پسند کرتے ہیں اور میری شاعری سے خوش ہوکر ہنستے ہیں علی ھذالقیاس۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ فرمان کسکر شاعری کے نام پر جو کچھ بول رہا ہے اور شاعروں کا جو حشر نشر کرتا ہے لوگ اس پر ہنستے کیوں ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نوجوان نسل واقعی اسکو شاعری سمجھنے لگی ہیں۔ جو کوئی زرا کمزور شعر کہتا ہے تو آگے سے فقرہ کسا جاتا ہے کہ یار یہ تو فرمان کسکر کی شاعری ہے ۔ نوجوان نسل کی کج فہمی اور معاشرتی انحطاط کی انتہا ملاحظہ کیجئے۔ گزشتہ روزایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں آنجناب کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں بلایا گیا تھا۔ طلباٗ کا ایک جم غفیر اس کے سامنے کھڑا ہے اور جناب رکشے سے اترتے ہوئے سیاسی رہنماء کی طرح ہاتھ ہلاکر شائقین و ناظرین کی گرمجوشی کا جواب دے رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔مردان کی جس سر زمین نے ڈاکٹر اسرار، سلمی شاہین ،اندیش شمس القمر ،ڈاکٹر ہمایون ھما، انصار خلجی اور اکمل لیونے جیسے نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا ہو۔ جنھوں نے اپنے روشن تخیلات و افکار اور علم و دانش سے ایک زمانے کو منور کیا ہے۔ ایک قوم پرست مگر دانشور سیاسی رہنماء کے نام پر قائم یونیورسٹی میں آج ان عظیم شخصیات کو کوئی جانتا تک نہیں۔ ان کو بلانا اور ان کی عزت افزائی کرنا تو دور کی بات ہے، مگر اسی مادر علمی میں بلایاجاتا ہے تو فرمان کسکر کو۔ ان کو ہیرو بناکر یونیورسٹی میں گھمایا جاتا ہے اوریونیورسٹی کے طلباء (میں زور دے کر کہتا ہوں پرائمری یا مڈل سکول کے نہیں عبدالولی خان یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء ) اپنا پورا قیمتی دن فرمان کسکر کی نذر کرتے ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ یہ سوشل میڈیا کے کمالات ہیں مگر سوشل میڈیا سے کیا گلا وہ تو شتر بے مہار کی مانند ہے، ہمارے معاشرے کی اکثریت کی جو ذہنی سطح ہے اسی کے مطابق وہ چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور آگے شئیر کرکے پھیلاتے ہیں۔ مگر مجھے وائس آف امریکہ اور خیبر نیوز سے بجا طور پر گلہ ہے کہ انھوں نے فرمان کسکر کی کن خوبیوں اورصفات کو بنیاد بناکر ان پر رپورٹ بنائے۔ اگر ان اداروں کے رپورٹ بنانے کا یہی معیار ہے کہ جس شخص کے منہ میں جو بات بھی آئے وہ دو تین مرتبہ دہرائے، آگے پیچھے کرکے بولے اور اسکو شاعری بناکر پیش کرے۔ تو پھر تو ہر گلی محلے میں درجنوں فرمان کسکر پڑے ہیں بناتے رہوں اور بڑھاتے رہو۔ اگر یہ معیار نہیں ہے تو پھر ان کے بے مطلب الفاظ اور ادھورے جملوں کو شاعری بناکر پیش کرنے اور ان کو عظیم شعرا پر فوقیت دینے پر اپنے ناظرین و سامعین سے معافی مانگے۔ اور ان سب نوجوانوں سے گزارش ہے جو لوگ فرمان کسکر کو مزاح کے طور پر بھی سنتے ہیں وہ اپنے حقیقی شعرا کو بھی پڑھنا اورسننا گوارا کرے۔ جس زبان کی شاعری میں رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، حمزہ بابا اور غنی خان جیسے ہستیوں کی کتابیں موجود ہو اور جہاں اباسین یوسفزئی، اقبال شاکر، بخت زادہ دانش، نورالامین یوسفزئی ، حسین احمد صادق اور ایسے سینکڑوں اور زبان و بیان کے ماہر موجود ہو۔ وہاں شاعری کے نام پر فرمان کسکر بے چارے کو بلانا اور اس کے ساتھ وقت گزارنا ، شاعری کی نہیں اپنے قیمتی وقت کی توہین ہے۔ اللہ ہم سب کو اچھی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

No comments