گورنر۔ متوازی حکومت کی جانب گامزن
( شمس مومند)
میر کیا سادہ ہے بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں
گورنر پختونخوا کے نوٹی فیکیشن کے مطابق اب وہی لوگ قبائل کے مسائل کا حل تجویز کرینگے جس نے گزشتہ چار دہائیوں میں قبائل کو محروم اور پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جی ہاں پختونخوا میں سابقہ بیوروکریسی کے وہ معروف نام ، جن کے دماغ سے فاٹا میں بے تاج بادشاہ رہنے کا نشہ اب تک نہیں اترا ہے ۔ جنھوں نے ڈھکے چپے نہیں بلکہ ببانگ دہل انضمام کی مخالفت کی جنھوں نے ہر دستیاب فورم پر ایف سی آر جیسے کالے قوانین تک کا دفاع کرکے قبائل کے زخموں پر نمک پاشی کی۔جو کھبی براہ راست تو کھبی بالواسطہ فاٹا کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ یہی لوگ آج ہمارے دبنگ گورنر خیبر پختونخوا جناب شاہ فرمان صاحب کے غیر آئینی مگر من پسند آرڈر کی بدولت ایک مرتبہ پھر قبائلی اضلاع کے مختار کل بن گئے ہیں۔ہمارے سابقہ قبائلی علاقوں میں جب کوئی بندہ بہت زیادہ من مانی کرتا۔ رواج قانون اور اخلاقیات کی بجائے من پسند فیصلہ دوسروں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا تو یہ بات ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی کہ یار فلاں بندہ تو خودساختہ گورنر بنا ہوا ہے ۔ نہ کسی کی سنتا ہے نہ کسی کی مانتا ہے۔ اس بات کی حقیقت آج معلوم ہوئی کہ ہمارے بزرگ ہر قانون شکن شخص کو گورنر کیوں کہتے تھے۔ صرف اس لئے کہ انضمام سے پہلے پختونخوا کے گورنرفاٹا میں تو واقعی شہنشاہ معظم ہوتے تھے۔ اپنے دوروں کے دوران ان کی منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو گورنر ڈائریکٹیوز کے نام سے احاطہ تحریر میں لایا جاتا اور ان کی کہی ہوئی ہر بات حرف آخر ہوتی تھی۔ جس کی اطاعت کے لئے انتظامیہ تن من دھن کی بازی لگا لیتی۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ انضمام کے بعد بھی آنے والے گورنر صاحبان کے دماغ سے بقول شاعر۔۔ چٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی کے مصداق ۔۔ اختیارات کا وہ نشہ نہیں اترے گا۔ گورنر پختونخوا جناب شاہ فرمان صاحب نہ آئین کو دیکھتا ہے جس کی حفاظت اور پیروی کا انھوں نے حلف اٹھایا ہے نہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ مانتا ہے جنھوں نے صرف پچیس دن پہلے یعنی سولہ جنوری کو اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ قبائلی اضلاع اب خیبر پختونخوا کا باقاعدہ حصہ ہے اور وہاں صرف انہی قوانین کے تحت فیصلے کئے جاینگے جس کا اطلاق باقی صوبے میں ہورہا ہے۔ عدالت اپنے فیصلے میں مزید لکھتا ہے کہ ملک بھر میں جرگہ اور پنچائیت وغیرہ کے ذریعے دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے کروانا بھی غیر آئینی و غیر قانونی ہے اس پر فوری طور پر پابندی لگائی جاتی ہے ، البتہ صرف ثالثی کے لئے اور فریقین کی رضامندی سے ان کے درمیان گفت و شنید جرگہ ممبران کر سکتے ہیں۔ ان واضح اور دوٹوک عدالتی احکامات کے باوجود گورنر پختونخوا سابقہ فاٹا کے معاملات چلانے اور سلجھانے کے لئے مشاورتی بورڈ کا نوٹی فیکیشن جاری کرتا ہے۔ اور ان کے ذمے کام کیا لگاتا ہے کہ وہ سابقہ فاٹا میں تنازعات کے حل کا متبادل نظام تجویز کرے گا۔جس میں مقامی رسم ورواج کے ذریعے مسائل کے حل کا طریقہ موجود ہو۔ کیا پورے ملک میں گورنر سے آج بھی واقعی کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جناب پچیسویں آئینی ترمیم اور فاٹا کے انضمام کے بعد آئین کا وہ کونسا دفعہ ہے جو آپکو اس قسم کا بورڈ تشکیل دینے کا اختیار دیتا ہے؟ثانیا یہ کہ جب سپریم کورٹ نے جرگوں اور رسم ورواج کے ذریعے فیصلوں کو غیر قانونی قراردیا ہے اور قانون کے دائرے میں کامیاب اور ماڈل متبادل نظام آپ ہی کے صوبے میں گزشتہ چار سال سے ڈی آر سی کی صورت میں موجود ہے تو کیا آپ کو نہ اپنے ملک اور صوبے کے عدالتی نظام پر اعتماد ہے اور نہ متبادل (ڈی آر سی) پر تو پھر کیا آپ آئین و سپریم کورٹ سے بغاوت کرتے ہوئے ایف سی آر کے جرگوں کو واپس لانا چاہتے ہیں؟اگر آپ جرگہ نظام ہی کے حامی ہے تو ڈی آر سی کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دے۔ کیونکہ عمران خان سمیت پختونخوا پولیس اس کی بے پناہ تعریف کر رہی ہے۔ جس میں کافی حد تک صداقت بھی ہے۔اور یہی جدید جرگے کی منظم شکل ہے۔مشاورتی بورڈ کو مزید ذمہ داریاں بھی تفویض کی گئی ہے مثلا حکومت اور قبائل کے درمیان تمام ابھرتے ہوئے مسائل کا حل تجویز کرنا، ایک ایسی فورس بنانا جو قبائلی اضلاع میں موجود سیکیورٹی افراد کی ٹریننگ کو یقینی بنائے ۔ نظام انصاف کو تیز کرنا، ان علاقوں میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات کا خاکہ تیار کرنا اور وہاں کام کرنے والے تمام اداروں پر نظر رکھنا تاکہ وہ وہاں ترقیاتی کاموں کی صحیح انداز میں تکمیل کو یقینی بنائے۔
بورڈ کو دئے گئے اختیارات اور ٹی او آرز سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنر صاحب وہاں پہلے ہی کی طرح ایک اور متوازی حکومت بنانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ کیونکہ اگر انصاف دلانا ، ٹریننگ دینا، ترقیاتی کاموں کی نگرانی اور بلدیاتی انتخابات کے خدو خال بنانا اس مشاورتی بورڈ کا کام ہے اور اسکی نگرانی خود گورنر صاحب کرینگے تو پھر عدلیہ پولیس الیکشن کمیشن اور تمام صوبائی ترقیاتی محکموں کا وہاں کیا کام باقی رہتا ہے اور خاص کر وزیر اعلی محمود خان کی حیثیت کیا رہ جائے گی۔ اگر آپ نے اسی اور پچاسی سالہ گریڈ اکیس اور بائیس کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو وہاں اختیارات تفویض کئے تو گریڈ انیس سے اکیس تک کی موجودہ بیورو کریسی وہاں کس طرح کام کرے گی۔ اس کا جواب اگر شاہ فرمان صاحب کے پاس ہے تو ہمیں بھی بتائے۔
اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں
گورنر پختونخوا کے نوٹی فیکیشن کے مطابق اب وہی لوگ قبائل کے مسائل کا حل تجویز کرینگے جس نے گزشتہ چار دہائیوں میں قبائل کو محروم اور پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جی ہاں پختونخوا میں سابقہ بیوروکریسی کے وہ معروف نام ، جن کے دماغ سے فاٹا میں بے تاج بادشاہ رہنے کا نشہ اب تک نہیں اترا ہے ۔ جنھوں نے ڈھکے چپے نہیں بلکہ ببانگ دہل انضمام کی مخالفت کی جنھوں نے ہر دستیاب فورم پر ایف سی آر جیسے کالے قوانین تک کا دفاع کرکے قبائل کے زخموں پر نمک پاشی کی۔جو کھبی براہ راست تو کھبی بالواسطہ فاٹا کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ یہی لوگ آج ہمارے دبنگ گورنر خیبر پختونخوا جناب شاہ فرمان صاحب کے غیر آئینی مگر من پسند آرڈر کی بدولت ایک مرتبہ پھر قبائلی اضلاع کے مختار کل بن گئے ہیں۔ہمارے سابقہ قبائلی علاقوں میں جب کوئی بندہ بہت زیادہ من مانی کرتا۔ رواج قانون اور اخلاقیات کی بجائے من پسند فیصلہ دوسروں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتا تو یہ بات ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی کہ یار فلاں بندہ تو خودساختہ گورنر بنا ہوا ہے ۔ نہ کسی کی سنتا ہے نہ کسی کی مانتا ہے۔ اس بات کی حقیقت آج معلوم ہوئی کہ ہمارے بزرگ ہر قانون شکن شخص کو گورنر کیوں کہتے تھے۔ صرف اس لئے کہ انضمام سے پہلے پختونخوا کے گورنرفاٹا میں تو واقعی شہنشاہ معظم ہوتے تھے۔ اپنے دوروں کے دوران ان کی منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو گورنر ڈائریکٹیوز کے نام سے احاطہ تحریر میں لایا جاتا اور ان کی کہی ہوئی ہر بات حرف آخر ہوتی تھی۔ جس کی اطاعت کے لئے انتظامیہ تن من دھن کی بازی لگا لیتی۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ انضمام کے بعد بھی آنے والے گورنر صاحبان کے دماغ سے بقول شاعر۔۔ چٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی کے مصداق ۔۔ اختیارات کا وہ نشہ نہیں اترے گا۔ گورنر پختونخوا جناب شاہ فرمان صاحب نہ آئین کو دیکھتا ہے جس کی حفاظت اور پیروی کا انھوں نے حلف اٹھایا ہے نہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ مانتا ہے جنھوں نے صرف پچیس دن پہلے یعنی سولہ جنوری کو اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ قبائلی اضلاع اب خیبر پختونخوا کا باقاعدہ حصہ ہے اور وہاں صرف انہی قوانین کے تحت فیصلے کئے جاینگے جس کا اطلاق باقی صوبے میں ہورہا ہے۔ عدالت اپنے فیصلے میں مزید لکھتا ہے کہ ملک بھر میں جرگہ اور پنچائیت وغیرہ کے ذریعے دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے کروانا بھی غیر آئینی و غیر قانونی ہے اس پر فوری طور پر پابندی لگائی جاتی ہے ، البتہ صرف ثالثی کے لئے اور فریقین کی رضامندی سے ان کے درمیان گفت و شنید جرگہ ممبران کر سکتے ہیں۔ ان واضح اور دوٹوک عدالتی احکامات کے باوجود گورنر پختونخوا سابقہ فاٹا کے معاملات چلانے اور سلجھانے کے لئے مشاورتی بورڈ کا نوٹی فیکیشن جاری کرتا ہے۔ اور ان کے ذمے کام کیا لگاتا ہے کہ وہ سابقہ فاٹا میں تنازعات کے حل کا متبادل نظام تجویز کرے گا۔جس میں مقامی رسم ورواج کے ذریعے مسائل کے حل کا طریقہ موجود ہو۔ کیا پورے ملک میں گورنر سے آج بھی واقعی کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جناب پچیسویں آئینی ترمیم اور فاٹا کے انضمام کے بعد آئین کا وہ کونسا دفعہ ہے جو آپکو اس قسم کا بورڈ تشکیل دینے کا اختیار دیتا ہے؟ثانیا یہ کہ جب سپریم کورٹ نے جرگوں اور رسم ورواج کے ذریعے فیصلوں کو غیر قانونی قراردیا ہے اور قانون کے دائرے میں کامیاب اور ماڈل متبادل نظام آپ ہی کے صوبے میں گزشتہ چار سال سے ڈی آر سی کی صورت میں موجود ہے تو کیا آپ کو نہ اپنے ملک اور صوبے کے عدالتی نظام پر اعتماد ہے اور نہ متبادل (ڈی آر سی) پر تو پھر کیا آپ آئین و سپریم کورٹ سے بغاوت کرتے ہوئے ایف سی آر کے جرگوں کو واپس لانا چاہتے ہیں؟اگر آپ جرگہ نظام ہی کے حامی ہے تو ڈی آر سی کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دے۔ کیونکہ عمران خان سمیت پختونخوا پولیس اس کی بے پناہ تعریف کر رہی ہے۔ جس میں کافی حد تک صداقت بھی ہے۔اور یہی جدید جرگے کی منظم شکل ہے۔مشاورتی بورڈ کو مزید ذمہ داریاں بھی تفویض کی گئی ہے مثلا حکومت اور قبائل کے درمیان تمام ابھرتے ہوئے مسائل کا حل تجویز کرنا، ایک ایسی فورس بنانا جو قبائلی اضلاع میں موجود سیکیورٹی افراد کی ٹریننگ کو یقینی بنائے ۔ نظام انصاف کو تیز کرنا، ان علاقوں میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات کا خاکہ تیار کرنا اور وہاں کام کرنے والے تمام اداروں پر نظر رکھنا تاکہ وہ وہاں ترقیاتی کاموں کی صحیح انداز میں تکمیل کو یقینی بنائے۔
بورڈ کو دئے گئے اختیارات اور ٹی او آرز سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنر صاحب وہاں پہلے ہی کی طرح ایک اور متوازی حکومت بنانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ کیونکہ اگر انصاف دلانا ، ٹریننگ دینا، ترقیاتی کاموں کی نگرانی اور بلدیاتی انتخابات کے خدو خال بنانا اس مشاورتی بورڈ کا کام ہے اور اسکی نگرانی خود گورنر صاحب کرینگے تو پھر عدلیہ پولیس الیکشن کمیشن اور تمام صوبائی ترقیاتی محکموں کا وہاں کیا کام باقی رہتا ہے اور خاص کر وزیر اعلی محمود خان کی حیثیت کیا رہ جائے گی۔ اگر آپ نے اسی اور پچاسی سالہ گریڈ اکیس اور بائیس کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو وہاں اختیارات تفویض کئے تو گریڈ انیس سے اکیس تک کی موجودہ بیورو کریسی وہاں کس طرح کام کرے گی۔ اس کا جواب اگر شاہ فرمان صاحب کے پاس ہے تو ہمیں بھی بتائے۔


No comments