مہمند ڈیم۔ خدشات و امکانات۔
( شمس مومند )
ارشاد باری تعالی ہے کہ ہم نے تمام مخلوقات کو پانی کے ذریعے زندگی عطا کی۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کھانا کھائے بغیر کئی دن تک زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر چوبیس گھنٹے سے زیادہ گزارنا محال ہے۔ مہمند قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس ضلع کے ایک طرف دریائے کابل بہہ رہا ہے جس پر ساٹ کی دہائی میں ورسک ڈیم بنا ہوا ہے جو نہ صرف ملک میں بجلی کی ضروریات پوراکرنے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے بلکہ اس سے ضلع چارسدہ نوشہرہ ، پشاور اور خیبر تک کے ہزاروں ایکڑ زمین بھی سیراب ہورہی ہے۔ جبکہ ضلع مہمند کے دوسرے کنارے پر دریائے سوات بہہ رہا ہے۔ جس سے نکلی ہوئی نہریں ضلع چارسدہ اور مردان تک کو سیراب کر رہی ہے۔ مگر مہمند قوم کی بد قسمتی اور محرومی کی انتہا دیکھئے۔ کہ دو دریاووں کے درمیان رہنے والا علاقہ خود بوند بوند پانی کو ترس رہا ہے۔آبپاشی تو درکنار یہاں زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ نیچے ہونے کیوجہ سے عوام کو پینے کے پانی نکالنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے،بلکہ کئی سال سے خشک سالی میں اضافے اور زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گرنے سے بعض لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔مگر اب تک کوئی ایسا بڑا پراجیکٹ نہیں بنا کہ مہمند عوام اور ان کی زمینوں کو پانی فراہم کیا جاسکے۔ ورسک لفٹ بنک کنال کے نام سے بنا ہوا ستر سال پرانا نہر جو لوئر مہمند کے ایک چھوٹے سے حصے کو پانی فراہم کرتا تھا اب خشک نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ جسکی فوری طور پر دوبارہ تعمیر بھی ناگزیر ہے۔
جہاں تک مہمند ڈیم کی تعمیر اور اس سے جڑے امکانات و خدشات کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیانے درجے کے ڈیم بنانے کے کئی ایک فوائد ہوتے ہیں جس میں پانی کو ذخیرہ کرنا، آبپاشی،زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنانا اور بجلی کی پیداوار شامل ہے۔ اور ان چار میں سے دو فوائد ملکی سطح پر جبکہ آبپاشی اور زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہونا مقامی لوگوں کے لئے ایک نئی اور بہتر زندگی کی نوید ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمند قوم کے لاکھوں لوگ اس ڈیم کی تعمیر کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور حکومت کیساتھ بھر پور تعاون کو تیار ہیں، مگر دوسری جانب ورسک ڈیم کے ناخوشگوار تجربے کو مد نظر رکھ کر لوگوں کو بعض خدشات بھی لاحق ہے جس کا سد باب فوری اور واضح انداز میں ہونا ناگزیر ہے۔
مثلا یہ کہ ورسک ڈیم سے اب تک مہمند قوم یا مہمند ایجنسی کو براہ راست ایک پیسے کی رائلٹی نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ یہ آئینی تقاضا ہے کہ کہ کسی بھی بڑے پیداواری پراجیکٹ کا ایک مخصوص حصہ اسی ضلع پر خرچ کیا جائے گا جس میں وہ پراجیکٹ واقع ہو۔ مثلا تیل و گیس کی رائلٹی کوہاٹ و کرک اضلاع کو باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ تمباکو کی مد میں صوابی اور مردان کو سالانہ کروڑوں روپے مل رہے ہیں وغیرہ،اس لئے مقامی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ مہمند ڈیم کی رائلٹی کا آئینی حصہ ضلع مہمند پر خرچ کرنے کی تحریری ضمانت دی جائے۔ مزید یہ کہ ورسک ڈیم پہلے ہی نصف صدی سے ملک و قوم کو کم و بیش چھ سو میگا واٹ بجلی فراہم کرتا رہا ہے(اگرچہ اب یہ مقدار نصف سے بھی کم ہوگئی ہے)اب مہمند ڈیم کے ممکنہ سات سو میگا واٹ کے بعد مہمند عوام کو کم از کم سو میگا واٹ بجلی پچاس سال تک مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا جائے۔ تاکہ یہاں کے غریب عوام اپنے قدرتی وسائل سے مستفید ہوسکے۔ تیسرا اہم ترین مطالبہ مقامی لوگوں کا یہ ہے کہ مہمند ڈیم سے ضلع مہمند کی لاکھوں ایکڑ بارانی زمین کو زیر کاشت بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے پڑانگ غار، پنڈیالی اور عقرب ڈاگ کے لئے نہریں بنائی جائے جبکہ ضلع مہمند کے ہیڈ کوارٹر غلنئی سمیت دوسرے علاقوں کو واٹر پمپنگ نظام کے تحت پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے۔کم شرح تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کیوجہ سے مہمند قوم میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے اس لئے لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیم میں سکیل پندرہ تک کی تمام نوکریاں صرف مقامی افراد کو دی جائے۔ جبکہ ڈیم کی تعمیر میں عام مزدور اور سب کنٹریکٹر سمیت میٹیرئیل کو مقامی مارکیٹ سے لیا جائے تاکہ یہاں پیسے کی سرکولیشن سے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ڈیم کی پی سی ون میں زمین کی جو قیمت تجویزکی گئی ہے اس سے کم قیمت پر لوگوں کو زمین دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ کیونکہ چند دن سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مقامی انتظامیہ لوگوں کو انتہائی کم قیمت پر راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر کام کی ابتدا میں خدانخواستہ قوم اور حکومت کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوگئی تو اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ان سطور کے ذریعے حکومت وقت اور مقامی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس عظیم الشان منصوبے سے مہمند عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کا جو موقع مل رہا ہے اس کو ضائع ہونے یا کم کرنے کی بجائے اس کو بڑھایا جائے۔ڈیم کی سنگ بنیاد رکھنے کی خوشی میں وومن یونیورسٹی ، ایک اچھے تفریحی پارک اور مقامی معدنیات اور خام مال کو مدنظر رکھ کر ایک مناسب کاروباری مارکیٹ کے قیام کا اعلان بھی دہایوں سے محروم مہمند عوام کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے مجوزہ دورہ مہمند میں ان بنیادی مسائل پر توجہ دینگے تاکہ ان کی ویژن اور خواہش کے مطابق قبائلی عوام کو عملی طور پرقومی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔


No comments