دیسی لبرل اور گلمرجان
(تحریر محمدارشدخان)
کل ١٦ دسمبر کو دیسی لبرلوں اور گلمرجانوں کا یوم عاشور ختم ہوا- ماتم افغانستان میں چپھے ہوۓ تلف شدہ ٹی ٹی پی کے باقی ماندہ وحشیوں کے ہاتھوں ١٣٢ معصوم بچوں کی ہلاکت سے زیادہ بنگالیوں کے جدائی کے غم میں تھا- حسب سابق صرف مقامی زبانوں کی بنیاد پر اپنے ہی وطن کو کئی نسلی قومیتوں کی "جعلی ریاست" اور "انگریز کی سازش" قرار دینے والے اور پاک فوج کے ساتھ غیر صحتمندانہ دلچسپی رکھنے والے یہ بھانڈ پراسرار وجوہات کی بنا پر ٢٠٠٠ میل دور بنگالی بھائیوں کے نشہ الفت اور غم جدائی میں چور نظر اۓ- اس امر پر بہت لکھا اور کہا جا چکا کہ بھارتی گھٹ جوڑ سے اگرتلہ سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب کوجمہوری اصولوں کیمطابق اکثریت حاصل ہونے کی بنیاد پر حکومت سازی کے دعوت نہ دینا کتنا بڑا ظلم تھا اسلئے یہ لاحاصل بحث ہے- لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ مجیب صرف حکومت سازی کا نہیں آئین سازی کا حق چاہتا تھا جبکہ انکے پاس مینڈیٹ صرف مشرقی پاکستان سے تھا جو کہ آبادی میں پورے ملک کا ٥٥% لیکن رقبے میں ہزاروں میل دور موجودہ مغربی پاکستان کے ساتویں حصے کے برابر ایک چھوٹا جزیرہ نما تھا- میرے علم میں آج کے دور میں کوئی ایسا پاکستانی نہیں جسکو آج ہم سے یورپ جتنی دوری پر واقع بنگلہ دیش سے کوئی جذباتی دلچسپی ہو سواۓ ان جانے مانے بھانڈوں اور نام نہاد جمہوری دانشبازوں کے جوکہ اس واقعے کو فوج اور ریاست کے خلاف چند گھٹیا تضحیک آمیز نعروں کیلئے ایک بنیاد یا بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہو- یا پھر ان سیاسی بیوپاریوں کے پیٹ میں بنگلہ دیش کا درد اچانک اٹھ جاتا ہے جو کہ کرپشن میں پکڑے جائیں یا اپنے اعمال کے وجہ سیاسی زوال کا شکار ہوجاۓ اور نجات کا واحد راستہ "خلائی مخلوق" کو بلیک میل کرکے ڈیل کرنا ہو- بہرحال حقیقت یہ ہے کہ خلیج بنگال، بھارت اور نیپال کے اس پار بھارت اور روس کی حمایت اور عملی امداد سے ٢٤ سالہ نومولود پاکستان کے خلاف کامیاب ہونے والی بنگلہ دیش کی بغاوت یا جنگ آزادی کے وقت پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک مقبول اور جمہوری طور پر منتخب رہنما جناب ذولفقارعلی بھٹو تھے جو کہ ملک یا شائد دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلے منتخب سویلین مارشل لا ایدمنسٹریٹر بھی بنے- اپنی نوعیت کے مخصوص انوکھے حالات میں اپنی نوعیت کا یہ انوکھا واقعہ نہ تو پاکستان کے کسی موجودہ صوبے کے قوم فروشوں کیلئے کوئی محرک بن سکتا ہے اور نہ قریب المرگ ریاست مخالف دیسی لبرلوں کیلئے کوئی مثال- موجودہ حالات میں اس معاملے میں کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کا نتیجہ بہت ہی بھاری بلکہ خواب دیکھنے والے شیخ چلیوں کیلئے بہت خوفناک نکل سکتا ہے-
پاک فوج کے کچھ افسروں یا جوانوں کے ہاتھوں مکتی باہنی کے عسکریت پسندوں کے وحشیانہ کاروائیوں کے رد عمل میں زیادتیاں ضرور ہوئی ہونگی کیونکہ ایسے واقعات دیارغیر میں ہرفوجی آپریشن اورسول وار کے نتائج میں ایک مکروہ نتیجہ ہوتا ہے جبکہ پروپیگنڈہ جنگ کے ہتھیاروں میں سب اہم ہتھیار جس میں ظاہر ہے بڑے اور طاقتور فریقوں کے پاس ایک فطری فوقیت ہوتی ہے خصوصاً جب نتیجہ بھی انکے حق میں آۓ - یہ بات تو اب معقول بھارتی اور بنگلہ دیشی محقق بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٣٤ سے ٤٠ ہزار کی دشمن میں گری فوج صرف چند ماہ میں ٣ ملین بنگالیوں کا قتل عام اور ٣ لاکھ بنگالیوں عورتوں کا ریپ نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ واقعی ہی کوئی خلائی مخلوق نہ ہو- بلکہ سرمیلا بوس سے لیکر ڈاکٹر ایم عبد المومن چودھری جیسے سکالر تو مستند حوالوں سے اسکو جدید تاریخ کا سب بڑا جھوٹا پروپیگنڈہ ثابت کر چکے- لیکن ظاہر ہے جمہوریت کے نام پر ریاست پاکستان کے مخالف بغض عسکری کے شکار نفسیاتی مریضوں کو تو اپنے نعروں سے ہی آکسیجن ملتی ہے- ذلت آمیز شکست اور "٩٠ ہزار پتلونوں" کا طعنہ دینے والے بھانڈ یہ نہیں بتاتے کہ اپنے ملک سے ٢٠٠٠ میل دور ٧ کروڑ کی باغی آبادی میں گری ہوئی اور ٨٠٠٠٠ مسلح تربیت یافتہ باغیوں اور ٥ لاکھ کی دشمن فوج اور ایئر فورس کے سامنے ٣٤ سے ٤٠ ہزار تک کی بے یارو مددگار فوج ہتھیان نہ ڈالتے تو عورتوں بچوں سمیت ٥٠ ہزار کے قریب پاکستانی سویلینز کے قتل عام کا سبب ہی بنتی یا پھر آخری گولی تک مقامی لوگوں کو ہی مارتی رہتی؟ یہ اعدادو شمار اسی بھارتی فوج کے ہیں جس کےاس وقت کے سربراہ جرنل مانک شا نے ایک پیشہ ور جرنیل کے طرح ہی حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستانی بہت ہی دلیری سے لڑی لیکن انکے پاس مذکورہ حالات کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ جنگ وہ شروع ہونے سے پہلے ہی سیاسی اور جغرافی حالات کے وجہ سے محصور ہوکر ہار چکے تھے- لیکن ہمارے ملک میں فکری آلودگی کے یہ مبلغ ان ٩٠٠٠٠ جنگی قیدیوں کی کل تعداد کو ریاست کے خلاف اپنے نفرت انگیز نعرہ بازی میں تڑکا لگانے کیلئے ہتھیار ڈالنے والی فوج کہتے ہیں- پتہ یہ بھانڈ کب مولوی بنتے ہیں، کب فدائی مجاہد اور کب ماؤ زی تنگ اور کارل مارکس اور کب انسانی حقوق کے چیمپئن- ایک نیم خواندہ مولوی ان محبوس الحواس جاہلوں سے کہیں بہتر ہے-
کچھ حد سے زیادہ "نظریاتی" قسم کے محب وطن بھی جوش میں آکر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ "اقبال کا پاکستان دو لخت ہوگیا" جیسے بنگلہ دیش پاکستان کا "اٹوٹ انگ" تھا اور "ٹوٹ" کر بحیرہ عرب میں تیرتا ہوا بھارت اور خلیج بنگال کے اس پار چلا گیا ہو- ان میں سے اکثر یہ دلچسپ بات نظر اندار کردیتے ہیں کہ اگر ١٩٣٠ کے تاریخی خطبے کے کو بنیاد بنایا جاۓ تو اقبال کے پاکستان میں تو بنگال تھا ہی نہیں- اقبال نے برصغیر کے جس مسلمان تہذیب کے ایک ہزار سالہ ارتقائی تاریخی کا منطقی نتیجہ شمال مغری ہند میں ایک مسلمان ریاست کا قیام قرار دیا تھا اس کا گھڑ یا کلچرل ملٹنگ پائنٹ وادی سندھ اور قدیم گندھارا کی سرزمین تھی- اسی سرزمین کو پنجاب کے چودھری رحمت علی اور صاحبزادہ شیخ محمد صادق نے پختونخوا کے محمد اسلم خان خٹک اور عنایت الله خان کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی میں پاکستان کا نام دیا تھا جو کہ پنجاب، افغانیہ/پختونخوا، کشمیر، سندھ اور بلوچستان کے ناموں کا مخفف تھا- اردو زبان ہی اس تہذیب کی امین ہے جو کہ دنیا کے واحد عظیم اور زندہ زبان ہے جسکا تعلق کسی نسلی قومیت سے نہیں بلکہ ایک کثیر النسلی اور کثیراللسانی تہذیب سے ہے- جدید قومی ریاست اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ڈھاکہ سے لاہور اور پشاور پر حکومت کا انوکھا انتظام اس خطے کے ٢ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں پہلا تجربہ ہوتا خصوصاً جب درمیان میں موجودہ بھارت ایک الگ بلکہ حریف ریاست کے حثیت سے موجود رہتا- بنگلہ دیش کا قیام اسلئے شائد تحریک پاکستان کے نتیجے میں قیام پاکستان کا ہی ایک ضمنی نتیجہ تھا لیکن پاکستان کا حصہ کبھی نہیں-
پاک فوج کے کچھ افسروں یا جوانوں کے ہاتھوں مکتی باہنی کے عسکریت پسندوں کے وحشیانہ کاروائیوں کے رد عمل میں زیادتیاں ضرور ہوئی ہونگی کیونکہ ایسے واقعات دیارغیر میں ہرفوجی آپریشن اورسول وار کے نتائج میں ایک مکروہ نتیجہ ہوتا ہے جبکہ پروپیگنڈہ جنگ کے ہتھیاروں میں سب اہم ہتھیار جس میں ظاہر ہے بڑے اور طاقتور فریقوں کے پاس ایک فطری فوقیت ہوتی ہے خصوصاً جب نتیجہ بھی انکے حق میں آۓ - یہ بات تو اب معقول بھارتی اور بنگلہ دیشی محقق بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٣٤ سے ٤٠ ہزار کی دشمن میں گری فوج صرف چند ماہ میں ٣ ملین بنگالیوں کا قتل عام اور ٣ لاکھ بنگالیوں عورتوں کا ریپ نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ واقعی ہی کوئی خلائی مخلوق نہ ہو- بلکہ سرمیلا بوس سے لیکر ڈاکٹر ایم عبد المومن چودھری جیسے سکالر تو مستند حوالوں سے اسکو جدید تاریخ کا سب بڑا جھوٹا پروپیگنڈہ ثابت کر چکے- لیکن ظاہر ہے جمہوریت کے نام پر ریاست پاکستان کے مخالف بغض عسکری کے شکار نفسیاتی مریضوں کو تو اپنے نعروں سے ہی آکسیجن ملتی ہے- ذلت آمیز شکست اور "٩٠ ہزار پتلونوں" کا طعنہ دینے والے بھانڈ یہ نہیں بتاتے کہ اپنے ملک سے ٢٠٠٠ میل دور ٧ کروڑ کی باغی آبادی میں گری ہوئی اور ٨٠٠٠٠ مسلح تربیت یافتہ باغیوں اور ٥ لاکھ کی دشمن فوج اور ایئر فورس کے سامنے ٣٤ سے ٤٠ ہزار تک کی بے یارو مددگار فوج ہتھیان نہ ڈالتے تو عورتوں بچوں سمیت ٥٠ ہزار کے قریب پاکستانی سویلینز کے قتل عام کا سبب ہی بنتی یا پھر آخری گولی تک مقامی لوگوں کو ہی مارتی رہتی؟ یہ اعدادو شمار اسی بھارتی فوج کے ہیں جس کےاس وقت کے سربراہ جرنل مانک شا نے ایک پیشہ ور جرنیل کے طرح ہی حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستانی بہت ہی دلیری سے لڑی لیکن انکے پاس مذکورہ حالات کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ جنگ وہ شروع ہونے سے پہلے ہی سیاسی اور جغرافی حالات کے وجہ سے محصور ہوکر ہار چکے تھے- لیکن ہمارے ملک میں فکری آلودگی کے یہ مبلغ ان ٩٠٠٠٠ جنگی قیدیوں کی کل تعداد کو ریاست کے خلاف اپنے نفرت انگیز نعرہ بازی میں تڑکا لگانے کیلئے ہتھیار ڈالنے والی فوج کہتے ہیں- پتہ یہ بھانڈ کب مولوی بنتے ہیں، کب فدائی مجاہد اور کب ماؤ زی تنگ اور کارل مارکس اور کب انسانی حقوق کے چیمپئن- ایک نیم خواندہ مولوی ان محبوس الحواس جاہلوں سے کہیں بہتر ہے-
کچھ حد سے زیادہ "نظریاتی" قسم کے محب وطن بھی جوش میں آکر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ "اقبال کا پاکستان دو لخت ہوگیا" جیسے بنگلہ دیش پاکستان کا "اٹوٹ انگ" تھا اور "ٹوٹ" کر بحیرہ عرب میں تیرتا ہوا بھارت اور خلیج بنگال کے اس پار چلا گیا ہو- ان میں سے اکثر یہ دلچسپ بات نظر اندار کردیتے ہیں کہ اگر ١٩٣٠ کے تاریخی خطبے کے کو بنیاد بنایا جاۓ تو اقبال کے پاکستان میں تو بنگال تھا ہی نہیں- اقبال نے برصغیر کے جس مسلمان تہذیب کے ایک ہزار سالہ ارتقائی تاریخی کا منطقی نتیجہ شمال مغری ہند میں ایک مسلمان ریاست کا قیام قرار دیا تھا اس کا گھڑ یا کلچرل ملٹنگ پائنٹ وادی سندھ اور قدیم گندھارا کی سرزمین تھی- اسی سرزمین کو پنجاب کے چودھری رحمت علی اور صاحبزادہ شیخ محمد صادق نے پختونخوا کے محمد اسلم خان خٹک اور عنایت الله خان کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی میں پاکستان کا نام دیا تھا جو کہ پنجاب، افغانیہ/پختونخوا، کشمیر، سندھ اور بلوچستان کے ناموں کا مخفف تھا- اردو زبان ہی اس تہذیب کی امین ہے جو کہ دنیا کے واحد عظیم اور زندہ زبان ہے جسکا تعلق کسی نسلی قومیت سے نہیں بلکہ ایک کثیر النسلی اور کثیراللسانی تہذیب سے ہے- جدید قومی ریاست اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ڈھاکہ سے لاہور اور پشاور پر حکومت کا انوکھا انتظام اس خطے کے ٢ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں پہلا تجربہ ہوتا خصوصاً جب درمیان میں موجودہ بھارت ایک الگ بلکہ حریف ریاست کے حثیت سے موجود رہتا- بنگلہ دیش کا قیام اسلئے شائد تحریک پاکستان کے نتیجے میں قیام پاکستان کا ہی ایک ضمنی نتیجہ تھا لیکن پاکستان کا حصہ کبھی نہیں-


No comments