محمد علی جناح، شراب، سور، اور دیسی سیکولر قوم پرست؟
(تحریر: محمدارشدخان)
----------------------------------------
"جناح تو شراب پیتے تھے اور سور کھاتے تھے"! سوشل میڈیا کے جہالت انگیزی سے لیکر "سنجیدہ" قسم مباحثوں میں یہ چند روایتی جملوں میں سے ہے جو کہ دیسی لبرل بھانڈوں اور نام نہاد سیکولر قوم پرست گلمرجانوں کی "آخری دلیل" ہوتی ہے- ظاہر ہے پاکستان سے غیر صحتمندانہ دلچسپی رکھنے والے ہمارے افغانی اور بھارتی دوستوں کیلئے یہ "سکینڈل" کسی فکری اثاثے سے کم نہیں جو کہ عام پاکستانی نوجوان کو جو کہ قائد کو مطالعہ پاکستان کی نظر سے دیکھتا ہے مشکل میں ڈال دیتا ہے- گو کہ یہ ایک دلیل سے زیادہ گھٹیا قسم کا نعرہ لگتا ہے لیکن ان خاص اقلیتی طبقات فکر میں اتنا مقبول ہے کہ راجہ داھر کو اپنا قومی ہیرو قرار دینے والے اے این پی کے حاجی عدیل مرحوم (جنکو انکے نظریاتی مخالف پنڈت عدیل کہتے تھے) سینیٹ تک میں اسکا ذکر کر بیٹھے جسکی بعد میں انکو معذرت کرنی پڑی- حال ہی میں پی ٹی ایم اور عزیز و اقارب کے دعوے کے مطابق مردان سے مبینہ طور "غائب" ہونے والے اور پھرنمودارہونے والے رشید یوسفزئی نامی فیس بکی دانش باز کو اسی قسم کے "تاریخی انکشافات" اور "حق گوئی" کی بنیاد پر انکے مداح "علم کا سمندر" کہتے ہیں- اس لیے انکا ایک مختصر تاریخی جائزہ ضروری ہے-
----------------------------------------
"جناح تو شراب پیتے تھے اور سور کھاتے تھے"! سوشل میڈیا کے جہالت انگیزی سے لیکر "سنجیدہ" قسم مباحثوں میں یہ چند روایتی جملوں میں سے ہے جو کہ دیسی لبرل بھانڈوں اور نام نہاد سیکولر قوم پرست گلمرجانوں کی "آخری دلیل" ہوتی ہے- ظاہر ہے پاکستان سے غیر صحتمندانہ دلچسپی رکھنے والے ہمارے افغانی اور بھارتی دوستوں کیلئے یہ "سکینڈل" کسی فکری اثاثے سے کم نہیں جو کہ عام پاکستانی نوجوان کو جو کہ قائد کو مطالعہ پاکستان کی نظر سے دیکھتا ہے مشکل میں ڈال دیتا ہے- گو کہ یہ ایک دلیل سے زیادہ گھٹیا قسم کا نعرہ لگتا ہے لیکن ان خاص اقلیتی طبقات فکر میں اتنا مقبول ہے کہ راجہ داھر کو اپنا قومی ہیرو قرار دینے والے اے این پی کے حاجی عدیل مرحوم (جنکو انکے نظریاتی مخالف پنڈت عدیل کہتے تھے) سینیٹ تک میں اسکا ذکر کر بیٹھے جسکی بعد میں انکو معذرت کرنی پڑی- حال ہی میں پی ٹی ایم اور عزیز و اقارب کے دعوے کے مطابق مردان سے مبینہ طور "غائب" ہونے والے اور پھرنمودارہونے والے رشید یوسفزئی نامی فیس بکی دانش باز کو اسی قسم کے "تاریخی انکشافات" اور "حق گوئی" کی بنیاد پر انکے مداح "علم کا سمندر" کہتے ہیں- اس لیے انکا ایک مختصر تاریخی جائزہ ضروری ہے-
اس گھٹیا قسم کی دلیل کو استعمال کرنے والے اکثر پڑھے لکھے دانشوڑ بھی اس سکینڈل واحد ماخذ سے ناواقف ہیں جو نہ تو محمد علی جناح صاحب کا اسلامی طور پر ممنوعہ حرام اشیا کا استعمال کا کوئی معلوم واقعہ ہے اور نہ ہی نشے کے حالت میں غل غپاڑہ کرنے کا کوئی کیس بلکہ "روزز ان دسمبر" نامی ایک کتاب کے چند بازاری سے جملے ہیں- اس سے دیسی لبڑلوں اورسیکولر قوم فروشوں کی تاریخ کی سمجھ اور "سیکولر ریشنلزم" کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے- کتاب کے مصنف جسٹس چاگلہ تھے جو کہ گاندھی جی سے زیادہ بھارت ماتا کے وفادار مشہور تھے- ١٩٢٠ کی دہائی میں چاگلہ بیرسٹرتب محمّد علی جناح کے سیکرٹری رہے تھے جب جناح صاحب کانگریس کے ممبر تھے اور نہرو رپورٹ کی حمایت کرنے پر انہوں نے چھاگلہ کو برخاست کردیا تھا کیونکہ جناح صاحب رپورٹ کو مسلم دشمنی قرار دیکر خود بھی کانگریس سے الگ ہوگئے تھے- چاگلہ کو آزادی کے بعد کانگریس کی طرف اسکی وفاداری کیلئے خوب نوازا گیا اور بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے کے بعد وہ بھارت کے وزیر خارجہ بھی رہے- اپنی کتاب میں ایک جگہ منظر کشی کرتے ہوۓ جسٹس چاگلہ نے غیر ضرور طور پر ضمنا ً بلکہ طنزا ًبیرسٹر جناح صاحب کے دورجوانی میں ایک الیکشن مہم کے دوران ہیم سینڈوچ کا ذکر کیا ہے - موصوف اس "تاریخی حقیقت" کے واحد مخبر اور گواہ ہیں جس غیر ضروری چرچا مخصوص وجوہات سے آج تک کیا جاتا ہے- بعد میں جتنے بھی بھارتی، مغربی اور دیسی سیکولر مورخین اۓ انہوں نے اپنی تحریروں میں رنگ بھرنے اسی بے بنیاد فسانے کا سہارا لیا اور آج تک مغربی اور ہندوستانی میڈیا میں بانی پاکستان کے مطالق آرٹیکلز میں اس امر کا ذکر بوجوہ ایک واجب کی طرح کیا جاتا ہے- ان محققوں میں جناح کے امریکی مداح اور مورخ سٹینلی ولپرٹ کے علاوہ ملالہ کی کتاب کی اصل مصنفہ کرسٹینا لیمب بھی شامل ہے- گو کہ اتنے بڑے قد کاٹ کے عالمی سطح کے تاریخی رہنما کے سوانح یا افکار میں عام طور پر یہ کوئی قابل ذکر بات بھی نہیں ہوتی لیکن ظاہر ہے وہ اسلام کے نام پر بنے پہلے جدید مسلم مملکت کے بانی تھے تو اس بات کو زیادہ ہوا دی گئی- مقصد محمد علی جناح صاحب کے کسی ذاتی فعل کا شرعی دفاع نہیں لیکن مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں عرض ہے کہ محمد علی جناح صاحب تو صرف ایک قانون دان اور مسلمان سیاسی رہنما تھے، مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر سے لیکر اسلامی تاریخ کے افسانوی شہرت کے ملک فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی تک ایام جوانی میں بادہ نوشی کرتے رہے تھے- ظہیر الدین بابر نے رانا سانگا کے ساتھ خانواہ کی لڑائی کو جہاد قرار دیتے ہوۓ منت کے طور پر اپنے شراب کے برتن توڑ کر بادہ نوشی چھوڑ دی تھی جبکہ صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں اور اپنے مخالفین کے خلاف مسلمانوں کی قیادت سنبھالتے وقت شراب سے توبہ کردی تھی- اس بات کے بہرحال مسلم اور غیر مسلم گواہ موجود ہیں کہ زندگی کے آخری سالوں میں محمد علی جناح نے مذہبی بنیادوں پر اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود ٹی بی کی علامات میں افاقے کیلئے برانڈی پینے سے انکار کیا تھا- انہوں نے مذہبی بنیادوں پر ہی اپنے انجان غیر مسلم بیٹی سے ناطہ توڑ دیا تھا جس کو انہوں نے زندگی میں بہت کم دیکھا تھا-
------------------------------------
دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی کا مبینہ طور پر ہم جنس پرست ہونا اور "جنسی ضبط" کیلئے نوجوان عورتوں کے ساتھ ننگا سونا، نہرو اور لارڈ مونٹ بیٹن کے خاندانوں کے ایک دوسرے کے بیڈروم تک رسائی جیسے حقائق متعلقہ کرداروں کے خطوط سے ثابت ہیں، اور مغرب میں کتابوں اور فلموں کے موضوعات بنے لیکن کبھی بھارت میں "بانیان بھارت" کے ان معاملات کو لیکرانکی تضحیک نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہ زیر بحث آتے ہیں- برطانوی سوانح نگار جیڈ تو گاندھی جی کے اس نام نہاد جنسی "مذہبی رسم" کو انکی بد ترین جنسی بے راہروی بلکہ جنسی پاگل پن قرار دیتے ہیں جس میں وہ مانو نامی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے پہلو میں بھی ننگا سوتا تھا جو کہ رشتے میں انکی نواسی لگتی تھی- اس سے صرف چند دہائیاں پہلے موجودہ افغانستان کے بانیان میں ایک انگریزوں کے پنشن خور شاہ شجاع سکھ حکمران رنجیت سنگھ سے کوہ نور ہیرے کے بدلے لئے وظیفے اور پناہ کے طفیل لدھیانہ مشرقی پنجاب کے ایک عشرت کدے میں اپنے حرم کے ساتھ قیام پذیر رہا اوراکثر نشے میں دھت غضبناک ہوکر اپنے درباریوں کے کان، ناک بلکہ ٹٹے تک کٹوا دیتا تھا- ان تماشوں کے تفصیلات شاہ شجاع کے دربار کے مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے والے انگریز مندوبین نےقلم بند کئے ہیں- دوسری طرف ہمارا دیسی لبرل اور گلمرجان گاندھی جی کے چیلوں کا چیلا ہوکر اور انگریزوں کے وظیفہ خوروں کے رعایا کی اولاد ہوکر جناح صاحب کے معاملے میں سیکولر لبرل سے مولوی بن جاتے ہیں، جنہوں نے مسلمانوں اور پاکستان کیلئے اپنی زندگی اور اپنی محنت سے کماۓ سارے اثاثے واقف کئے بلکہ رشتوں تک کی قربانی دی -
--------------------------------------
بیرسٹر محمد علی جناح نے کبھی خود کو مسلمانوں کا کوئی مذہبی رہنما یا امام نہیں کہا بلکہ سختی سے ہر ایسے تاثر کی نفی کی- انہوں نے ہمیشہ خود کو برصغیر کے مسلمانوں کا ایک قانونی اور سیاسی وکیل کہا جنکو اس خطے پر ٨٠٠ سالہ حکمرانی کرنے کے باوجود تاریخ کی ستم ظریفی اور اپنے ہی نام نہاد مذہبی طبقے نے فکری اور معاشی طورپر بہت پسماندہ اور کمزور کردیا تھا اور خود کو انکا ایک بہترین اور کامیاب وکیل ثابت بھی کیا- انکو برصغیر کے روایتی سیاستدانوں سے میچ کرنے میں تو عالمی شہرت یافتہ انکے ان بڑے بڑے ہندو مخالفین اور بھارتی دانشوروں کوبھی ہمیشہ سخت دشواری ہوتی ہے گلمرجانوں کے لیڈر جنکے معمولی مقامی کارندے تھے- گاندھی اور نہرو دونوں نے انکو مسلمانوں کا عظیم ترین لیڈر کہا اور مشترکہ ہندوستان کے وزرات عظمہ تک کی پیشکش کی- انگریزاورہندو دونوں انسے شدید اختلاف کے باوجود انکی ایمانداری اور پاکستان کے کاز کے ساتھ انکے غیر متزلزل عزم پر سوال نہیں اٹھا سکے- پاکستانیوں کیلئے بحیثیت ملت پاکستان کے سیاست اور ریاست میں اسلام کے کردار کے متعلق کسی بھی ملت کے باباۓ قوم کی طرح انکی ذاتی زندگی کے متعلق تخیل کی بنیاد نظریے گھڑنے کے بجاے انکے فرمودات اور تقاریر کے علاوہ انکے فکری اتالیق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے تعلیمات کافی ہیں- اقبال کی طرح پشتون قوم کیلئے انکی شفقت پورے برصغیر کے مسلمانوں کا لیڈر ہوکر بھی پختونخوا کیلئے انکی توجہ اور خدمات سے ظاہر ہے جس میں الگ صوبے کے حثیت کیلئے انکے جدوجہد کے علاوہ اسلامیہ کالج پشاور کیلئے اپنے جائیداد کا تیسرا حصہ واقف کرنا شامل ہے- الله بہتر جانتا ہے کس سے کیا کام لینا ہے ورنہ کسی نان نہاد" مذہبی رہنما" کو ہی تاریخ کے اس مشکل دور میں مسلمانوں کے قیادت کا حق ہوتا تو اس وقت کے مولانا فضل رحمان دیوبندیوں کے رہنما ہوتے، اس وقت کے کوئی مولانا رضوی بریلویوں کے جبکہ اہل تشیع کی رہنمائی کوئی مولانا نقی نقن نقوی جیسا ذاکر یا پھر لڈن جعفری جیسا کوئی نمونہ ہوتا- نتائج سمجھنے کیلئے کسی کا سکالر ہونا ضروری نہیں-
------------------------------------
دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی کا مبینہ طور پر ہم جنس پرست ہونا اور "جنسی ضبط" کیلئے نوجوان عورتوں کے ساتھ ننگا سونا، نہرو اور لارڈ مونٹ بیٹن کے خاندانوں کے ایک دوسرے کے بیڈروم تک رسائی جیسے حقائق متعلقہ کرداروں کے خطوط سے ثابت ہیں، اور مغرب میں کتابوں اور فلموں کے موضوعات بنے لیکن کبھی بھارت میں "بانیان بھارت" کے ان معاملات کو لیکرانکی تضحیک نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہ زیر بحث آتے ہیں- برطانوی سوانح نگار جیڈ تو گاندھی جی کے اس نام نہاد جنسی "مذہبی رسم" کو انکی بد ترین جنسی بے راہروی بلکہ جنسی پاگل پن قرار دیتے ہیں جس میں وہ مانو نامی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے پہلو میں بھی ننگا سوتا تھا جو کہ رشتے میں انکی نواسی لگتی تھی- اس سے صرف چند دہائیاں پہلے موجودہ افغانستان کے بانیان میں ایک انگریزوں کے پنشن خور شاہ شجاع سکھ حکمران رنجیت سنگھ سے کوہ نور ہیرے کے بدلے لئے وظیفے اور پناہ کے طفیل لدھیانہ مشرقی پنجاب کے ایک عشرت کدے میں اپنے حرم کے ساتھ قیام پذیر رہا اوراکثر نشے میں دھت غضبناک ہوکر اپنے درباریوں کے کان، ناک بلکہ ٹٹے تک کٹوا دیتا تھا- ان تماشوں کے تفصیلات شاہ شجاع کے دربار کے مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے والے انگریز مندوبین نےقلم بند کئے ہیں- دوسری طرف ہمارا دیسی لبرل اور گلمرجان گاندھی جی کے چیلوں کا چیلا ہوکر اور انگریزوں کے وظیفہ خوروں کے رعایا کی اولاد ہوکر جناح صاحب کے معاملے میں سیکولر لبرل سے مولوی بن جاتے ہیں، جنہوں نے مسلمانوں اور پاکستان کیلئے اپنی زندگی اور اپنی محنت سے کماۓ سارے اثاثے واقف کئے بلکہ رشتوں تک کی قربانی دی -
--------------------------------------
بیرسٹر محمد علی جناح نے کبھی خود کو مسلمانوں کا کوئی مذہبی رہنما یا امام نہیں کہا بلکہ سختی سے ہر ایسے تاثر کی نفی کی- انہوں نے ہمیشہ خود کو برصغیر کے مسلمانوں کا ایک قانونی اور سیاسی وکیل کہا جنکو اس خطے پر ٨٠٠ سالہ حکمرانی کرنے کے باوجود تاریخ کی ستم ظریفی اور اپنے ہی نام نہاد مذہبی طبقے نے فکری اور معاشی طورپر بہت پسماندہ اور کمزور کردیا تھا اور خود کو انکا ایک بہترین اور کامیاب وکیل ثابت بھی کیا- انکو برصغیر کے روایتی سیاستدانوں سے میچ کرنے میں تو عالمی شہرت یافتہ انکے ان بڑے بڑے ہندو مخالفین اور بھارتی دانشوروں کوبھی ہمیشہ سخت دشواری ہوتی ہے گلمرجانوں کے لیڈر جنکے معمولی مقامی کارندے تھے- گاندھی اور نہرو دونوں نے انکو مسلمانوں کا عظیم ترین لیڈر کہا اور مشترکہ ہندوستان کے وزرات عظمہ تک کی پیشکش کی- انگریزاورہندو دونوں انسے شدید اختلاف کے باوجود انکی ایمانداری اور پاکستان کے کاز کے ساتھ انکے غیر متزلزل عزم پر سوال نہیں اٹھا سکے- پاکستانیوں کیلئے بحیثیت ملت پاکستان کے سیاست اور ریاست میں اسلام کے کردار کے متعلق کسی بھی ملت کے باباۓ قوم کی طرح انکی ذاتی زندگی کے متعلق تخیل کی بنیاد نظریے گھڑنے کے بجاے انکے فرمودات اور تقاریر کے علاوہ انکے فکری اتالیق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے تعلیمات کافی ہیں- اقبال کی طرح پشتون قوم کیلئے انکی شفقت پورے برصغیر کے مسلمانوں کا لیڈر ہوکر بھی پختونخوا کیلئے انکی توجہ اور خدمات سے ظاہر ہے جس میں الگ صوبے کے حثیت کیلئے انکے جدوجہد کے علاوہ اسلامیہ کالج پشاور کیلئے اپنے جائیداد کا تیسرا حصہ واقف کرنا شامل ہے- الله بہتر جانتا ہے کس سے کیا کام لینا ہے ورنہ کسی نان نہاد" مذہبی رہنما" کو ہی تاریخ کے اس مشکل دور میں مسلمانوں کے قیادت کا حق ہوتا تو اس وقت کے مولانا فضل رحمان دیوبندیوں کے رہنما ہوتے، اس وقت کے کوئی مولانا رضوی بریلویوں کے جبکہ اہل تشیع کی رہنمائی کوئی مولانا نقی نقن نقوی جیسا ذاکر یا پھر لڈن جعفری جیسا کوئی نمونہ ہوتا- نتائج سمجھنے کیلئے کسی کا سکالر ہونا ضروری نہیں-


No comments