ڈیورنڈ لائن، شیر شاہ سوری اور خطے کا امن و استحکام
(محمد ارشد خان)
مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابرنے ١٦ ویں صدی میں اپنے سوانح حیات تزک بابری میں کابل کے لوگوں کو غریب شہر کے عیش کوش
اور بےہنر مکین لکھا اوراسکے ارد گرد اپنی جغرافیائی حالات، معیشیت اور نسلی و قبائلی کشمکش کی وجہ سے زرعی یا شہری بنیاد پر ریاست سازی کے اوصاف سے بے بہرہ آبادی کو زیادہ خرچ اور کم آمدنی وجہ سے کسی مستحکم اور خودکفیل ریاست کے قیام کو غیر موزوں سمجتھے ہوۓ اپنے پیشرو ترک فاتحین کی طرح انہوں نے بھی ہندوستان کا رخ کیا- یہی وجہ ہے کہ معلوم تاریخ میں، گندھارا یا پختونخوا، پنجاب اور وادی سندھ (موجودہ پاکستان) اور یا پھر ایران کے ساتھ ایک سلطنت انضمام کے بغیر موجودہ افغانستان کی سرزمین نے کبھی بھی امن و خوشحالی اوراستحکام نہیں دیکھا اورعلاقائی اورعالمی طاقتوں کیلئے ایک میدان جنگ بن کر خطے میں عدم استحکام کی وجہ ہی بنا رہا- فرغانہ کے مفرور پناہ گزین شہزادے بابر کو بھی کابل کے باشندوں نے ہی اپنی اندرونی انتشارپر قابو پانے کیلئے تخت کابل پر قبضہ کرنے میں مدد دی- شائد اسی وجہ سے اقبال نے کہا تھا کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے یہاں امن ہو تو ایشیا میں امن ہوتا ہے اور یہاں فساد ہو تو ایشیا میں فساد- افغانستان کے نامعلوم ٥٠٠٠ سالہ شاندار تاریخ اور اس خطے میں تلوار سے اسلام پھیلانے کا مضحکہ خیز ڈھنڈورا پیٹنے والے نام نہاد قوم پرستوں کو اگر تاریخ کے الف ب کا بھی پتا ہوتا تو جانتے کہ تاریخ میں کابل صرف ایک ہی قابل ذکر سلطنت کا دارلحکومت رہا ہے اور وہ شمالی ہند کی ہندو شاہی یا کابل شاہی سلطنت تھی جسکا راج ٥٠٠عیسوی سے ١٠٠٠ عیسوی تک ٥٠٠ سال رہا جب ترک النسل فاتح محمود غزنوی نے اسکے راجپوت جنگجو راجہ جے پال کو پشاور کے قریب شکست دیکر خودسوزی پرمجبور کیا اور تب وادی سندھ یا ملتان کے زیر انتظام موجودہ پاکستان کے اکثر علاقے پر ٧١٢ عیسوی میں محمّد بن قاسم کے حملے کے نتیجے میں قائم شدہ مسلمانوں کی حکومت کو نہ صرف ٣٠٠ سال ہوچکے تھے بلکہ تاریخ فرشتہ جیسے اس وقت کے تاریخی حوالوں کے مطابق یہاں مسلمان اکثریت تھی- ملتان پر اس وقت حمید لودھی نامی پشتون یا پٹھان حکمران کی فرماروائی تھی جنکا ذکر ٧٠٠ سال بعد مبینہ طورپرملتان ہی کے پشتون سدوزئی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے فاتح احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک پشتو شعر میں فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کے ساتھ ایک پشتون ہیرو کے طور پر اس طرح کیا:
دہ حمید او د فرید دور بہ بیا شی
چے پہ تورو پختانہ کڑی گزارونہ
"حمید اور فرید کا دور پھر سے آجاۓ اگر پختون اپنے تلوار کا جوہر دکھانا شوروع کردے"
بابرنے دھوکے اور وحشیانہ طاقت کے استعمال کی دوہری پالیسی کے تحت غیر مستحکم سرحدی علاقے کے غیر منظم آبادی کا آسانی سے استحصال کیا- انکا درہ خیبر کے راستے مشرق کا خونی سفر موجودہ پختونخوا کے یوسفزئی اور دوسرے قبائل کے سروں کے میناروں سے ہوتا ہوا اور پنجاب میں لودھی پٹھانوں کے مستحکم اقتدار کا شیرازہ بکھرتا ہوا دہلی کےحکمران ابراہیم لودھی کی ہلاکت پر ختم ہوا- بابر کے مہم جوئی کے باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والے زیرک اور دوراندیش فرید خان کا بابر کے جانشین ہمایوں کو شکست دیکر ہندوستان سے نکالنے کا بنیادی مقصد ہی دہلی پر پشتونوں کی حکومت بحال کرنے سے زیادہ خطّے میں بہترطرز حکمرانی اور ریاست سازی کیلئے ہر قسم کے عدم استحکام، دراندازی اور انتشار کا خاتمہ کرنا تھا جسکی گواہی ہندوستانی تاریخدان بھی دیتے ہیں-
برصغیر کی تاریخ کے عظیم ترین منتظم اور افسانوی شہرت کے مالک پشتون شہشاہ شیر شاہ سوری نے ١٥٣٩ عیسوی میں اپنے اقتدار کے ابتدا میں ہی مغربی سرحد پر عدم استحکام کی وجوہات پر توجہ دی- جدید تحقیق کے مطابق فرید خان شیر شاہ سوری کا آبائی گاؤں خیبر پختونخوا کے موجودہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے کلاچی تحصیل میں کوہ سلیمان کی میاں نور چوٹی کے دامن میں واقع لودھی پختونوں کی سور قبیلے کی ایک بستی تھی جہاں سے تعلق رکھنے والے انکے والد حسن خان سوری اور دادا ابراہیم خان ملتان اور غزنی کے درمیان گھوڑوں کی تجارت سے وابستہ تھے جنکو بہلول لودھی کے دور میں مشرقی پنجاب، ہریانہ اور بہار میں جاگیریں عطا کی گئی اور انہی جاگیروں کے نظامت میں شیر شاہ نے انتظامی امور میں بہترین مہارت حاصل کی- اس لیے اپنے دور کے لحاظ سے ایک عالمی ویژن رکھنے کے باوجود پختونخوا کی سرحدی علاقوں میں انکی دلچسپی ایک قدرتی امر تھی- خوشاب میں اپنے قیام کے دوران اس خطے کےعدم استحکام کے مسلے کا انہوں نے ایک ہی حل نکالا تھا اور وہ یہ تھا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کی پختون آبادی کو وادی سندھ اور پنجاب کی معیشیت میں ضم کرکے مضبوط اور محفوظ سرحدی انتظام کے ذریعے خیبر اور کوہ سلیمان کے دوسرے پہاڑی دروں سے تجارتی شاہراہوں پر قافلوں کے علاوہ ہر قسم کے آبادی کے انتقال، عسکری نقل و حمل اور خانہ بدوشی کا خاتمہ کیا جاۓ اور اس مقصد کیلئے پشتون زمینداروں کو اپنے نئے انتظامی ڈھانچے کے ذریعے ریاست کا حصہ بنا کر شمال مغرب سے ہر قسم کی دراندازی کے خلاف ایک دیوار بنا دیا جاۓ - اسی پالیسی کے تحت انھوں نے جہلم میں جی ٹی روڈ پر دریا کنارے روہتاس کا تاریخی ناقابل تسخیر قلعہ بنایا اور پشتونوں کے نیازی قبیلے کو میانوالی کے اس پاس آباد کیا- ٥ سال کے انتہائی قلیل مدت اقتدار اور اچانک موت نے شیر شاہ سوری کو اپنی پالیسی مکمل نافذ کرنے کا موقع تو نہیں دیا لیکن اپنے حریف ہمایوں کے بیٹے شہنشاہ اکبر اعظم سے "استاد بادشاہان" کا خطاب پانے والے اس دور اندیش حکمران کے بعد میں آنے والی حکومتوں میں جس نے بھی اس پالیسی سے انحراف کیا، اسکا خمیازہ اس خطے خصوصاً خیبر پختونخوا نے بھگتا جو کہ یاغستان بنا رہا-
ویسے مثالی حالات میں تو موجودہ پاکستان، کشمیر اورافغانستان ایک سیاسی اور معاشی اکائی کی حثیت سے قدرتی، زرعی، صنعتی اور انسانی وسائل سے مالامال متحد ریاست ہاۓ متحدہ بن سکتا ہے لیکن تاریخ میں سواۓ ملتان میں پیدا ہوۓ اور قندہار میں تخت نشین احمد شاہ ابدالی کے درانی سلطنت کے افغانستان کے اندرونی صورتحال کے وجہ سے کبھی ایسی کسی ریاستی انتظام کیلئے مناسب حالات اور موضوع قیادت میسر نہیں آسکے- احمد شاہ کے وفات کے صرف ٣٠ سال کے اندر انکے نااہل کابلی جانشینوں کے ہاتھ سے پنجاب نکلنے کے بعد موجودہ افغان ریاست واپس اپنے پرانے ڈگر پر آگیا اور حالت یہ ہوئی کہ شاہ شجاع کو پنجاب میں پناہ کیلئے پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کا وظیفہ خور بننا پڑھا- آج کے افغانستان میں نام نہاد "پشتون/افغان قوم پرستی" پاکستان کے قیام اور "پنجاب" وغیرہ کے متعلق روایتی طور جھوٹی تاریخ کے بنیاد پر راسخ نظریات اور اسکے نتیجے میں جھوٹی احساس برتری کے علاوہ کابل پر قابض قوتوں کے مفادات کی وجہ سے ایسا کوئی انتظام تصوراتی طور پر بھی ممکن نہیں ہے-
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ کے نام پر تمام تر افسانوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ قومی ریاست بنیادی طور پر ایک برطانوی نوآبادیاتی پیداوار ہے نہ کہ کسی افغان قومی سیاسی تحریک کا نتیجہ- برطانوی سامراج نے ۱۸۷۹ عیسوی میں معاہدہ گندامک کے تحت روس اور برطانوی راج کے درمیان ایک کٹ پتلی امیر کے نیچھےایک منطقه حائل یا بفرزون کے طور پر موجودہ کثیرالقومی افغان ریاست کا قائم کی- یہ برطانوی حکمرانوں نے افغانستان کے فطری عدم استحکام کو ڈیورنڈ لائن کے اس پار پھیلنے سے روکنے کیلئےایک وقتی اور سستا حل نکالا تھا- امیر عبدالرحمان سمیت بعد میں آنے والے کابل کے کٹ پتلی امیر برطانوی سامراج سے جوسالانہ وظیفہ وصول کرتے تھے وہ کسی نام نہاد افغان سرزمین کا کرایا نہیں بلکہ طاقت کے زور پر افغانستان کے اندرونی خلفشار کو مشرق کی طرف بڑھنے سے روکنے کا معاوضہ ہوتا تھا- آج بھی افغانستان پر اسی حل کے تسلسل طورپر نیٹو کے چھاونی میں اشرف غنی کی نام نہاد حکومت ہے گو کہ ساتھ سمندر پار امریکہ کیلئے یہ حل اب ناقابل برداشت حد تک مہنگا پڑ رہا ہے- اسکے علاوہ فاٹا کی نام نہاد "آزاد" حیثیت جسکو پاکستان سے وابستہ قبائلیوں کی بڑی اکثریت غلامی سمجھتی ہے اسی فرنگی حل کی میراث ہے-
آج تاریخ کے قدرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں پاکستان کی قومی ریاست کے قیام کے ٧٠ سال بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے غیر مستحکم سرحدوں پر آباد پختون اور بلوچ قبائل وفاق پاکستان کے صوبوں میں تیسری دنیا کے کسی بھی کثیر النسلی وفاقی ریاست کی طرح تمام مسائل کے باوجود پاکستان کے سماج اور معیشیت میں ایسے ہی ضم ہوچکے ہیں جیسا کہ شیر شاہ سوری کا خواب تھا- وادی سندھ میں عرب مسلمانوں کا پہلا دارلحکومت ملتان جو کہ کئی صدیوں تک پشتون حکمرانو کی طاقت کا مرکز رہا آج جنوبی پنجاب کا حصہ ہے اور تاریخی طور پر ایک بلوچ قصبہ کراچی آج پاکستان کا سب سے بڑا شہر، اردو زبان کا ایک عالمی مرکز اور دنیا کے سب سے بڑی پشتون آبادی کا مسکن ہے- آج کے دور میں بھی جو مٹھی بھر نام نہاد پشتوں قوم پرست افغان پروپگنڈے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو کسی بھی دوسرے بین الاقوامی سرحد سے مختلف قرار دیکر بارڈر کو محفوظ بنانے کے اقدامات کو دیوار برلن ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس بنیاد پر فاٹا کا خیبر پختونخوا اور پاکستان میں انضمام کی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان کے دشمن تو ہیں ہی افغانستان کے بھی دوست نہیں اور نہ ہی علاقائی امن کے علمبردار ہیں- اسلئے کہ تاریخی اور فطری سرحد کو نہ ماننے کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ پورا افغانستان پاکستان کا حصہ ہے یا پھر پورا پاکستان افغانستان کا- دنیا کے اکثرریاستوں کے بین الاقوامی سرحدوں بشمول افغانستان کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ سرحدوں کے دونوں اطراف ایک زبان یا نسل کے کچھ لوگ رہتے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں تو یہاں رہنے والے نسلی اور لسانی قومیتوں کے وہ آبائی وطن آج اسی سرزمین پاکستان کا حصہ ہے جہاں پر انکی زبانوں، تقافت، شناخت اور حتیٰ کہ معلوم تاریخ کے غالب حصے کا ارتقاء ہوا جیسے کہ پختونوں کا سب بڑا گھر خیبر پختونخوا ہے اور بلوچوں کا بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے بلوچ علاقے جبکہ سندھی اور پنجابی تو نسلی قومیتیں ہی نہیں ہے- آزادانہ تجارت اور نقل و حمل کا مطلب انارکی نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی کوئی پالیسی پورے خطے میں صرف ایک ملک پر نافذ کی جاسکتی ہے- اور ویسے بھی محفوظ سرحدوں کی ضرورت پاکستان سے زیادہ افغانستان کو ہے کیونکہ اسے پاکستان کے طرف سے دراندازی کی سب سے زیادہ جائز یا ناجائز شکایات ہے اور اسطرح پاکستان کا بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کا بہانہ بھی ختم ہوسکتا ہے جو کہ اسے کابل میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتا ہے- بھارت کے ساتھ خصوصی قسم کے تعلقات کابل پر قابض موجودہ بین الاقوامی قوتوں کی پالیسی کا حصہ اور انکے زیر سایا کابل کے حکمرانی کی ضرورت ہے اور پاکستان یا کسی بھی ریاست اوراسکے عوام کو اپنے جائز مفادات کے تحفظ اور دفاع سے روکھنا ممکن نہیں اسلئے آج شیر شاہ سوری کے سرحدی پالیسی کو اپنے روح کے ساتھ اسکے جدید معنوں میں نافذ کرنے ضرورت کہیں زیادہ ہے-
MUHAMMAD ARSHAD KHAN SAFI
چے پہ تورو پختانہ کڑی گزارونہ
"حمید اور فرید کا دور پھر سے آجاۓ اگر پختون اپنے تلوار کا جوہر دکھانا شوروع کردے"
بابرنے دھوکے اور وحشیانہ طاقت کے استعمال کی دوہری پالیسی کے تحت غیر مستحکم سرحدی علاقے کے غیر منظم آبادی کا آسانی سے استحصال کیا- انکا درہ خیبر کے راستے مشرق کا خونی سفر موجودہ پختونخوا کے یوسفزئی اور دوسرے قبائل کے سروں کے میناروں سے ہوتا ہوا اور پنجاب میں لودھی پٹھانوں کے مستحکم اقتدار کا شیرازہ بکھرتا ہوا دہلی کےحکمران ابراہیم لودھی کی ہلاکت پر ختم ہوا- بابر کے مہم جوئی کے باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والے زیرک اور دوراندیش فرید خان کا بابر کے جانشین ہمایوں کو شکست دیکر ہندوستان سے نکالنے کا بنیادی مقصد ہی دہلی پر پشتونوں کی حکومت بحال کرنے سے زیادہ خطّے میں بہترطرز حکمرانی اور ریاست سازی کیلئے ہر قسم کے عدم استحکام، دراندازی اور انتشار کا خاتمہ کرنا تھا جسکی گواہی ہندوستانی تاریخدان بھی دیتے ہیں-
برصغیر کی تاریخ کے عظیم ترین منتظم اور افسانوی شہرت کے مالک پشتون شہشاہ شیر شاہ سوری نے ١٥٣٩ عیسوی میں اپنے اقتدار کے ابتدا میں ہی مغربی سرحد پر عدم استحکام کی وجوہات پر توجہ دی- جدید تحقیق کے مطابق فرید خان شیر شاہ سوری کا آبائی گاؤں خیبر پختونخوا کے موجودہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے کلاچی تحصیل میں کوہ سلیمان کی میاں نور چوٹی کے دامن میں واقع لودھی پختونوں کی سور قبیلے کی ایک بستی تھی جہاں سے تعلق رکھنے والے انکے والد حسن خان سوری اور دادا ابراہیم خان ملتان اور غزنی کے درمیان گھوڑوں کی تجارت سے وابستہ تھے جنکو بہلول لودھی کے دور میں مشرقی پنجاب، ہریانہ اور بہار میں جاگیریں عطا کی گئی اور انہی جاگیروں کے نظامت میں شیر شاہ نے انتظامی امور میں بہترین مہارت حاصل کی- اس لیے اپنے دور کے لحاظ سے ایک عالمی ویژن رکھنے کے باوجود پختونخوا کی سرحدی علاقوں میں انکی دلچسپی ایک قدرتی امر تھی- خوشاب میں اپنے قیام کے دوران اس خطے کےعدم استحکام کے مسلے کا انہوں نے ایک ہی حل نکالا تھا اور وہ یہ تھا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کی پختون آبادی کو وادی سندھ اور پنجاب کی معیشیت میں ضم کرکے مضبوط اور محفوظ سرحدی انتظام کے ذریعے خیبر اور کوہ سلیمان کے دوسرے پہاڑی دروں سے تجارتی شاہراہوں پر قافلوں کے علاوہ ہر قسم کے آبادی کے انتقال، عسکری نقل و حمل اور خانہ بدوشی کا خاتمہ کیا جاۓ اور اس مقصد کیلئے پشتون زمینداروں کو اپنے نئے انتظامی ڈھانچے کے ذریعے ریاست کا حصہ بنا کر شمال مغرب سے ہر قسم کی دراندازی کے خلاف ایک دیوار بنا دیا جاۓ - اسی پالیسی کے تحت انھوں نے جہلم میں جی ٹی روڈ پر دریا کنارے روہتاس کا تاریخی ناقابل تسخیر قلعہ بنایا اور پشتونوں کے نیازی قبیلے کو میانوالی کے اس پاس آباد کیا- ٥ سال کے انتہائی قلیل مدت اقتدار اور اچانک موت نے شیر شاہ سوری کو اپنی پالیسی مکمل نافذ کرنے کا موقع تو نہیں دیا لیکن اپنے حریف ہمایوں کے بیٹے شہنشاہ اکبر اعظم سے "استاد بادشاہان" کا خطاب پانے والے اس دور اندیش حکمران کے بعد میں آنے والی حکومتوں میں جس نے بھی اس پالیسی سے انحراف کیا، اسکا خمیازہ اس خطے خصوصاً خیبر پختونخوا نے بھگتا جو کہ یاغستان بنا رہا-
ویسے مثالی حالات میں تو موجودہ پاکستان، کشمیر اورافغانستان ایک سیاسی اور معاشی اکائی کی حثیت سے قدرتی، زرعی، صنعتی اور انسانی وسائل سے مالامال متحد ریاست ہاۓ متحدہ بن سکتا ہے لیکن تاریخ میں سواۓ ملتان میں پیدا ہوۓ اور قندہار میں تخت نشین احمد شاہ ابدالی کے درانی سلطنت کے افغانستان کے اندرونی صورتحال کے وجہ سے کبھی ایسی کسی ریاستی انتظام کیلئے مناسب حالات اور موضوع قیادت میسر نہیں آسکے- احمد شاہ کے وفات کے صرف ٣٠ سال کے اندر انکے نااہل کابلی جانشینوں کے ہاتھ سے پنجاب نکلنے کے بعد موجودہ افغان ریاست واپس اپنے پرانے ڈگر پر آگیا اور حالت یہ ہوئی کہ شاہ شجاع کو پنجاب میں پناہ کیلئے پہلے سکھوں اور پھر انگریزوں کا وظیفہ خور بننا پڑھا- آج کے افغانستان میں نام نہاد "پشتون/افغان قوم پرستی" پاکستان کے قیام اور "پنجاب" وغیرہ کے متعلق روایتی طور جھوٹی تاریخ کے بنیاد پر راسخ نظریات اور اسکے نتیجے میں جھوٹی احساس برتری کے علاوہ کابل پر قابض قوتوں کے مفادات کی وجہ سے ایسا کوئی انتظام تصوراتی طور پر بھی ممکن نہیں ہے-
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ کے نام پر تمام تر افسانوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ قومی ریاست بنیادی طور پر ایک برطانوی نوآبادیاتی پیداوار ہے نہ کہ کسی افغان قومی سیاسی تحریک کا نتیجہ- برطانوی سامراج نے ۱۸۷۹ عیسوی میں معاہدہ گندامک کے تحت روس اور برطانوی راج کے درمیان ایک کٹ پتلی امیر کے نیچھےایک منطقه حائل یا بفرزون کے طور پر موجودہ کثیرالقومی افغان ریاست کا قائم کی- یہ برطانوی حکمرانوں نے افغانستان کے فطری عدم استحکام کو ڈیورنڈ لائن کے اس پار پھیلنے سے روکنے کیلئےایک وقتی اور سستا حل نکالا تھا- امیر عبدالرحمان سمیت بعد میں آنے والے کابل کے کٹ پتلی امیر برطانوی سامراج سے جوسالانہ وظیفہ وصول کرتے تھے وہ کسی نام نہاد افغان سرزمین کا کرایا نہیں بلکہ طاقت کے زور پر افغانستان کے اندرونی خلفشار کو مشرق کی طرف بڑھنے سے روکنے کا معاوضہ ہوتا تھا- آج بھی افغانستان پر اسی حل کے تسلسل طورپر نیٹو کے چھاونی میں اشرف غنی کی نام نہاد حکومت ہے گو کہ ساتھ سمندر پار امریکہ کیلئے یہ حل اب ناقابل برداشت حد تک مہنگا پڑ رہا ہے- اسکے علاوہ فاٹا کی نام نہاد "آزاد" حیثیت جسکو پاکستان سے وابستہ قبائلیوں کی بڑی اکثریت غلامی سمجھتی ہے اسی فرنگی حل کی میراث ہے-
آج تاریخ کے قدرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں پاکستان کی قومی ریاست کے قیام کے ٧٠ سال بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے غیر مستحکم سرحدوں پر آباد پختون اور بلوچ قبائل وفاق پاکستان کے صوبوں میں تیسری دنیا کے کسی بھی کثیر النسلی وفاقی ریاست کی طرح تمام مسائل کے باوجود پاکستان کے سماج اور معیشیت میں ایسے ہی ضم ہوچکے ہیں جیسا کہ شیر شاہ سوری کا خواب تھا- وادی سندھ میں عرب مسلمانوں کا پہلا دارلحکومت ملتان جو کہ کئی صدیوں تک پشتون حکمرانو کی طاقت کا مرکز رہا آج جنوبی پنجاب کا حصہ ہے اور تاریخی طور پر ایک بلوچ قصبہ کراچی آج پاکستان کا سب سے بڑا شہر، اردو زبان کا ایک عالمی مرکز اور دنیا کے سب سے بڑی پشتون آبادی کا مسکن ہے- آج کے دور میں بھی جو مٹھی بھر نام نہاد پشتوں قوم پرست افغان پروپگنڈے کے تحت ڈیورنڈ لائن کو کسی بھی دوسرے بین الاقوامی سرحد سے مختلف قرار دیکر بارڈر کو محفوظ بنانے کے اقدامات کو دیوار برلن ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اس بنیاد پر فاٹا کا خیبر پختونخوا اور پاکستان میں انضمام کی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان کے دشمن تو ہیں ہی افغانستان کے بھی دوست نہیں اور نہ ہی علاقائی امن کے علمبردار ہیں- اسلئے کہ تاریخی اور فطری سرحد کو نہ ماننے کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ پورا افغانستان پاکستان کا حصہ ہے یا پھر پورا پاکستان افغانستان کا- دنیا کے اکثرریاستوں کے بین الاقوامی سرحدوں بشمول افغانستان کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ سرحدوں کے دونوں اطراف ایک زبان یا نسل کے کچھ لوگ رہتے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں تو یہاں رہنے والے نسلی اور لسانی قومیتوں کے وہ آبائی وطن آج اسی سرزمین پاکستان کا حصہ ہے جہاں پر انکی زبانوں، تقافت، شناخت اور حتیٰ کہ معلوم تاریخ کے غالب حصے کا ارتقاء ہوا جیسے کہ پختونوں کا سب بڑا گھر خیبر پختونخوا ہے اور بلوچوں کا بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے بلوچ علاقے جبکہ سندھی اور پنجابی تو نسلی قومیتیں ہی نہیں ہے- آزادانہ تجارت اور نقل و حمل کا مطلب انارکی نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی کوئی پالیسی پورے خطے میں صرف ایک ملک پر نافذ کی جاسکتی ہے- اور ویسے بھی محفوظ سرحدوں کی ضرورت پاکستان سے زیادہ افغانستان کو ہے کیونکہ اسے پاکستان کے طرف سے دراندازی کی سب سے زیادہ جائز یا ناجائز شکایات ہے اور اسطرح پاکستان کا بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کا بہانہ بھی ختم ہوسکتا ہے جو کہ اسے کابل میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتا ہے- بھارت کے ساتھ خصوصی قسم کے تعلقات کابل پر قابض موجودہ بین الاقوامی قوتوں کی پالیسی کا حصہ اور انکے زیر سایا کابل کے حکمرانی کی ضرورت ہے اور پاکستان یا کسی بھی ریاست اوراسکے عوام کو اپنے جائز مفادات کے تحفظ اور دفاع سے روکھنا ممکن نہیں اسلئے آج شیر شاہ سوری کے سرحدی پالیسی کو اپنے روح کے ساتھ اسکے جدید معنوں میں نافذ کرنے ضرورت کہیں زیادہ ہے-
MUHAMMAD ARSHAD KHAN SAFI


No comments