"چوری بھی اور سینہ زوری بھی"
(محمدارشد خان)
"چوری بھی اور سینہ زوری بھی" اس شکست خوردہ کٹ پتلی افغانی حکومت اور پاکستان میں کابل کے مستقل دلالوں یعنی "نظریاتی" باچا خانیوں، اچکزئی اور پی ٹی ایم کے بدبودار قوم فروش گلمرجانوں کیلئے ایک بہت ہی شائستہ محاورہ ہے جو کہ اب ایک پشتون پولیس افسر طاہر داوڑ کے افغانستان میں ہی بہیمانہ قتل کو اپنے دیوالیہ شدہ دکان کو چلانے اور پاکستانی پختونوں کی طرف مسترد شدہ مردہ نعروں میں جان کیلئے انتہائی مضحکہ خیر حرکتوں اور بھونڈے پروپیگنڈے کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں- خبروں میں پاک افغان بارڈر کے تورخم چیک پوسٹ کے لائیومناظر دکھاۓ جا رہے تھے جس میں پاکستان کی وفاقی حکومت کے پختون وزیر داخلہ شیریار آفریدی اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی شہید پولیس افسر کے اہل خانہ کے ساتھ ایک گھنٹے سے جسد خاکی وصول کرنے کیلئے کھڑے تھے جبکہ افغانی اہلکار بضد تھے کہ مقتول کی لاش صرف محسن داوڑ نامی پی ٹی ایم کے فوٹوشاپ پروپیگنڈہ مہم کے فعال کارکن کے حوالے کی جائیگی جو کہ حکومتی پارٹی کے ہی ناعاقبت اندیشی کے نتیجے میں خیرات میں دی گئی نشست کے ذریعے قومی اسمبلی کا رکن متخب ہوا- آخر کار طویل مذاکرات کے بعد کٹ پتلی کابل انتظامیہ کے کارندے جسد خاکی کوحکومتی قبائلی جرگے کے حوالے کرنے پر رضامند ہوگئے جبکہ اس کابلی حکومت کی اپنی ملک میں حیثیت یہ ہے کہ افغان طالبان کی حکومت مخالف تحریک مزاحمت تو کیا اسکو افغانستان پر مسلط کرنے والے انکے قابض امریکی آقا بھی اسکو امن مذاکرات میں شامل کرنے پر تیار نہیں اور اسکی چرسی نام نہاد ملی عساکر اورخفیہ ایجنسی این ڈی ایس کی واحد ذمہ داری قابض امریکی افواج اور بھارتی سفاتخانے کے افسروں کی عیاشی اور تفریح کا انتظام کرنا رہ گیا ہے- شائد یہی وجہ کہ اپنے ملک کے سیاسی اور عسکری معاملات چھوڑ کر یہ کابلی مسخرے سوشل میڈیا پر اپنے "لروبر" کے خیالی "لوی افغانستان" کی نسلی طور پر ٥٠٠٠ سالہ خیالی تاریخ کے افیون کی وجہ سے بغض پاکستانی کی بیماری میں مبتلا شہریوں ذریعے اس پی ٹی ایم تحریک کو تقویت دینے میں مصروف ہے جسکی حمایت پختونوں میں ١% سے بھی کم غبی قسم کے ذہنی مریض گلمرجان اور پاکستانیوں میں آٹے میں نمک کے برابر سماج دشمن دیسی لبرل گند کرتا ہے-
اس المناک قتل کے تناظر میں یہ بات قبل ذکر ہے کہ ٢٦١١ کلومیٹر لمبی پہاڑی علاقوں اور سینکڑوں تنگ دروں پر مشتمل پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے افغانیوں کی مخالفت، عدم تاوان بلکہ مزاحمت کے باوجود دن رات کام ٢٠١٧ کے اوائل سے جاری ہے- پاک فوج کے مطابق تقریباً ٢٤٠٠ کلومیٹر جدید نوعیت کی خاردار تار لگانے کی علاوہ ہر ٢ کلومیٹر پر ایک واچ ٹاور یا پوسٹ تعمیر کی جائیگی جسکلئیے ایف سی کی ایک پوری نئی بریگیڈ کھڑی کی جا رہی ہے کیونکہ افغانستان کی طرف سے نیٹواور امریکہ کے ایک ٹریلین ڈالر کی انویسٹمنٹ اور پاکستان پر دراندازی کے مستقل الزامات کے باوجود نگرانی کا کوئی انتظام نہیں- بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس پراجیکٹ پر پاکستانی فوج اور حکومت کے محدود وسائل سے تقریباً ٥٠٠ ملین ڈالر لگاۓ جارہے ہیں لیکن مشکل جغرافیائی حالات کی وجہ سے ابھی تک صرف ٢٠٠ کلومیٹر باڑ کی تنصیب اور ٤٣٣ مجوزہ پوسٹس میں صرف ١٥٠ کی تعمیر مکمل ہوسکی ہے- ان حالات میں یہ سوال کہ مقتول انکے تعنیاتی کے علاقے (رورل پشاور) سے کچھ ہی دور مہمند کے علاقے سے بلکل ملحقہ افغانستان کی صوبہ ننگرہار کے مومند درہ کے علاقے میں کیسے پہنچا ایک بلکل ہی احمقانہ سوال ہے- ایسی صورت میں جبکہ پی ٹی ایم کی پروپیگنڈہ مشینری اور انکے ہمنوا افغانی فورمز خود ہی کہ رہے ہیں کہ مقتول کے پی ٹی ایم سے رابطے تھے اور اس کو وہ ایک مضحکہ خیز جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے انکو افغانستان لیجا کر قتل کردیا ہوگا یہ بھی توعین ممکن ہے کہ وہ انکو اپنے پی تی ایم کے دوستوں یا رابطہ کاروں نے اعتبار میں لے جاکر ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ننگرہارمیں پناہ گزین عناصر کے حوالے کر دیا ہو یا پھر افغانی این ڈی ایس کی ہاتھ دے دیا ہو چونکہ افغان طالبان سے بچانے کیلئے اب داعش ہی انکا واحد سہارہ رہ گیا ہے- پختونخوا کے مربوط معاشرتی نظام میں کسی قبائلی پولیس افسر کے پی ٹی ایم کے عناصر یا قیادت سے ذاتی روابط یا تعلقات ہونا بھی کوئی انوکھی یا معیوب بات نہیں کیونکہ بہرحال وہ کوئی غیر قانونی تنظیم نہیں اور کئی معقول سیاسی کارکن بھی انکے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں حتیٰ کہ ہم یہاں دیارغیرمیں بیٹھ کر اس نام نہاد تحریک کے کئی کھرتا دھرتاؤں سے ذاتی یا خاندانی تعلقات رکھتے ہیں- یاد رہے کہ یہ کوئی آئ ایس آئ کا پروپیگنڈہ نہیں کہ افغانستان میں چپھے ٹی ٹی پی کے باقی ماندہ زخم خوردہ باولے کتے پی ٹی ایم کے مطالبات کے حامی ہیں اورافغان خفیہ ادارے میں روابط اور حمایت رکھتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی وزیرستان کے نائب عظمت محسود نے خود ایک ویڈیو پیغام میں پی ٹی ایم کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور حکیم الله محسود کے نائب لطیف محسود کو امریکنوں نے ہی آئ ایس آئ سے ڈیل کرنے کیلئے افغان خفیہ ایجنسی کی مہمانداری سے برآمد کیا تھا- پی ٹی ایم اور "نظریاتی" قسم کے باچا خانی اپنے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کیلئے "مواد" بھی افغانی سوشل میڈیا کے علاوہ ٹی ٹی پی کے ذرائع سے حاصل کرتے ہیں-
وہ کہتے ہیں نا کہ بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے- افغانی کٹ پتلی حکومت کے اداروں نے دہشتگردی کی خلاف آپریش سے متاثر چند ہزار ناراض قبائیلوں کے کاندھوں پر پختونوں کے مسیحا بننے کی کوشش کرنے والے پی ٹی ایم کے وزیرستانی گلمرجانوں کو عزت افزائی دینے کی جو حالیہ بیوقوفانہ کوشش کی ہے اس سے اب بلی پوری طرح تیلے سے باہر آجائیگی- ریاست کی کمزوری یہ نہیں کہ پاک افغان بارڈر کی موجودہ صورتحال میں ایسا کوئی سانحہ کیوں ہوا بلکہ اصل کمزوری ملک دشمن اور بدعنوان عناصر کی بےرحمی سے کچلنے کے بجاۓ جعلی جمہوریت کے نام پر انکو مسلسل برداشت کرنا ہے- جبتک اچکزئی، پی ٹی ایم اور "نظریاتی باچا خانیوں" کو پنجاب اور سندھ کے بدعنوان سیاسی عناصر سمیت ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی طرح تلف نہیں کیا جاتا اور افغانستان کو یہ پختون اور مسلمان بھائی کا چورن چھوڑ کر بھارت کی طرح ایک ہمسایہ ملک کی حثیت سے ڈیل نہیں کیا جاتا پاکستانی ریاست کی کئی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں- اب تو محسن داوڑ ننگیال نے بھی ہر سازشی تھیوری کی گنجائش ختم کرتے ہوۓ صاف کہ دیا کہ "ملوث جو بھی ہو ہم ذمہ دار پاکستانی اداروں کو قرار دینگے" یعنی اگر افغانی این ڈی ایس یا ٹی ٹی پی یا حتیٰ کہ انکے پی ٹی ایم کے وطن فروش بھی ملوث ہو تب بھی منزیر پسکنی اور علی وزیری فلسفے کے تحت وہ الزام پاکستانی ریاست پر لگائیںگے- آئ ایس پی آر اور حکومت کے اس معاملے پر پہلی دفعہ ایک سخت موقف سے کچھ امید بندھی ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہےکہ جو ریاست چاروں طرف سے دشمنوں کے حصار کی حالت میں اپنے تاریخ کے نااہل اور بدعنوان ترین سیاسی قیادت کے ساتھ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور ایم کیو ایم سمیت دنیا میں دہشت گردوں کے سب سے خونخوار اور باوسائل تنظیموں کو بیک وقت کچل سکتی ہے وہ چند دیسی لبرلوں، گلمرجانوں اور سوشل میڈیا پر متحرک انکے چند سو گھٹیا پروپیگنڈہ بازوں کو کب تک ڈیل دیتی ہے-


آپ الحمدللہ پاکستانی پشتون قوم تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان کے لیے تن دن من قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اب ھم نے ہیچال سمجھتے ہیں
ReplyDelete