Breaking News

پولیو،عوام کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں


             (تحریر: غلام حسین محب )
پولیو ایک ایسا مرض جس کے بظاہر علامات اور اشارے تو نظر نہیں آتے لیکن یہ ایک جان لیوا اور اپاہج کرنے والا مرض ہے البتہ یہ بات مدنظر رہے کہ یہ وائرس پانچ سال تک کے بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اکثر ایسے بچوں پر جو جسمانی لحاظ سے کمزور اور قوت مدافعت سے محروم ہوں مگر اگر یہ وائرس علاقے مین موجود ہوں تو ہر بچہ اس کی زد میں آسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ  پولیو خاتمہ مہم میں پیدائش لیکر پانچ سال  تک کے بچوں کو پولیوسے بچاو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ پولیو وائرس انسانی فضلے کے ذریعے پھیلتے ہیں لیکن یہ انسانوں کے ایک علاقے سے دوسرے علاقوں تک نقل و حرکت کے ذریعے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اس مرض سے بچاو کا واحد حل پولیو قطرے بچوں کو پلانا ہے۔   
اس سلسلے میں ایک روزہ ورکشاپ ایبٹ آباد میں منعقد ہوئی جس میں مہمند علاقے  سے بائیس صحافیوں نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ کا اہتمام ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کے تعاون سے پولیو ایمرجنسی سنتر  نے کیا تھا۔ ورکشاپ میں داکٹر منصور،ڈاکٹر اسدضیا،راحیل خان،عقیل احمد نے تربیتی لکچر دیا جبکہ صحافی عبداللہ جان اور صحافی اورنگزیب نے پولیع رپورٹنگ لکچر دیےانہوں نے پولیو کے نْقصانات اور اس سے صحافت کے ذریعے لوگوں کو اگاہ کرنے پر زور دیا اور صحافیوں سے اس سلسلے میں اپنا کردار اداکرنے کا مطالبہ کیا۔ 
پاکستان میں گزشتہ تیس (۳۰) سال سے
 پولیو کے خلاف مہم زور و شور سے جاری ہے اور تقریباً ہر مہینے تین دن پولیو
مہم چلتی ہے۔ اس مہم پر ملک کے کسی اور پراجیکٹ کے مقابلے میں سب سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی رہی ہے لیکن اتنے انتظامات اور اخراجات کے باوجود ملک سے اس خطرناک مرض کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ اور حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بھی عوام کی اکثریت میں اس سے متعلق غلط فہمی اور شکوک پائے جاتے ہیں۔ ان شکوک میں جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں ۔
  پاکستان میں اس وقت کئی خطرانک امراض مثلاً ہیپاٹائٹس، ٹی بی، کینسر، دل کے امراض، گردوں کے امراض ، ایڈزاور شوگر وغیرہ پائے جاتے ہیں مگر اُن پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی ، نہ اتنے انظامات اور اخراجات کیے جاتے ہیں اور نہ ایسی ہنگامی بنیادوں پر ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جیسے پولیو پر۔ تو اس میں ضرور کوئی خاص بات یا راز ہے۔
 عام لوگوں میں ایک بات گردش کر رہی ہے کہ پولیو کے ان قطروں میں ایسی چیز شامل کردی گئی ہے جو ہماری نئی نسل کو نامرد بنا رہی ہے جبکہ بچیوں کو وقت سے پہلے بالغ کردیتی ہے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ یہ قطرے سیکس میں اضافہ کرکے فحاشی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان قطروں سے ہماری نئی نسل کی قدیں بڑھیں گی نہیں بلکہ بونے یعنی چھوٹے قد کے رہ جائیں گے۔ ان کے علاوہ ایک عجیب وغریب خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس میں خنزیر یا بندر کے سپرم یا چربی شامل کی جاتی ہے جو اسلام کی رو سے حرام ہے۔  اسی طرح کئی خدشات اور تحفطات ظاہر کیے جاتے ہیں لیکن این آئی ایچ اسلام آباداور دیگر ممالک میں ٹسٹوں کے ذریعے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی اور نہ ایسی چیز کی ملاوٹ ثابت ہو سکی ہے جن کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ دنیا بھر کے ممالک اور دیگر امراض کے مقابلے میں اس پولیو خاتمہ مہم پر اتنا زور کیوں ؟ کہ انکار کی صورت میں جیل اور جرمانے کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ساٹھ سال پہلے چیچک نے جب وبائی شکل اختیار کی تو عالمی برادری نے سنجیدگی سے اس مرض کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا۔ دنیا بھر میں چیچک کے خاتمے کے لیے ویکسین دینے کا پروگرام شروع کیا گیا اس بھرپور اور کامیاب مہم کے ذریعے سال  ۱۹۷۷ تک چیچک کا خاتمہ کیا گیا ۔ یاد رہے کہ چیچک کے بارے میں بھی لوگوں میں غلط فہمی تھی کہ یہ بیماری ختم نہیں ہو سکتی بلکہ مرنے کے بعد قبر میں بھی حملہ کرتی ہے یعنی ہر انسان کو ضروراس مرض سے واسطہ پڑنا ہوگا۔ لیکن سائئسدانوں ،ڈاکتروں حکمتوں کے اقدامات نے سارے مفروضے غلط ثابت کیے۔ اسی طرح آج امریکہ، یورپ ، آسٹریلیا اور افریقہ میں اس مرض پولیو کو ختم کیا گیا ہے لیکن ایشیا میں دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں ابھی تک پولیو موجود ہے۔ اس وقت پاکستان میں چار(۴) اور افغانستان میں پندرہ (۱۵) پولیو کیسز موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ دو ممالک خصوصی طور پر ٹارگٹ ہیں کہ یہاں سے اگرلوگ دوسرے ممالک میں جاتے ہیں تو اُن کے لیے پولیوفری سرٹیفیکیٹ لازمی ہوگا۔ اس مرض کے خاتمے کے لیے سال ۲۰۰۰ مقرر کیا گیا تھا لیکن ان ممالک کی سیکیورٹی حالات اورجغرافیائی صورتحال کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا ۔ اسی وجہ سے اب ۲۰۲۱تک مکمل کلیئرنس سرٹیفائیڈ ہونے کا امکان ہے کیونکہ آخری کیس ۲۰۱۲ میں سامنے آیا تھا اس کے بعد نیا کیس سامنے نہیں آیا یعنی پولیو پر قابو پایا جاچکا ہے لیکن ابھی جراثیم موجود ہیں اور افغانستان بھی ابھی کلیئر نہیں ہوا اس لیے مزید چند سال یہ مہم جاری رہے گی۔ علاقے میں ایسے کئی افراد ہم سب نے دیکھے ہونگے کہ جو بچپن میں پولیوکی وجہ سے اپاہج ہوئے ایک یا دونوں ٹانگیں فالج کی وجہ سے معذور ہوچکے ہیں کیونکہ اس مرض کا علاج زندگی بھر ممکن نہیں اس لیے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ بڑھ چڑھ کر پولیو کے خاتمے کے لیے مہم کو کامیاب بنائیں۔ کیونکہ یہ ہر انسان دینی عالم، استاد، صحافی، قومی مشر ملک اور طلبا کا فرض بنتا ہے کہ پولیو سے متعلق غلظ تاثر کو زائل کرنے اور پولیو خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔    

..............................................................................................



No comments