مائی لارڈ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سوموٹو اور سہی
(شمس مومند)
پشتو کا ایک مشہور محاورہ ہے کہتے ہیں کہ ( چی دا سل پہ لالی پورے نو دا یو ی دہ بنگڑو) یعنی عاشق صاحب فرماتے ہیں کہ ویسے بھی ہم نے خرچہ کرتے کرتے محبوب پر سو روپے لگادئے ہیں اب محبوب ہمارا بنتا ہے یا نہیں بنتا مگر ان کے چوڑیوں سے خالی ہاتھ اچھے نہیں لگتے اس لئے سو نہیں ایک سو ایک سہی ۔ ہم ایک روپے مزید خرچ کرکے ان کو چوڑیا دلا ہی دیتے ہیں۔اگر اس محاورے میں محبوب کی جگہ پاکستانی عوام کو سمجھ لیا جائے اور ان کا عاشق چیف جسٹس آف پاکستان ۔ تو سوموٹو کے اس دور بے نیازمیں چوڑیو کے لئے صرف ایک روپے یعنی قبائلی عوام کے لئے بھی صرف ایک سو موٹو کی ضرورت ہے۔
جی ہاں جناب۔ سہولیات و ضروریات تو درکنار انسان کے بنیادی حقوق اور پاکستانی قوانین تک سے محروم ستر لاکھ ( اگرچہ مردم شماری میں ان کی تعداد پچاس لاکھ ہے مگر بیس لاکھ سے زیادہ قبائلی عوام نقل مکانی کرکے ملک کے باقی شہروں میں رہائش پذیر ہوچکے ہیں اور نقل مکانی کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے) قبائلی عوام زندگی کی بھاری گاڑی ( مگر دورحاضر کی جدید گاڑی نہیں بلکہ پتھر کے زمانے کی بیل گاڑی) کو کھینچتے کھینچتے آپ کے تیز ترین انصاف کے سو موٹو دور میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کی دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بھی فاٹا تک بڑھانے کا بل پاس کردیا ہے۔ اور صدر مملکت کی دستخط کے بعد اب یہ قانون بن چکا ہے۔ کہ سپریم کورٹ فاٹا میں اپنے اختیارات کو استعمال کر سکتی ہے۔چونکہ آپ نے ملک بھر میں پاکستانی شہریوں کو سستی دوائیاں، صاف پانی، خالص دودھ، معیاری تعلیم، میرٹ پر نوکریاں، سستا انصاف اور ایسی بہت سی مزید سہولیات و ضروریات فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔ او ر عوام کے لئے فکر مندی کے حوالے سے آئے دن آپ کے بیانات اور ریمارکس پڑھ پڑھ کر مجھ جیسے خوش فہم لوگ اس انتظار میں ہیں کہ شاید آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ۔ آپ کی نظر کرم قبائلی عوام کی بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محرومیوں کو تاڑ لے گی۔ اور آپ سوموٹو ایکشن لے کر ان کی ستر سالہ دکھوں کا مداوا کرینگے۔ مگر افسوس کہ دو مہینے انتظار کرتے کرتے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
مائی لارڈ۔ قبائلی عوام قیام پاکستان سے لیکر آج تک انگریز دور کے ظالمانہ ( فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) کے تحت محکوم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ریگولیشن کو دنیا کا کوئی بھی مہذب فورم خواہ وہ عدالت ہو ، پارلیمنٹ ہو یا کوئی اور اس دور کا انسانی قانون ماننے کو تیار نہیں۔ مگر اس غیر انسانی اور غیر اسلامی قانون سے نجات دلانے کا کسی کو بھی کوئی فکر نہیں۔ جناب والا ۔ آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قانون کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔ مگر گستاخی معاف کیجئے مائی لارڈ۔ نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے اور دفعہ باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مدت کے تعین میں آپکے فیصلے دیکھ کر ہی ہم آپ سے بجا طور پر عرض گزار ہیں۔ کہ بقول شاعر
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی ۔۔۔۔۔ اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
جناب والا ۔ ستر سال سے قبائلی عوام کی محرومیاں اور مشکلات رہنے دیجئے۔ سترہ سال سے وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے سینکڑوں بزرگوں بچوں اور جوانوں کی خونریزی بھی درگزر کیجئے۔ سالہا سال تک بیس لاکھ قبائلی عوام کی در بدر زندگی بھی فراموش کیجئے۔ قبائل کے لاکھوں معصوم بچے صحت تعلیم صاف پانی بجلی اور گیس جیسے بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے اس کو بھی نظر انداز کیجئے لیکن خدا را۔ ان ماوں بہنوں بیٹیوں معصوم بچوں اور عمر رسیدہ والدین کی فریاد ضرور سن لیجئے۔ جو منظور پشتین کے جلسوں میں اپنے اپنے گمشدہ عزیز و اقارب کی تصاویر تھامے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ آپ کی موجودگی میں اس برقع پوش خاتون کی آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہونی چاہیئے جس نے آٹھ اپریل کو پشاور جلسے میں اپنی شوہر کی گمشدگی کے بعد اپنی دکھ بھری داستان سناکرہزاروں حاضرین کو رلادیا تھا۔ اس آٹھ سالہ بچی کی لکھی اور گائی ہوئی نظم کو سننے کا حوصلہ کیجئے جو انتیس اپریل کو سوات جلسے میں اپنے بابا کو اپنے معصومانہ انداز میں یاد کر کے ہر سننے والے کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہا ہے۔ خدا را منظور پشتین جو مطالبات کر رہا ہے اگر وہ آئینی و قانونی ہے تو سوموٹو ایکشین لیکر انہیں طلب کیجئے اور ان کی وساطت سے سینکڑوں قبائلی متاثرین کی داد رسی کرکے انہیں بھی پاکستانی ہونے کا احساس دلائے اگر وہ غلط ہے تو انہیں آئین و قانون کے مطابق بات کرنے کا پابند بنایا جائے۔قبائلی عوام سیاسی مداریوں اور فوجی افسران سے پہلے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ عدلیہ کی توسیع کے لئے انکی جدوجہد کا کچھ تو فوری فائدہ ہونا چاہیئے۔ درجہ بالا سیدھے سادے حقائق کے باوجود اگر آپ نے نظر کرم سے گریز کیا تو قبائلی عوام میں محرومی غیر ہونے اور سوتیلے پن کا احساس مزید گہرا ہوجائیگا ۔ اور ان کا دکھ مایوسی میں بدل جائے گا کہ شاید پورے پاکستان میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ اسلئے مائی لارڈ ایک سو موٹو اور سہی۔
جی ہاں جناب۔ سہولیات و ضروریات تو درکنار انسان کے بنیادی حقوق اور پاکستانی قوانین تک سے محروم ستر لاکھ ( اگرچہ مردم شماری میں ان کی تعداد پچاس لاکھ ہے مگر بیس لاکھ سے زیادہ قبائلی عوام نقل مکانی کرکے ملک کے باقی شہروں میں رہائش پذیر ہوچکے ہیں اور نقل مکانی کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے) قبائلی عوام زندگی کی بھاری گاڑی ( مگر دورحاضر کی جدید گاڑی نہیں بلکہ پتھر کے زمانے کی بیل گاڑی) کو کھینچتے کھینچتے آپ کے تیز ترین انصاف کے سو موٹو دور میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کی دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بھی فاٹا تک بڑھانے کا بل پاس کردیا ہے۔ اور صدر مملکت کی دستخط کے بعد اب یہ قانون بن چکا ہے۔ کہ سپریم کورٹ فاٹا میں اپنے اختیارات کو استعمال کر سکتی ہے۔چونکہ آپ نے ملک بھر میں پاکستانی شہریوں کو سستی دوائیاں، صاف پانی، خالص دودھ، معیاری تعلیم، میرٹ پر نوکریاں، سستا انصاف اور ایسی بہت سی مزید سہولیات و ضروریات فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔ او ر عوام کے لئے فکر مندی کے حوالے سے آئے دن آپ کے بیانات اور ریمارکس پڑھ پڑھ کر مجھ جیسے خوش فہم لوگ اس انتظار میں ہیں کہ شاید آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ۔ آپ کی نظر کرم قبائلی عوام کی بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محرومیوں کو تاڑ لے گی۔ اور آپ سوموٹو ایکشن لے کر ان کی ستر سالہ دکھوں کا مداوا کرینگے۔ مگر افسوس کہ دو مہینے انتظار کرتے کرتے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
مائی لارڈ۔ قبائلی عوام قیام پاکستان سے لیکر آج تک انگریز دور کے ظالمانہ ( فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) کے تحت محکوم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس ریگولیشن کو دنیا کا کوئی بھی مہذب فورم خواہ وہ عدالت ہو ، پارلیمنٹ ہو یا کوئی اور اس دور کا انسانی قانون ماننے کو تیار نہیں۔ مگر اس غیر انسانی اور غیر اسلامی قانون سے نجات دلانے کا کسی کو بھی کوئی فکر نہیں۔ جناب والا ۔ آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قانون کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں۔ مگر گستاخی معاف کیجئے مائی لارڈ۔ نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے اور دفعہ باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مدت کے تعین میں آپکے فیصلے دیکھ کر ہی ہم آپ سے بجا طور پر عرض گزار ہیں۔ کہ بقول شاعر
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی ۔۔۔۔۔ اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
جناب والا ۔ ستر سال سے قبائلی عوام کی محرومیاں اور مشکلات رہنے دیجئے۔ سترہ سال سے وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے سینکڑوں بزرگوں بچوں اور جوانوں کی خونریزی بھی درگزر کیجئے۔ سالہا سال تک بیس لاکھ قبائلی عوام کی در بدر زندگی بھی فراموش کیجئے۔ قبائل کے لاکھوں معصوم بچے صحت تعلیم صاف پانی بجلی اور گیس جیسے بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے اس کو بھی نظر انداز کیجئے لیکن خدا را۔ ان ماوں بہنوں بیٹیوں معصوم بچوں اور عمر رسیدہ والدین کی فریاد ضرور سن لیجئے۔ جو منظور پشتین کے جلسوں میں اپنے اپنے گمشدہ عزیز و اقارب کی تصاویر تھامے خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ آپ کی موجودگی میں اس برقع پوش خاتون کی آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہونی چاہیئے جس نے آٹھ اپریل کو پشاور جلسے میں اپنی شوہر کی گمشدگی کے بعد اپنی دکھ بھری داستان سناکرہزاروں حاضرین کو رلادیا تھا۔ اس آٹھ سالہ بچی کی لکھی اور گائی ہوئی نظم کو سننے کا حوصلہ کیجئے جو انتیس اپریل کو سوات جلسے میں اپنے بابا کو اپنے معصومانہ انداز میں یاد کر کے ہر سننے والے کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہا ہے۔ خدا را منظور پشتین جو مطالبات کر رہا ہے اگر وہ آئینی و قانونی ہے تو سوموٹو ایکشین لیکر انہیں طلب کیجئے اور ان کی وساطت سے سینکڑوں قبائلی متاثرین کی داد رسی کرکے انہیں بھی پاکستانی ہونے کا احساس دلائے اگر وہ غلط ہے تو انہیں آئین و قانون کے مطابق بات کرنے کا پابند بنایا جائے۔قبائلی عوام سیاسی مداریوں اور فوجی افسران سے پہلے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ عدلیہ کی توسیع کے لئے انکی جدوجہد کا کچھ تو فوری فائدہ ہونا چاہیئے۔ درجہ بالا سیدھے سادے حقائق کے باوجود اگر آپ نے نظر کرم سے گریز کیا تو قبائلی عوام میں محرومی غیر ہونے اور سوتیلے پن کا احساس مزید گہرا ہوجائیگا ۔ اور ان کا دکھ مایوسی میں بدل جائے گا کہ شاید پورے پاکستان میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ اسلئے مائی لارڈ ایک سو موٹو اور سہی۔

No comments