ملالا یوسفزئی، ڈاکٹر عبد السلام اور ہمارے تاریخی تاریخی ہیرو
(محمدارشدخان)
=====================
جناب ضیاء الدین یوسفزئی صاحب کے "زرین خیالات" سے اچھی طرح واقف ہونے کی باوجود (جو کہ باچا خانی ہوکر بھی بغیر کسی بڑے تعلیمی کارنامے کے اس بدقسمت نرالے ملک کے انگلینڈ اعزازی تعلیمی اتاشی مقرر ہوۓ) میں نے کبھی ١٥ سالہ ملالا یا انکے والد کو کسی بین القوامی سازش کا دانستہ کردار نہیں سمجھا لیکن اس حقیقت سے کوئی کیسے انکار کرے کہ ملالا یوسفزئی کا نوبل پرائز کسی تعلیمی یا فکری یا سائنسی خدمات کا نہیں بلکہ ایک طالبان کے ہاتھوں حادثاتی طور پر گولی کا شکار ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص وقت میں مغرب بلخصوص امریکہ کے اسلام کے نام پر ہونے والی دہشتگردی اور پاکستان کے متعلق ایک مخصوص بیانیے کی ترویج کا صلہ تھا؟ ادبی خدمات کی سلسلے میں انکا سب کارنامہ بڑا بس ایک ڈائری تھی جن میں پاک فوج اور طالبان کو ایک سکے کے دو رخ قرار دیا گیا تھا اور وہی فوج انکی جان بچا کر انکو ولایت لے گئی- اب اگر پاکستان کا ایک بہت بڑا فکری حلقہ اور عوام کی اکثریت اس متنازعہ بیانیے کو مسترد کرکے اس بچی کو اپنے قوم کے بجاۓ مغرب کا ہیرو سمجھتا ہے تو اس سے جمہوریت کے نام نہاد علمبردار دیسی جعلی لبرلوں اور پختونوں کے خودساختہ ٹھیکداروں کو کیوں تکلیف ہے؟ مغرب کے اس "سرکاری" بیانئیے کو جس نے دنیا کو تباہ حال عراق، شام اور افغانستان کا تحفے دئیے تو مغرب کے سچے لبرل بھی مسترد کرتے ہیں جو کہ القاعدہ، داعش اور طالبان کو امریکہ کے عالمی پالیسیوں کا شاخسانہ سمجتھے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار غبی قسم کے دیسی لبرلوں کی طرح میرے گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھاۓ جانے والے مطالعہ پاکستان، کسی ریٹائرڈ پاکستانی جرنیل کا افغانی طالبان کیلئے دل میں "نرم گوشے" یا دو قومی نظریے کا نہیں-
=====================
جناب ضیاء الدین یوسفزئی صاحب کے "زرین خیالات" سے اچھی طرح واقف ہونے کی باوجود (جو کہ باچا خانی ہوکر بھی بغیر کسی بڑے تعلیمی کارنامے کے اس بدقسمت نرالے ملک کے انگلینڈ اعزازی تعلیمی اتاشی مقرر ہوۓ) میں نے کبھی ١٥ سالہ ملالا یا انکے والد کو کسی بین القوامی سازش کا دانستہ کردار نہیں سمجھا لیکن اس حقیقت سے کوئی کیسے انکار کرے کہ ملالا یوسفزئی کا نوبل پرائز کسی تعلیمی یا فکری یا سائنسی خدمات کا نہیں بلکہ ایک طالبان کے ہاتھوں حادثاتی طور پر گولی کا شکار ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص وقت میں مغرب بلخصوص امریکہ کے اسلام کے نام پر ہونے والی دہشتگردی اور پاکستان کے متعلق ایک مخصوص بیانیے کی ترویج کا صلہ تھا؟ ادبی خدمات کی سلسلے میں انکا سب کارنامہ بڑا بس ایک ڈائری تھی جن میں پاک فوج اور طالبان کو ایک سکے کے دو رخ قرار دیا گیا تھا اور وہی فوج انکی جان بچا کر انکو ولایت لے گئی- اب اگر پاکستان کا ایک بہت بڑا فکری حلقہ اور عوام کی اکثریت اس متنازعہ بیانیے کو مسترد کرکے اس بچی کو اپنے قوم کے بجاۓ مغرب کا ہیرو سمجھتا ہے تو اس سے جمہوریت کے نام نہاد علمبردار دیسی جعلی لبرلوں اور پختونوں کے خودساختہ ٹھیکداروں کو کیوں تکلیف ہے؟ مغرب کے اس "سرکاری" بیانئیے کو جس نے دنیا کو تباہ حال عراق، شام اور افغانستان کا تحفے دئیے تو مغرب کے سچے لبرل بھی مسترد کرتے ہیں جو کہ القاعدہ، داعش اور طالبان کو امریکہ کے عالمی پالیسیوں کا شاخسانہ سمجتھے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار غبی قسم کے دیسی لبرلوں کی طرح میرے گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھاۓ جانے والے مطالعہ پاکستان، کسی ریٹائرڈ پاکستانی جرنیل کا افغانی طالبان کیلئے دل میں "نرم گوشے" یا دو قومی نظریے کا نہیں-
-------
جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا جیسے عظیم فرزند پاکستان کا تعلق ہے تو انکا صرف نوبل صرف نوبل پرائز ہولڈر ہونےکی بنیاد پر پاکستان کے حوالے سے ملالا یوسفزئی سے موازنہ کرنا منطقی ہو تو وہ تو پھر برما کے انگ سانگ سو اور امریکی صدر اباما کو بھی ملا ہے- میں ایک راسخ القیدہ سنی پشتون مسلمان ہوں لیکن ڈاکٹر سلام کی طبیعات کے علاوہ پاکستان کیلئے خدمات، پاکستانیت اور حتیٰ کہ اسلام کے حوالے سے قرآن کے متعلق دہریہ اور مذہب بیزار خودساختہ ترقی پسندوں کے جھوٹے نظریات اور پروپگنڈے کے خلاف انکے فکری جدوجہد کو اس ملک کا ایک روشن باب سمجھتا ہوں اور اکثر پاکستانی انکو اس وطن کا ایک قبل فخر سرمایا سمجھتے ہیں- وہ ایک احمدی فرقے کے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوۓ اور اگر ہم مسلمانوں کے ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان کی وجہ سے احمدیوں کے غیر مسلم ہونے پر اجماع امت ہے اور پاکستانی آئین اسکی توثیق کرتا ہے تو وہ لاکھوں غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح ایک غیر مسلم پاکستانی تھے لیکن اس سے انکے ایک عظیم پاکستانی سپوت اور ہمارے قومی ہیرو ہونے کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ پڑنا چاہئیے- کیپٹن صفدر جیسے گھٹیا سیاسی بونے یا انکے ہمخیال انکی یہ حیثیت کسی قرارداد کے کم نہیں کر سکتی- کیا غیر مسلم ممالک کے مسلمان ہیرو نہیں ہوتے یا پھر نہیں ہونے چاہئیے؟
جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا جیسے عظیم فرزند پاکستان کا تعلق ہے تو انکا صرف نوبل صرف نوبل پرائز ہولڈر ہونےکی بنیاد پر پاکستان کے حوالے سے ملالا یوسفزئی سے موازنہ کرنا منطقی ہو تو وہ تو پھر برما کے انگ سانگ سو اور امریکی صدر اباما کو بھی ملا ہے- میں ایک راسخ القیدہ سنی پشتون مسلمان ہوں لیکن ڈاکٹر سلام کی طبیعات کے علاوہ پاکستان کیلئے خدمات، پاکستانیت اور حتیٰ کہ اسلام کے حوالے سے قرآن کے متعلق دہریہ اور مذہب بیزار خودساختہ ترقی پسندوں کے جھوٹے نظریات اور پروپگنڈے کے خلاف انکے فکری جدوجہد کو اس ملک کا ایک روشن باب سمجھتا ہوں اور اکثر پاکستانی انکو اس وطن کا ایک قبل فخر سرمایا سمجھتے ہیں- وہ ایک احمدی فرقے کے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوۓ اور اگر ہم مسلمانوں کے ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان کی وجہ سے احمدیوں کے غیر مسلم ہونے پر اجماع امت ہے اور پاکستانی آئین اسکی توثیق کرتا ہے تو وہ لاکھوں غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح ایک غیر مسلم پاکستانی تھے لیکن اس سے انکے ایک عظیم پاکستانی سپوت اور ہمارے قومی ہیرو ہونے کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ پڑنا چاہئیے- کیپٹن صفدر جیسے گھٹیا سیاسی بونے یا انکے ہمخیال انکی یہ حیثیت کسی قرارداد کے کم نہیں کر سکتی- کیا غیر مسلم ممالک کے مسلمان ہیرو نہیں ہوتے یا پھر نہیں ہونے چاہئیے؟
---------
آخرمیں احساس کمتری میں مبتلا جعلی دیسی سیکولر"ترقی پسند" اور شدید احساس کمتری کی وجہ سے جعلی تفاخر میں مبتلا نام نہاد "پشتوں قوم پرست" اپنا یہ مخصوص جاہلانہ نعرہ لگانا نہیں بھولتے کہ "اس ملک کے ہیرو عرب اور افغانی ہیں اپنے پلے کچھ نہیں"- عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ وادی سندھ یا موجودہ پاکستان تو گزشتہ ٢٠٠٠ سال سے ہے ہی حملہ آوروں کی سرزمین اور ایک ١٠٠٠ سال سے زیادہ سے مسلمان تارکین وطن کے اس خطے کو اپنی منزل بنانے سے ہی تو پاکستان بنا- موجودہ افغانستان (قدیم خراسان) کے شہر غزنی کے ترک حکمران نے لاہور کو اپنی سرمائی دار الحکومت بنا کر اسکی مسلم تہذیب کے ایک بڑے مرکز کے طورپر ١٠٠٠ سال پہلے ایک ایسے وقت میں بنیاد رکھی جب ملتان ٣٠٠ سال سے ایک مسلمان اکثریتی شہر اور چھاونی کی حثیت سے ایک لودھی پشتون شیخ حمید لودھی کے خاندان کے زیراقتدار تھا- ٧٠٠ سال بعد اسی ملتان شہر میں پیدا ہونے والے احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک پشتو شعر میں حمید لودھی کے ساتھ ان سے ٥٠٠ سال بعد پیدا ہونے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے قریب ایک گاؤں کے خاندان کے فرزند فرید خان عرف شیر شاہ سوری کو اپنا ہیرو کہا اور خراسان ہی کے شہر غور ہی کے ترک یا تاجک حکمران شہاب ادین غوری جنہوں نے دہلی کی مسلمان سلطنت کی بنیاد رکھی جہلم میں دفن ہیں جہاں پر شیر شاہ سوری اپنے عظیم پراجیکٹ جی ٹی روڈ کے کنارے روہتاس قلعہ بنایا- اسی جہلم میں ایک ٹھیکری پر بیٹھ کر البیرونی نے ١٠٠٠ سال پہلے زمین کے مدار کی پیمائش کی تھی جب کہ مغرب میں اس وقت زمین کی گولائی پر یقین رکھنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگتا تھا- ١٩١٦ میں فزکس، میڈیسن، اکنامکس اور کیمسٹری میں نوبل انعام لینے والوں میں ایک بھی امریکا میں پیدا نہیں ہوا بلکہ باہر سے اۓ ہوۓ تارکین وطن تھے جو کہ "امریکی ہیرو" قرار پاۓ لیکن ہمارا دیسی "ترقی پسند" کئی سو سال پہلے سینکڑوں سال سے اس مٹی کے فرزندوں کو بھی کسی نامعلوم ڈی این اے کے چکر میں "بیرونی حملہ اور" قرار دیکر ہمیں قرون وسطیٰ کا ہندو برہمن بنانے پر تلے ہوۓ ہیں جو کہ اپنے بھگوانوں کے "دیس" سے باہر اور اپنے نام نہاد مذہب کے خارج ہر بندے کو "ملیچا" سمجھتے تھے- "مصنوعی" پاکستان سے "باہر" کابل کے کسی غار یا پھر مہا بھارت اور رامائن کے کسی کھتا میں اپنی "جڑیں" ڈھونڈنے والے ان ابو جھل کے اولاد کو کون سمجھاۓ کہ ایسے تو پیغمبر اسلام (ص) بھی حجاز میں باہر سے آکر بسنے والے قریش تاجروں کے خاندان سے تھے "اصل" عرب تو صحرائی بدو تھے-
آخرمیں احساس کمتری میں مبتلا جعلی دیسی سیکولر"ترقی پسند" اور شدید احساس کمتری کی وجہ سے جعلی تفاخر میں مبتلا نام نہاد "پشتوں قوم پرست" اپنا یہ مخصوص جاہلانہ نعرہ لگانا نہیں بھولتے کہ "اس ملک کے ہیرو عرب اور افغانی ہیں اپنے پلے کچھ نہیں"- عقل کے اندھے یہ نہیں جانتے کہ وادی سندھ یا موجودہ پاکستان تو گزشتہ ٢٠٠٠ سال سے ہے ہی حملہ آوروں کی سرزمین اور ایک ١٠٠٠ سال سے زیادہ سے مسلمان تارکین وطن کے اس خطے کو اپنی منزل بنانے سے ہی تو پاکستان بنا- موجودہ افغانستان (قدیم خراسان) کے شہر غزنی کے ترک حکمران نے لاہور کو اپنی سرمائی دار الحکومت بنا کر اسکی مسلم تہذیب کے ایک بڑے مرکز کے طورپر ١٠٠٠ سال پہلے ایک ایسے وقت میں بنیاد رکھی جب ملتان ٣٠٠ سال سے ایک مسلمان اکثریتی شہر اور چھاونی کی حثیت سے ایک لودھی پشتون شیخ حمید لودھی کے خاندان کے زیراقتدار تھا- ٧٠٠ سال بعد اسی ملتان شہر میں پیدا ہونے والے احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک پشتو شعر میں حمید لودھی کے ساتھ ان سے ٥٠٠ سال بعد پیدا ہونے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے قریب ایک گاؤں کے خاندان کے فرزند فرید خان عرف شیر شاہ سوری کو اپنا ہیرو کہا اور خراسان ہی کے شہر غور ہی کے ترک یا تاجک حکمران شہاب ادین غوری جنہوں نے دہلی کی مسلمان سلطنت کی بنیاد رکھی جہلم میں دفن ہیں جہاں پر شیر شاہ سوری اپنے عظیم پراجیکٹ جی ٹی روڈ کے کنارے روہتاس قلعہ بنایا- اسی جہلم میں ایک ٹھیکری پر بیٹھ کر البیرونی نے ١٠٠٠ سال پہلے زمین کے مدار کی پیمائش کی تھی جب کہ مغرب میں اس وقت زمین کی گولائی پر یقین رکھنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگتا تھا- ١٩١٦ میں فزکس، میڈیسن، اکنامکس اور کیمسٹری میں نوبل انعام لینے والوں میں ایک بھی امریکا میں پیدا نہیں ہوا بلکہ باہر سے اۓ ہوۓ تارکین وطن تھے جو کہ "امریکی ہیرو" قرار پاۓ لیکن ہمارا دیسی "ترقی پسند" کئی سو سال پہلے سینکڑوں سال سے اس مٹی کے فرزندوں کو بھی کسی نامعلوم ڈی این اے کے چکر میں "بیرونی حملہ اور" قرار دیکر ہمیں قرون وسطیٰ کا ہندو برہمن بنانے پر تلے ہوۓ ہیں جو کہ اپنے بھگوانوں کے "دیس" سے باہر اور اپنے نام نہاد مذہب کے خارج ہر بندے کو "ملیچا" سمجھتے تھے- "مصنوعی" پاکستان سے "باہر" کابل کے کسی غار یا پھر مہا بھارت اور رامائن کے کسی کھتا میں اپنی "جڑیں" ڈھونڈنے والے ان ابو جھل کے اولاد کو کون سمجھاۓ کہ ایسے تو پیغمبر اسلام (ص) بھی حجاز میں باہر سے آکر بسنے والے قریش تاجروں کے خاندان سے تھے "اصل" عرب تو صحرائی بدو تھے-

No comments