استاد اور اس کی ذمہ داری
(تحریر: حسین آفریدی )
ہمارے معاشرے میں برائیوں کی کمی نہی بلکہ روزنہ کے حساب سے ان میں اضافہ ہورہاہیں خصوصاًنوجوانوں میں جس تیزی سے برائیاں زور پکڑ رہی ہیں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارے معاشرے کے خدوخال تبدیل ہوکر پختونوں کے اچھے اقدار ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائیں گے اس کی ذمداری کس کس پر عائد ہوتی ہیں دوسروں کے علاوہ نوجوانوں کے تعلیم وتربیت میں والدین کے ساتھ استاد کاکردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہیں۔استاد کیسا ہونا چاہیئے اس کی ذمداری کیا ہے؟ مہذب معاشروں میں اساتذہ کو معماران قوم کہا جاتا ہیں اور ان معاشروں میں استاد کی قدر ومنزلت ، عزت وتکریم بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ دونوں میں اپنے دوست کے ساتھ لاہور کسی کام سے جارہاتھا میرا دوست سید اظہرعلی شاہ صاحب پیشہ کے لحاظ سے استاد ہے انہوں نے 35 سال پرانا اپنی زندگی کا ایک واقعہ سنایا انہوں نے کہا کہ جب میں نیانیا استاد بھرتی ہوا تو تربیتی کورس کے لیے مجھے لاہور میں حصہ لینے کا موقع ملا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ائے ہوئے 350 اساتذہ شامل تھے۔ ہمارے سٹاف کے لیے ٹرینیگ کو رس کے لیے جرمن ٹرینیز لایا گیا تھا کورس کے پہلے روز اس نے سب سے ایک سوال پوچھا کہ What is Teaching? کورس کے شرکا میں کسی کو بھی جواب معلوم نہیں تھا گو کہ اس میں ایسے اساتذہ بھی موجود تھے جن کواس پیشے سے وابستہ ہوئے 20 سال سے زیادہ کا عرصہ ہواتھا ۔۔میر ے دوست شاہ صاحب نے ایک اور سوال جو جرمن استاد نے پاکستانی اساتذہ سے کورس کے اخری روز پوچھا کہ اپ کے خیال میں مغربی حکومتوں کے لیے مشکل کام کونسا ہے؟ بظاہر اسان سوال لیکن انتہائی مشکل اس وقت ثابت ہوا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی سے لے بیروزگاری، توانائی،کرپشن، امن وامان غرض یہ کہ شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو پاکستان کے350 اساتذہ نے بیان نہ کیا ہو لیکن جرمن ٹیچر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اپ لوگوں کے بیان کردہ مسائل حکومت کے لیے اتنے اہم نہیں جتنا ایک استاد کو بھرتی کروانے کا مسئلہ اہم ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ جرمنی سمیت یورپی ممالک میں سب سے مشکل کام استاد کا انتخاب کرنا حکومت کے لیے مشکل ترین کا م ہے پھر انہوں نے اس کی تھوڑی سی تفصیل بتائی کہ جب کھبی جرمنی میں پرائمری سکول کے لیے اساتذہ کی بھرتی کی جاتی ہیں تو ان کو کن مراحل سے گزرنا پڑھتا ہیں جرمن اور مغربی ممالک کی حکومتیں اس کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں جب بھی اساتذہ کی بھرتی ہورہی ہوتی ہیں تو حکومت کی تمام محکمے اس میں حصہ لیتے ہیں اور امیدواروں کی چھان بین میں 6 مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہر امیدوار کی چھان بین ہر پہلو سے کی جاتی ہے جس کا پاکستان بلکہ جنوبی ایشاء میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، تعلیمی معیار پر پورا اترنے والے امیدواروں کے میڈیکل شعبہ سے مختلف ذہنی و جسمانی ٹیسٹ لیے جا تے ہیں جس میں سے امیدوار کا رنگوں کا انتخاب ، اس کے سونے اور جاگنے کے اوقات ، لباس، بالوں کا اسٹائیل،خوارک میں اس کی پسندیدہ ا ور ناپسندیدہ چیزیں امیدوار کی آواز اور بات کرنے کا ڈھنگ بڑوں اور بچوں کے ساتھ ان کا رویہ اور لب ولہجہ جنس مخالف کے ساتھ اس کا برتاو کا انٹرویو میں ماہرین نفسیات امیدوار کا خاص جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد اس کے خاندان اور قریبی رشتداروں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جس میں خاص طور پر مورثی بیماریوں کے بارے میں معلومات اور خاندان کے اندرونی حالات اور تعلقات کو دیکھا جاتا ہے اس کے بعد امیدوار کے قریبی دوستوں اور خاندانی دوستوں کی بھی چھان بین کی جاتی ہے اور امیدوار کے بارے میں ان سے بھی معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں یہ تمام معلومات کے بعد خفیہ اداروں کی رپورٹس کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے نکلنے کے بعد امیدواروں کے انتخاب کو حتمی شکل دی جاتی ہیں تب حکومت کے سربراہ یا اس کا نمائندہ ان الفاظ کے ساتھ اس کی منظوری دیتا ہے کہ ’’ہم نے نہایت دیانتداری سے اپنا فرض پورا کرلیاہے اب قوم بنانا استاد کی ذمداری ہے‘‘ کیا ہم استاد کے انتخاب میں ان باتو کا خیال رکھتے ہیں؟ ہمارا معیار کیا ہے جس کسی کو کسی جگہ نوکری نہ ملیں اس کو سکول میں استاد بھرتی کروادو تاکہ بے چارے کی روزی روٹی کا مسئلہ حل ہو جائے ۔ کل یہی سوال پشاور کے علیٰ درجے کے سکول میں والدین اور اساتذہ کے میٹنگ کے دوران دسویں جماعت کو پڑھانے والے استاد کے سامنے میں نے رکھا تو وہ میرے منہ کی طرف دیکھتا رہ گیا کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اپ اپنے کسی ساتھی سے پتہ کرلیں شاید ان کو معلوم ہوگا یہاں تک کہ بات پرنسپل تک پہنچی لیکن اس سوال کا جواب کہ ٹیچنگ کیا ہے؟کسی کے پاس نہ تھا۔ لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب سکول کی پرنسپل صاحبہ ائی تو جواب میں انہوں نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آج کا ایجنڈا یہ نہیں کہ اپ اساتذہ سے سوال کریں بلکہ آج ہم نے اپ کو زحمت اس لیے دی ہے کہ اپ اپنے بچے کے مطالق بات کریں۔ اپنے اپ کو اور اساتذہ کو خفت سے بچانے کا شاید ان کے پاس یہی بہتر طریقہ تھا۔ اگر آج سروے کیا جائے اور ایمانداری ہر استاد جواب دیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ 90 فیصد اساتذہ کسی مجبوری کے تحت اس پروفیشن میں ائے ہیں ان کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے ہمارا معیار تعلیم کے ساتھ معیار قوم بھی گر رہا ہے کیونکہ اکیسویں صدی میں ہمارے اکثر اساتذہ کے ذہن اس قسم کے خیالات ہیں جیسے کہ لڑکیاں ریاضی کے مضمون میں کمزور جبکہ بیالوجی میں لڑکے زیادہ قابل نہیں ہوتے لڑکیوں کو یہ نہیں پڑھنا چاہیے لڑکوں کو وہ کرنا چاہیے۔ مسائل ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی ضروری ہے تاکہ حاکم وقت ان کو حل کرنے کی تدبیر بھی کر سکے ۔ جیسا کہ راقم نے شروع میں لکھا ہے کہ قوم بنانے میں استاد کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے تو قوم بچانے کے لیے نئے انے والے اساتذہ کے لیے موثر طریقہ کا ر بنانا ضروری ہے لیکن موجودہ اساتذہ کو روایتی تربیتی ورکشاپش کی بجائے بیرون ممالک سے اس سلسلے میں تعاون کی اپیل کی جائے اور وہاں سے اساتذہ کو تربیت دینے والے ماہرین کو فوری طور پر لایا جائے تاکہ موجودہ اساتذہ کی چھان بین کر کے ان میں مختلف گروپ تشکیل دیئے جائے ایک گروپ وہ جو استاد بننے کے اہل ہے دوسرے وہ جو جن کی تربیت کرکے ان کو اس اہل بنایا جاسکتا ہے اور جو خامیاں ان میں ہے اس کی نشاندہی کرکے ان کو کم کیا جاسکتا ہے اور تیسرا گروپ وہ جو شعبہ تدریس کے لیے ٹھیک نہیں ان کو کسی اور محکمہ میں کپایا جائے اور نئی بھرتیاں بین الاقوامی معیار کے مطابق کی جائے تاکہ جلد سے جلد قوم کی تعمیر کا رکا ہو ا مرحلہ دوبارا شروع کیا جاسکے
ہمارے معاشرے میں برائیوں کی کمی نہی بلکہ روزنہ کے حساب سے ان میں اضافہ ہورہاہیں خصوصاًنوجوانوں میں جس تیزی سے برائیاں زور پکڑ رہی ہیں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارے معاشرے کے خدوخال تبدیل ہوکر پختونوں کے اچھے اقدار ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائیں گے اس کی ذمداری کس کس پر عائد ہوتی ہیں دوسروں کے علاوہ نوجوانوں کے تعلیم وتربیت میں والدین کے ساتھ استاد کاکردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہیں۔استاد کیسا ہونا چاہیئے اس کی ذمداری کیا ہے؟ مہذب معاشروں میں اساتذہ کو معماران قوم کہا جاتا ہیں اور ان معاشروں میں استاد کی قدر ومنزلت ، عزت وتکریم بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ گزشتہ دونوں میں اپنے دوست کے ساتھ لاہور کسی کام سے جارہاتھا میرا دوست سید اظہرعلی شاہ صاحب پیشہ کے لحاظ سے استاد ہے انہوں نے 35 سال پرانا اپنی زندگی کا ایک واقعہ سنایا انہوں نے کہا کہ جب میں نیانیا استاد بھرتی ہوا تو تربیتی کورس کے لیے مجھے لاہور میں حصہ لینے کا موقع ملا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ائے ہوئے 350 اساتذہ شامل تھے۔ ہمارے سٹاف کے لیے ٹرینیگ کو رس کے لیے جرمن ٹرینیز لایا گیا تھا کورس کے پہلے روز اس نے سب سے ایک سوال پوچھا کہ What is Teaching? کورس کے شرکا میں کسی کو بھی جواب معلوم نہیں تھا گو کہ اس میں ایسے اساتذہ بھی موجود تھے جن کواس پیشے سے وابستہ ہوئے 20 سال سے زیادہ کا عرصہ ہواتھا ۔۔میر ے دوست شاہ صاحب نے ایک اور سوال جو جرمن استاد نے پاکستانی اساتذہ سے کورس کے اخری روز پوچھا کہ اپ کے خیال میں مغربی حکومتوں کے لیے مشکل کام کونسا ہے؟ بظاہر اسان سوال لیکن انتہائی مشکل اس وقت ثابت ہوا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی سے لے بیروزگاری، توانائی،کرپشن، امن وامان غرض یہ کہ شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو پاکستان کے350 اساتذہ نے بیان نہ کیا ہو لیکن جرمن ٹیچر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اپ لوگوں کے بیان کردہ مسائل حکومت کے لیے اتنے اہم نہیں جتنا ایک استاد کو بھرتی کروانے کا مسئلہ اہم ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ جرمنی سمیت یورپی ممالک میں سب سے مشکل کام استاد کا انتخاب کرنا حکومت کے لیے مشکل ترین کا م ہے پھر انہوں نے اس کی تھوڑی سی تفصیل بتائی کہ جب کھبی جرمنی میں پرائمری سکول کے لیے اساتذہ کی بھرتی کی جاتی ہیں تو ان کو کن مراحل سے گزرنا پڑھتا ہیں جرمن اور مغربی ممالک کی حکومتیں اس کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں جب بھی اساتذہ کی بھرتی ہورہی ہوتی ہیں تو حکومت کی تمام محکمے اس میں حصہ لیتے ہیں اور امیدواروں کی چھان بین میں 6 مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہر امیدوار کی چھان بین ہر پہلو سے کی جاتی ہے جس کا پاکستان بلکہ جنوبی ایشاء میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، تعلیمی معیار پر پورا اترنے والے امیدواروں کے میڈیکل شعبہ سے مختلف ذہنی و جسمانی ٹیسٹ لیے جا تے ہیں جس میں سے امیدوار کا رنگوں کا انتخاب ، اس کے سونے اور جاگنے کے اوقات ، لباس، بالوں کا اسٹائیل،خوارک میں اس کی پسندیدہ ا ور ناپسندیدہ چیزیں امیدوار کی آواز اور بات کرنے کا ڈھنگ بڑوں اور بچوں کے ساتھ ان کا رویہ اور لب ولہجہ جنس مخالف کے ساتھ اس کا برتاو کا انٹرویو میں ماہرین نفسیات امیدوار کا خاص جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد اس کے خاندان اور قریبی رشتداروں کی فہرست پیش کی جاتی ہے جس میں خاص طور پر مورثی بیماریوں کے بارے میں معلومات اور خاندان کے اندرونی حالات اور تعلقات کو دیکھا جاتا ہے اس کے بعد امیدوار کے قریبی دوستوں اور خاندانی دوستوں کی بھی چھان بین کی جاتی ہے اور امیدوار کے بارے میں ان سے بھی معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں یہ تمام معلومات کے بعد خفیہ اداروں کی رپورٹس کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے نکلنے کے بعد امیدواروں کے انتخاب کو حتمی شکل دی جاتی ہیں تب حکومت کے سربراہ یا اس کا نمائندہ ان الفاظ کے ساتھ اس کی منظوری دیتا ہے کہ ’’ہم نے نہایت دیانتداری سے اپنا فرض پورا کرلیاہے اب قوم بنانا استاد کی ذمداری ہے‘‘ کیا ہم استاد کے انتخاب میں ان باتو کا خیال رکھتے ہیں؟ ہمارا معیار کیا ہے جس کسی کو کسی جگہ نوکری نہ ملیں اس کو سکول میں استاد بھرتی کروادو تاکہ بے چارے کی روزی روٹی کا مسئلہ حل ہو جائے ۔ کل یہی سوال پشاور کے علیٰ درجے کے سکول میں والدین اور اساتذہ کے میٹنگ کے دوران دسویں جماعت کو پڑھانے والے استاد کے سامنے میں نے رکھا تو وہ میرے منہ کی طرف دیکھتا رہ گیا کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اپ اپنے کسی ساتھی سے پتہ کرلیں شاید ان کو معلوم ہوگا یہاں تک کہ بات پرنسپل تک پہنچی لیکن اس سوال کا جواب کہ ٹیچنگ کیا ہے؟کسی کے پاس نہ تھا۔ لیکن دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب سکول کی پرنسپل صاحبہ ائی تو جواب میں انہوں نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آج کا ایجنڈا یہ نہیں کہ اپ اساتذہ سے سوال کریں بلکہ آج ہم نے اپ کو زحمت اس لیے دی ہے کہ اپ اپنے بچے کے مطالق بات کریں۔ اپنے اپ کو اور اساتذہ کو خفت سے بچانے کا شاید ان کے پاس یہی بہتر طریقہ تھا۔ اگر آج سروے کیا جائے اور ایمانداری ہر استاد جواب دیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ 90 فیصد اساتذہ کسی مجبوری کے تحت اس پروفیشن میں ائے ہیں ان کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے ہمارا معیار تعلیم کے ساتھ معیار قوم بھی گر رہا ہے کیونکہ اکیسویں صدی میں ہمارے اکثر اساتذہ کے ذہن اس قسم کے خیالات ہیں جیسے کہ لڑکیاں ریاضی کے مضمون میں کمزور جبکہ بیالوجی میں لڑکے زیادہ قابل نہیں ہوتے لڑکیوں کو یہ نہیں پڑھنا چاہیے لڑکوں کو وہ کرنا چاہیے۔ مسائل ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی ضروری ہے تاکہ حاکم وقت ان کو حل کرنے کی تدبیر بھی کر سکے ۔ جیسا کہ راقم نے شروع میں لکھا ہے کہ قوم بنانے میں استاد کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے تو قوم بچانے کے لیے نئے انے والے اساتذہ کے لیے موثر طریقہ کا ر بنانا ضروری ہے لیکن موجودہ اساتذہ کو روایتی تربیتی ورکشاپش کی بجائے بیرون ممالک سے اس سلسلے میں تعاون کی اپیل کی جائے اور وہاں سے اساتذہ کو تربیت دینے والے ماہرین کو فوری طور پر لایا جائے تاکہ موجودہ اساتذہ کی چھان بین کر کے ان میں مختلف گروپ تشکیل دیئے جائے ایک گروپ وہ جو استاد بننے کے اہل ہے دوسرے وہ جو جن کی تربیت کرکے ان کو اس اہل بنایا جاسکتا ہے اور جو خامیاں ان میں ہے اس کی نشاندہی کرکے ان کو کم کیا جاسکتا ہے اور تیسرا گروپ وہ جو شعبہ تدریس کے لیے ٹھیک نہیں ان کو کسی اور محکمہ میں کپایا جائے اور نئی بھرتیاں بین الاقوامی معیار کے مطابق کی جائے تاکہ جلد سے جلد قوم کی تعمیر کا رکا ہو ا مرحلہ دوبارا شروع کیا جاسکے

اساتذہ کے سلسلے میں مضمون بہت ہی عمدہ ہے اور مشورے تو لاجواب ہیں ایسی سوچ ہر فرد کی ہونی چاہیے
ReplyDelete