پشتو ن تحفظ موومنٹ مطالبات کا حل ؟
(شیراللہ مہمند) دیر آید درست آمد پچھلے دنوں کورکمانڈر پشاور نزیر احمد بٹ نے پشتو ن تحفظ موومنٹ کو مذاکرات کی دعوت دیکر ان کے جائز مطالبات حل کرنیکی یقین دہانی کرائی ہے جس کیلئے پہلے ہی سے مشترکہ مکینزم کی ضرورت تھی کہ وہ پشتو ن تحفظ موومنٹ کے مطالبات پر سنجیدگی سے غوروفکرکرکے ان کو حل کرنا چاہیئے تھا ۔ اب مذاکرات کے پیشکش کے بعد پی ٹی ایم کے سرکردہ سربراہان نے بھی اس ضمن میں 25اپریل کو قبائلی علاقہ خیبرایجنسی کی تحصیل جمرود کا دورہ کرکے وہاں پر فاٹا کے پارلیمانی لیڈر ایم این اے شاہ جی گل ، سول سوسائٹی اور قبائلی عمائدین کے ساتھ باہمی مشاورت اور جرگہ کرکے عسکری حکام کے ساتھ بات چیت کرینگے۔ اس ضمن میں کورکمانڈر پشاور کا یہ بیان بہت خوش آئندہے کہ منظور ہمارا بچہ ہے اسلئے پشتون تحفظ موومنٹ کے تمام جائز مطالبات حل کئے جائیں گے ۔ اس تناظر میں اگردیکھاجائے تو پشتون تحفظ موومنٹ کے قائدین نے بھی ابتداء ہی سے موقف اپنایاہے کہ حکومت کے سامنے ان کے پیش کردہ مطالبات آئینی اور قانونی طورپر درست ہیں اور اس میں کوئی ایسا مطالبہ زیر غور نہیں ہے جو آئین اور قانون کے دائرہ کار سے باہر ہیں ۔ اس طرح مارچ میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنے میں اور وزیراعظم سے ملاقات کے دوران جو مطالبات پیش کیں تھیں جن میں لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنا ، فاٹا میں جگہ جگہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کرنا اور ان چیک پوسٹوں پر تلاشی کے دوران عوام کو بے جاتنگ نہ کرنا ، فاٹا میں بارودی سرنگوں کا صفایا کرنا ،متاثرین کی اپنی علاقوں میں دوبارہ آبادکاری کو یقینی بنانا، سیکورٹی فورسز کی آپریشنوں میں مسمار شدہ گھروں اور دکانوں کے مالکان کو معاوضہ دینا، معاوضے سے محروم رہنے والے خاندانوں کے لواحقین کو بھی معاوضہ اداکرنا اور علاقے میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کی فعالیت جیسے مطالبات سرفہرست ہیں ۔ اس وقت وزیراعظم نے پشتون تحفظ موومنٹ کے وفد کو یقین دلایاتھا کہ ان کے تمام مطالبات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائینگے لیکن بدقسمتی سے اعلیٰ حکام نے وفد کو جھوٹے طفل تسلیاں دے کر ان پر دھرنا کو ختم کردیا گیا مگر بعد ازاں ان کے مطالبات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اور مقررہ ٹائم فریم گزرنے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک بار پھر ملکی سطح پر احتجاجی جلسے منعقد کرانے کے اعلانات کئے گئے ۔ اس سلسلے میں کوئٹہ ضلع ژوب میں اور آٹھ اپریل کو پشاور میں بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے بڑے بڑے جلسے منعقد کرائے گئے جس میں عوام کی شرکت دیدنی تھا اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اضافہ ہوابلکہ انہوں نے پورے ملک میں اپنی جلسوں کو وسعت دی ۔ اس طرح ان جلسوں کے بعد اس سے ملکی اداروں کے اوسان خطا ہوگئیں اور وہ پی ٹی ایم کے قائدین کے خلاف اوچھے ہتکھنڈے استعمال کرنے پر مجبورہوگئیں اور اس تحریک کے قائدین پر ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی ، ایجنڈے اور غداری کا لیبل لگاکر ان کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ اس کے علاوہ میڈیا کو بھی ان کے جلسوں کی کوریج سے روک دی گئی اور ایک طرح سے میڈیا ٹرائل بھی شروع کیا گیا جوکہ ایک طرح سے آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی مترادف ہے۔تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کی سوشل میڈیا سب سے بڑا میڈیا ٹرینڈ بن گیا اور وہ اپنی جلسوں کی کوریج سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے تھے اس طرح غیر ملکی میڈیا کے بڑے بڑے نیوز چینلز نے ان کو کوریج دی ہے ان کے ذریعے حقائق آشکارا ہونا شروع ہوگئی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض دشمن ممالک نے بھی پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کو غلط طورپر پیش کیا گیا جن کا بنیادی مقصد ملک میں عدم استحکام پیداکرناہے اس لئے پی ٹی ایم کو اس حوالے سے بڑا احتیاط کرناہوگا کہ کوئی دشمن ملک ان کی جاری سرگرمیوں سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں ۔ جہاں تک پشتون تحفظ موومنٹ کا تعلق ہے تو اس تحریک کی منفرد بات یہ ہے کہ اس تحریک کے قائدین نہ صرف پڑھے لکھے لوگ ہیں بلکہ اس میں باشعور طبقہ ، سول سوسائٹی ، سیاسی فلاحی تنظیموں کے کارکنان، دانشور ، شعرا ء اور ادیب بھی شامل ہیں جوکہ ہمارے معاشرے کی بنیادی مسائل کی نشاندہی کرتاہے اسلئے اب اس تحریک کوروکنا اور ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ کیونکہ اس تحریک کا بنیادی مقصد متاثرہ لوگوں کی حمایت کرنا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قبائلی خطہ فاٹا ہر لحاظ سے متاثرہواہے کیونکہ ان علاقوں کے عوام نے ایک عشرے سے زائد عرصے پر محیط جنگ میں بڑی صعوبتیں ، تکالیف مالی اور جانی نقصانات اٹھائے ہیں ۔ ان علاقوں کے عوام پر جو مظالم ڈھائے گئے اور ان کے ساتھ ظلم ، جبر واستعداد اورجوناانصافیاں ہوئی ہے ان کے بارے میں کوئی بھی حقائق کو بیان نہیں کرسکتے جس کسی نے بھی اس حوالے سے سچ بولنے کی کوشش کی گئی ہے تو ان کا آواز ہمیشہ کیلئے دبایا گیا ہے کیونکہ یہاں پر ظلم کی داستانیں رقم ہوئی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے مالی وجانی نقصانات قبائلی عوام کا ہوچکاہے جس میں فاٹا سیکرٹریٹ کی اعداد وشمار کے مطابق تیس ہزار سے زائد قبائلی عوام جاں بحق ہوگئیں ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عمربھر کیلئے معذور بھی ہوگئیں اس طرح اس جنگ میں قبائلی مشران ، بچے ، بوڑھے ، عورتوں کی ہلاکت کے علاوہ بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئیں ہیں اور پرائی کی اس جنگ میں بیس ارب ڈالر سے زائد قبائلی عوام کی نقصا نات ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مکانات بھی تباہ ہوگئیں ہیں اور ان کا روزگار، تجارت ، معیشت ، صنعت ، زراعت تباہ ہوچکے ہیں جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگارہوگئیں ہیں ۔ اس قسم کے اندوہناک واقعات پر پختون قبائل میں احساس محرومیاں پائی جاتی تھی جو بالآخر کار آتش فشاں بن کر پھٹ گیا ۔ اس مقصد کیلئے جب پی ٹی ایم کا قیام عمل میں لایاگیا تو اس کے خلاف بعض قوتوں نے طرح طرح کی گمراہ کن پروپیگنڈے پھیلانا شروع کیں لیکن ان کا تاحال اس تحریک پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ۔ اب چونکہ بعض قوتیں یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم والے اس وقت کہاں تھے جب ان علاقوں میں عسکریت پسند قوتیں قتل وغارتیں کررہے تھیں تو اس وقت بھی پی ٹی ایم کی موجودہ قائدین میں سے علی وزیر نے ان کے خلاف آواز اٹھائی تو اس پر عسکریت پسندوں نے ان کے خاندان کے تیرہ افراد کو شہید کئے گئے جبکہ ان کا ایک کاروباری مرکز میں دکانیں فیول پمپ اور بڑے رقبے پر زیر کاشت سیب کے باغات بھی تباہ کردیئے گئے تواور کیا کچھ کہنا چاہیئے تھا ۔ اب چونکہ پشتون اپنے حقوق کیلئے چند مطالبات پیش کرتے ہیں توان پر غداری کا لیبل لگایاجاتاہے کیا کوئی اس ملک میں اپنا حق بھی نہیں مانگے گا۔ یہ وہی قبائل ہے جس کو بابائے قوم قائداعظم نے بازوئے شمشیر زن کے خطاب سے نوازاتھا اور ان کو ملک کے بغیر تنخواہ کے سپاہی قراردیتے تھے یہ وہی غیور قبائل ہے جنہوں نے 1948ء میں مہاراجہ کی افواج کو شکست دیکر مقبوضہ کشمیر کو فتح کرلیا تھا یہ وہی قبائل ہے جب بھی ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ آئی ہے تو اس کی حفاظت کیلئے محب وطن قبائل نے ہراول دستے کا کردار اداکیا ہے ۔ توپھر پختون قوم کیسی غدار ہوسکتی ہے جن کی جذبہ حب الوطنی کی مورخوں نے ایک تاریخ لکھی ہے اور یہ تاریخ ان کی جذبہ حب الوطنی کا منہ بولتاثبوت ہے ۔ اس سے قبل قوم پرست پشتون سیاسی رہنماؤں پر بھی غداری کے الزامات لگائے گئے تھے لیکن آج چالیس بعد تاریخ نے یہ بھی ثابت کردیا کہ قوم پرست پشتون سیاستدان حق گو تھے۔ لہذا اب وقت آگیاہے کہ عسکری اور سول قیادت باہم ملکر پشتونوں کے مسائل کا ٹھوس اور قابل عمل حل تلاش کریں جس میں ہم سب کی بہتری ہے

No comments