Breaking News

وہی ہوا جس کا ڈر تھا


 (شمس مومند)
یہ مسلسل میرا چوتھا کالم ہے جو میں صرف پشتون تحفظ مومنٹ کے حوالے سے لکھ رہا ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ قارئین ناراض ہو جائے کہ شاید مجھے پی ٹی ایم کے علاوہ باقی مسائل کی فکر ہی نہیں۔ مگر مجھے امید ہے کہ پشتونوں کو عموما اور قبائل کو خصوصا پشتون تحفظ مومنٹ کے کام اور کردار میں بجا طور پر دلچسپی ہے کیونکہ اس کا متوازن آئینی کام اور کامیابی اگر ایک طرف پشتونوں کے مسائل کو حل کرنے کی امید دلاتی ہے تو دوسری جانب اس کی ناکامی پشتونوں کی مشکلات میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ پی ٹی ایم کی خامیوں اور خوبیوں پر مزید بات ہو ۔ میں پشین جلسے اور پی ٹی ایم رہنماوں کے خلاف ایف آئی آر کے بعد اٹھارہ مارچ کو اپنے شائع ہونے والے کالم کا آخری حصہ دوبارہ پیش کر رہا ہوں جس میں میں نے لکھا تھا
(اور سب سے آخری مگر اہم بات یہ کہ اگر تنظیم کے رہنماء پشتون قوم اور اپنے کاز کیساتھ سچے اور مخلص ہیں تو انہیں علیحدگی پسند بلوچ رہنماوں کی طرح باغیانہ سوچ اور جذباتی بیانات کی بجائے سوچ سمجھ کر قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مہذب اور جمہوری انداز میں اپنا مقدمہ لڑنا چاہیئے۔ کیونکہ پشتونوں کے مسائل کا حل اسی پر امن منظم اور جمہوری جدوجہد میں مضمر ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سوشل میڈیا کے بامقصد استعمال اور پشتون نوجوانوں کی بیداری کی بدولت مشکلات کا دور جلد ختم ہونے والا ہے کہیں ایسا نہ ہو، کہ خدانخواستہ پی ٹی ایم کے نوجوان رہنماوں کی کسی جذباتی غلطی یا کسی اور کے اشاروں پر ناچنے والے کسی خفیہ غدار کی شمولیت کیوجہ سے پشتونوں کی مشکلات کا نیا دور شروع ہوجائے۔ اسی لئے تمام پشتونوں کو جذباتی ہونے کی بجائے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی تحریک کے لئے بد قسمتی کی بات یہ ہوتی ہے جب وہ اپنی توانائیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے صرف کرنے کی بجائے اپنی صفائیاں پیش کرنے پر صرف کرنا شروع کردے۔اگر اس مرحلے پر تحریک کے لوگ اپنے مقاصد کی بجائے اپنی صفائیاں دینے پر مجبور ہوگئے تومتاثرہ قبائلی اور پشتون عوام کو مایوسی اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔)
مجھ سمیت کئی لوگوں نے پی ٹی ایم رہنماوں کو احتیاط کا درس دیا ہوگا۔ مگر اس کے باوجود انھوں آٹھ اپریل کو پشاور جلسے میں احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر پاک فوج کے لئے دھمکی آمیز اور ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے ۔جس کا نہ آئین و قانون اجازت دیتا ہے نہ یہ پشتونوں کے مسائل کا حل ہے۔ اور نہ کوئی محب وطن اپنی فوج کے لئے ایسے الفاظ کو پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف نے بجا طور پر کہا کہ ( ابھی فاٹا میں امن بحال ہی ہوا تھا کہ ایک اور تحریک شروع ہوگئی) پی ٹی ایم رہنماوں نے ہزاروں کے مجمع کے سامنے ہوش میں بات کرنے کی بجائے جوش سے کام لیا۔ اور جذباتی نوجوانوں کو خوش کرنے کے لئے ایک ایک ادارے کا نام لیکر اس کو چیلینج کیا۔ یہ ایک ایسا ناپسندیدہ عمل تھا جس کا ردعمل بھی اداروں کی مجبوری بن گئی ۔ مگر بد قسمتی سے اداروں کا ردعمل بھی اسی روایتی اور بھونڈے انداز میں سامنے آرہا ہے جس کا مقصدپی ٹی ایم کے مطالبات حل کرنے کی بجائے اس تحریک کو کمزور کر نا ہے۔میں ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے عسکری قیادت سے بھی ملتمس ہوں کہ اس انداز میں ردعمل سے بے شک آپ اس تحریک کو تو کمزور کر سکتے ہیں مگر پشتونوں کو ان کے جائز آئینی اور بنیادی حقوق فراہم کئے بغیر ان کو مزید دبانا تباہ کن ہوگا۔ایسا کرنے سے یہاں جو محرومی اور باغیانہ پن پیدا ہوگا اس کو ختم کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس لئے براہ کرم پی ٹی ایم کے تحفظات اور مطالبات کو بغاوت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے ریاست کی شفقت سے محروم ایک ضدی بچے کی پکار سمجھے اور ا سے پیار سے سمجھانے اور ان کے جائز مطالبات حل کرنے کی کوشش کرے۔
پی ٹی ایم کی جانب سے زبان کے اس باغیانہ استعمال کے اور وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی ایم قیادت میں اگر ایک طرف تجربے کا فقدان ہے تو دوسری جانب ان کی نظریں عالمی واقعات سازشوں اور جدید وار فئیر کی بجائے صرف اپنے مقامی مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ اور وہ پشتونوں کی فطری جلد بازی کی بدولت اپنے سترہ سال سے جاری مشکلات اور مسائل کا حل مہینوں میں نہیں دنوں میں چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پی ٹی ایم قیادت کیساتھ عمران خان کی طرح مستقبل کاکوئی باقاعدہ پروگرام نہیں وہ صرف نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لئے جذباتی نعرے لگاتے ہیں۔ اور مسائل کے حل پر فوکس کرنے کی بجائے دوسروں کی تضحیک میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جسے کسی بھی طور پسندیدہ عمل نہیں کہا جاسکتا۔
جہاں تک لر او بر یو افغان اور گریٹر پشتونستان جیسے مفروضوں پر مبنی بے بنیاد نعروں کا تعلق ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں نعرے اب مردہ گھوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اس کی خالق پارٹیاں اب خود اس کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا چکی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ترقی پسند اور باشعور نوجوان کو باولے کتے نے نہیں کاٹا ہے کہ وہ جدید دنیا کے ترقی پزیر پاکستان کو چھوڑ کر انتہا پسندوں کے مسکن اور تباہ حال افغانستان کا حصہ بن جائے۔ اس افغانستان کا جس کی اکثریت پر مبنی باسٹھ فیصد پشتون آبادی (باقی تمام اقوام اڑتالیس فیصد) یعنی اقلیت کی غلامی پر مجبور ہے۔ اور جوگزشتہ نصف صدی سے کھبی روس اور کھبی امریکہ کی براہ راست غلامی میں قید ہے۔
میں انہی سطور کے ذریعے منظور پشتین سے ایک مرتبہ پھر گزارش کرتا ہوں کہ دو تین کامیاب جلسے کر کے آپ نے ملکی قیادت کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائل میں امن اور خوشحالی اور پشتونوں کی بقاء کے لئے تمام پشتون سیاسی قیادت کو ساتھ ملاکر مذاکرات کا راستہ اپنائے۔کیونکہ آپ کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی پشت قبائل سمیت پشتونوں کی باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان کھڑے ہیں جو گولی اور گالی کی بجائے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر پر امن انداز میں اپنا حق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا بھر میں رہائش پذیر پشتونوں نے آپ کی حمایت صرف اس لئے کی کہ آپ نے اسلام آباد میں پر امن دھرنا دیا۔ اور امن و امان خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر درجہ بالا حقائق کے باوجود اب بھی آپ صرف جلسے کرکے نوجوانوں کی جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں اور پشتونوں کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی تحریک اور چند سال پہلے وزیرستان سے اٹھنے والی انتہا پسند تحریکوں میں کوئی امتیاز نہیں رہے گا۔ اور جس تیزی کے ساتھ آپ کی تحریک بام عروج پر پہنچی ہے اس سے زیادہ تیزی کیساتھ زوال کی طرف گامزن ہوگی۔ 

No comments