Breaking News

چند حقیقت پسندانہ گزارشات

(محمدارشدخان)
===============
الله ہماری قوم تو کیا کسی بھی قوم کو ایسے غلیظ جنگ سے آئندہ نہ آزماۓ- مہمند ایجنسی میں اپریل ٢٠١١ کے دلخراش واقعے کا ذکر ہوتا ہے جس میں مبینہ طور پر ایک گاؤں کے ٣٨ افراد کو تحریک طالبان پاکستان کی معاونت کے الزام میں سیکورٹی فورسز نے نقل مکانی کے دوران اپنے خواتین سے الگ کرکے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا اور الزام یہ ہے کہ ان میں معصوموں کو بھی شہید کر دیا گیا تھا- اس سے پہلے عمر خالد خراسانی کی مقامی طالبان تنظیم نے اتمان خیل قبیلے کے ایک جرگے کو نشانہ بنا کر ١٠٢ لوگوں کی جان لی تھی اور فرنٹیر کانسٹبلری والوں اور خاصہ داروں کو پاگل پن میں مبتلا کردیا تھا جوکہ ایک مقامی فورس ہے- انہی دنوں میں سانحہ ١٧ مئی ٢٠١١ کو مہمند ایجنسی سے ملحقہ شبقدر میں فرنٹیئر کانسٹبلری کے ٹریننگ سینٹر پر ٢ خودکش حملہ آوروں کے دہشتگرد حملے کے آس پاس پیش آیا جس میں بھرتی کیلئے ٨٧ مقامی غریب لوگ شہید ہوۓ اور ان میں ایک ماں کے ٢ بچے بھی تھے جو کہ کہ حواس کھو بیٹھی بہرحال ریاست انسان نہیں ہوتا اور اسکے مفاد یا اسکے شہریوں کے تحفظ کیلئے ریاستی اہلکاروں کی طرف سرزد ہوۓ ایسے سانحات یا غلطیوں کو نہ صرف تسلیم کرنا چاہئیے بلکہ انکے متاثرین کے نقصان کے ہر قسم کے ممکن ازالے کے علاوہ پیشہ وارانہ غفلت کے مرتکب ذمہ داروں کا محاسبہ بھی ضروری ہے چاہے ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیسے بھی حالات ہوا ہو تاکہ مستبقل کیلئے سبق ہو- ایسے محاسبے کے عمل سے ریاستی مفاد یا عوامی تحفظ پر ضرب نہیں پڑتی بلکہ انکو تقویت ملتی ہے- اس تمام المیے کا سب سے ممتاز پہلو یہ ہے کہ سلطنت برطانیہ کے خلاف جنگ آزادی میں بھی حاجی صاحب ترنگزئی جیسے روشن خیال اورعلم دوست عالم دین حریت پسند رہنما کی قیادت میں ناقابل شکست رہنے والی مہمند اور صافی قوم نہ صرف ریاست کی وفادار رہی بلکہ عمر خالد خراسانی کی سوچ کو مسترد کرکے پورے پاکستان کئی امن کیلئے قربانیاں دیتی رہی ہے- یہ ان لوگوں کے منہ پر تھپڑ ہے جو پختونوں کو حب وطنی کا درس دیتے ہیں لیکن صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ملک کے مستقبل اور وجود کے جواز پر سوال اٹھانے لگ جاتے ہیں--ایسے واقعات کےعلاوہ عوام اور سیکورٹی فورسز کے تمام تر قربانیوں سے امن بحال ہونے کے بعد غلط انٹیلیجنس اطلاعات پر ماوراۓ عدالت اٹھاۓ جانے اور غائب کیے جانے کے کیسز ابھی بھی ہوتے ہیں- ان کے رپورٹ کردہ تفصیلات میں اونچ نیچ ہوسکتی ہے لیکن یہ کوئی افسانے نہیں انکے متاثرین اور گواہ موجود ہیں - ایک ماہ پہلے میں نے حسب معمول والدہ سے بات کرنے کیلئے گھر فون کیا تو گھر کی خواتین جنکو نہ سیاست سے کوئی لینا اور نہ ہی شائد خبریں سننے سے کوئی دلچسپی کئی واقعات سنانے لگیں- فلانے کاشکار کے لڑکے کو غلطی سے کسی خود کش کے ہینڈلر کو مسافر سمجھ کر مہمان نوازی کرنے کے نتیجے میں غائب کردیا گیا اور نیم معزور حالت میں چھوڑ دیا گیا تو فلاں مچھلی فروش کے ساتھ کسی ایجنسی کا اہلکار بھیس بدل کر کام کرتا رہا اور چھاپا پڑوا کر انکے ملاکنڈ روڈ پر واقع ہوٹل سے بھری اسلحہ اور دہشتگردی کا مواد برآمد کر لیا گیا نشانہ شاید سوات تھا- حتیٰ کہ ہمارے عزیز و اقارب میں ایک سینئر سول جج کے خاندان کے لڑکوں کو ٹیلیفون پر کسی مشکوک گفتگو کی وجہ سے قلعہ بلا حصار میں "گمشدہ" کیا گیا تھا اور رشتہ داروں فوج اور سول محکموں میں کئی بااثر افراد کی موجودگی کے باوجود کافی متشدد قسم کی تفتیش کے بعد بیچاروں کی خلاصی ہوئی- یہ سب بیشک خطے میں جاری بین اقوامی قوتوں کے ایک گندے کھیل میں اپنے ملک کی حفاظت اور عوام کو امن دینے کی قیمت ہو لیکن کہی یہ قیمت اسکے ثمرات سے بہت بھاری نہ پڑ جاۓ اسکے اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی ریاست کو اپنے مستقل وجود کو جواز فراہم کرنا ہو تو کوئی بھی ریاستی مفاد ریاست کے شہریوں کی بنیادی انسانی حقوق سے بڑی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مستقل طور کوئی ریاست اندرونی طور پر جنگی حالات میں رہ سکتا ہے چاہے وہ ماضی کا سپر پاور سوویت یونین ہو یا مملکت خداداد- اسلئے بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے اور کسی نام نہاد قوم پرستی کا چورن بھیج کر ملکی سرحدوں کے تقدس پر سوال اٹھانے والوں سے دہشتگردی کے سہولت کار کی حیثیت سے نمٹنا ہوگا- ان تمام گزارشات کے بعد یہ کہنا بھی بہت ضروری ہے کہ ہم پر حسب سابق افغانستان کے راستے بین القوامی طاقتوں کے مسلط کردہ اس مکروہ جنگ کے انسانیت سوز حقائق اپنی جگہ لیکن ان کو کسی ایسے سیاسی تحریک کیلئے استعمال کرنا جس کے غیر ملکی اور وطن دشمن بیانیے اور نعروں سے ہمارے عظیم لیکن بدقسمت پختون سرزمین پر کسی اور بین القوامی کھیل کی بو آتی ہو قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے- ہم سبق سیکھنے کیلئے اور قربانیاں نہیں دی سکتے- غلطیوں کا ارتکاب کرنے والے انہی سیکورٹی فورسز میں دوسرے پاکستانیوں کے علاوہ پختونخوا اور فاٹا کے بیٹوں نے اپنے خون سے دہشتگردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی فتح حاصل کی ہے اور ہمیں امن اور مستقبل کی امید دی ہے چاہے وہ فرنٹیئر کانسٹبلری کے سابق جانباز سربراہ صفوت غیور ہو، فرنٹیئر کور کے جوان سال کیپٹن معراج صافی شہید، پاک فوج کے روح الله مہمند اور یا پھر پاکستان بھر سے ہزاروں اور گنمام سپاہی- نہ تو ہمیں امن افغانستان میں چپھے ملا فضل الله نے دینا ہے اور نہ ہی افغان طالبان اور اس افغان حکومت نے جسکے ارکان ایسی تحریکوں کی ٹوپیاں پہن کر پاکستان میں اپنے ان ترجمانوں کے ذریعے پاکستان اور پاک فوج کے متعلق انکے ملک پر قابض امریکہ اور بھارت کے بیانئے کے ترویج کرتے ہیں جو کہ اس تمام فساد کے ذمہ دار ہیں-

No comments