جمہوریت کے یہ سارے علمبردار
(محمدارشدخان)
میں کسی خاص پاکستانی سیاسی پارٹی کا رکن یا کارکن نہ ہونے کے باوجود پاکستان کی فکری اورعملی سیاست میں نواز شریف اور عمران خان دونوں کے عظیم خدمات کا معترف ہوں- سیاست کے کاروبار کے بادشاہ نواز شریف نے اس عظیم لیکن بدقسمت ملک کے تقریباً ہر بکاؤ مال کی مناسب قیمت لگا کر انکے نام نہاد اصولوں اور نظریات کا بھانڈا پھوڑ دیا- ساری عمر پنجاب اور پنجابی کو گالی دیکر سیاست کرنے والے محمود اچکزئی اور اسفندیار جیسے خود ساختہ پختون قوم پرستوں کو تخت لاہور کے درباری بنانے سے لیکر فوج یا ریاستی اداروں کی مخالفت اور پاکستانی مارکہ جمہوریت کی بقا کیلئے کانگریسی مولویوں کے نظریاتی وارث مولانا فضل رحمان کو ان دیسی لبرلوں سمیت جو کہ پاکستان کو انگریز کی سازش کہتے تھے "مسلم لیگی" بنانا صرف نواز شریف جیسا کایاں خریدار ہی کرسکتا تھا- دوسری طرف عمومی طور پر ذاتی ایمانداری اور ملک کیلئے اپنی فلاحی خدمات کیلئے مقبول عمران خان صاحب اپنی تمام تر سیاسی کج رویوں کے باوجود کم از کم ایک لحاظ سے حق و باطل کی تفریق کیلئے لٹمس پیپر ثابت ہوۓ کہ انکی انتھک لیکن متنازعہ تحریک نے جو ہلچل مچائی انکے نتیجے میں بغض عمرانی کی ایک ایسی وبا پھیلی جس نے پاکستان میں نظریاتی آلودگی اور فکری منافقت کے شکار طبقات کو بلکل ہی ننگا کردیا چاہے وہ انکو پنجاب کا ایجنٹ کہنے والے باچا خانی اور محمود خانی قوم فروش ہو یا پھرانکو یہودی لابی کا کارندہ کہنے والے دین فروش مولوی اور یا پھر دیسی لبرلوں سمیت انکو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ثابت کرنے والے پاکستان کے جعلی بدعنوان جمہوریت کے یہ سارے علمبردار- حالیہ لطیفہ یہ ہے کہ عائشہ گلالئی کے عمران خان پر بازاری قسم کے گٹھیا الزامات کو کسی سنجیدہ قومی مسلے کی طرح اچھالنے والے ان طبقات کے مبلغین نے نواز شریف کے پارٹی پر محترمہ کے الزامات کے ساتھ ہی پہلے انکو مظلومیت اور سچائی کے مقام سے اتار کر الزامات کا کاروبار کرنے والی بنا دیا اور اب منظور پشتین کو راء اور افغانستان کا ایجنٹ کنے پر انکو اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور مہرہ قرار دیا جو کہ کسی پرسرار مقصد کیلئے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور مہرے کے خلاف استعمال کی گئی- دیکھتے ہیں پاکستانی قوم کے ان "باشعور" طبقات کو ملالا یوسفزئی اپنے یو ٹرن سے کب مایوس کرتی ہے کیونکہ لگتا تو یہی ہے کہ وہ بھی زیادہ دیر اپنے والد محترم کے باچا خانی نظریے کا بوجھ لیکر نہیں پھرسکتی کیونکہ اس بیانیے کا مارکیٹ میں مزید سکوپ نہیں ہے اور نہیں ہی حالات اور حقائق اسکیلئے موافق ہیں اور عمران خان کے پارٹی کے اکثرعام کارکنوں کا ملالا کے متعلق مخالفانہ خیالات کے باوجود بہرحال خان صاحب اور انکے پارٹی کی قیادت انکے لیے اچھے جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں-🙂
No comments