Breaking News

زندگی اک سفر ہے سہانا




(بہ شکریہ ملیحہ ملیحہ)
زندگی کیا سانس کے آنے اور جانے کا نام یا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہو جانے کا نام یہ ویرانوں میں پھول کھلا سکتی اگر اس کے اپنے اندر رنگ بکھرے ہوں یہ طوفانوں سے مقابلہ کرے اگر اپنے جزبوں پر بند باندھ سکے یہ لہروں سے کھیلتی اگر اپنے انگن میں مسکرائ ہوتی کوئ نہیں جانتا یہ رنگ زندگی میں کون بھرتا اور کب ان میں خاردار جھاڑیاں نمودار ہوتی جو انسان کو اپنے اندر سے چھبن کا احساس دلاتی کب سے زندگی شروع اور کب ختم ہو گی کوئ نہیں جانتا  یہ محبت کا احساس دلاتی یہ اپنے جزبوں سے رلاتی یہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی پر یہ بھول جاتی کہ یہ سفر میں ہے ایک ایسا سفر جو ہر مقام کو منزل سمجھ کر رک جاتا کچھ دیر بعد احساس ہوتا کہ زندگی اپنا سفر مکمل کر رہی ہر نئ نسل اسی امید کے ساتھ اگے بڑھتی کہ وہ ہی فاتح وہ سب کچھ چرا لے گی اس زندگی سے ناداں ہیں سب کے سب زندگی تو صرف سفر ایک کا مکمل ہوا تو دوسرے کا تیار ایک جزبہ ختم ہوا تو دوسرا شروع کسی ایک کی خوسی کسی دوسرے کا غم ایک کا پانا دوسرے کا کھونا زندگی صرف جہرے بدل رہی وہ تو جانتی ہی نہیں کسی کو مانتی ہی نہیں کسی کو وہ ازل سے ہے ابد تک رہے گی ہر ایک کی منزل اسے روز و شب پکارتی تو اس کی پکار نہیں سنتا وہ پلٹ جاتی یہ سوچ کر کہ ایک دن تو ہر کوئ سن لے گا وہ تیرے انتظار میں تیرے وجود کو اہستہ اہستہ پگھلا رہی ہے تجھے خود بھی احساس نہیں کہ ہر انے والا لمحہ پہلے سے کمزور اور ہر جانے والا پل دوبارہ لوٹ کر نہ انے والا دوڑ رہا ہے تو اسی رفتار سے اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ایک سرے سے سلگ رہا ہے دھیرے دھیرے راکھ کا ڈھیر بھی پکارے گا اے انسان تجھے کچھ خبر نہ ہوئ ہر جوانی بڑھاپے کو نہیں مانتی اور ہر بڑھاپا جوانی کو یاد کرتا تجھے حیرت نہیں ہوتی اپنی بے خبری پر تجھے حسرت بھی نہیں اتی دوسروں کی حالت دیکھ کر تجھے خوف نہیں اتا قبر کی مٹی سے اس ڈھیر میں کیا کیا لوگ تھے جو سما گےخود تو کیا اک دنیا کو ناز تھا ان پر تجھے کچھ اختیار نہیں پھر بھی با اختیار بن رہامعافی مانگ خود سے پہلے اور معاف کر دوسروں کو یہی وطیرہ ہے جو خدا کے ہاں مقبول پھر بھی تو زندگی سے الجھ رہا ہے اور دوسروں کو الجھا رہا ہے تو پرندوں کی طرح فضا میں پرواز کرنا چاہتا پر تو پرندوں کی طرح معصوم نہیں تیرے پاوں اس زمین نے جکڑے ہوے تجھ میں کچھ صفات جانوروں کی سی بھی جس دن تیرے اندر کا جانور جاگ جاتا تو سب کو چیڑ پھاڑ دیتا تو اگر اس نفس کے جانور کو لگام نہیں دے گا تو تیری سنوائ کہیں نہیں تجھے زندگی سے محبت ہے یا تیری زندگی میں محبت ہے تجھے موت کا خوف ہے یا اپنے سے کیے گیے سوالوں کا تیری پیاس صحرا کی ریت کی طرح سمندر کی لہریں بھی تیری پیاس نہیں بجھا سکتیں ورنہ تو توکل کا ایک قطرہ بھی تیری صدیوں سے پیاسی دل کی زمین کو سیراب کرنے کے لیے کافی تو بس اپنا حساب نہیں کرتا خود سے جواب طلب نہیں کرتا ایک دن تو تھک جائے گا تیری یہ تھکن روح کی اور جس دن اس تھکن کا احساس تجھے ہو گا تیرا اپنا جسم ساتھ چھوڑ جائے گا صرف ایک بات کیا چاہتا ہے تو زندگی سے ترقی کس چیز کی اپنی یا دنیا کی جسم کی یا روح کی اور اگر تو جان بھی لے اس کائنات کے تمام راز پھر بھی تو اپنے لیے کیا کر لے گا کیا یہ قدرت اس بات پر تجھے اپنا ہمراز بنا کر فنا ہونے سے ازاد کر دے گی اس چیز کی تلاش کر جو اس فانی دنیا میں تجھے باقی رہنے کا احساس دلائے تو ہر چیز کو اپنا مطیع دیکھنا چاہتا تیرے کانوں میں صرف تیری اپنی اواز تیرے لبوں پر صرف تیری اپنی کہانی تو ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہا اس کے قدموں پر اپنے نشان بناتا ہوا لیکن وہ تیرے قدموں کو گمراہی کا رستہ بتا کر کسی اور کو.ورغلانے نکل جائے گا اور تو تنہا اپنے سفر پر روانہ

No comments