کرنسی کی جنگ ؟
امام سیاست مولانا محمد خان شیرانی صاحب، کی تقریر کی تلخیص
(بشکریہ عطاء الحق کاکڑ)
پندرہویں صدی تک دنیا عالم اپنے مذہبی اصولوں کے تحت ذندگی گزار رہے تھے. اسلام اور دوسرے شریعتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان شریعتوں نے حکومت نہیں کی سوائے حصرت داودعلیہ سلام اور ایک سلیمان علیہ السلام. اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان شرایع کے حفاظت کو وعدہ بھی نہیں کیا لیکن اس کے برعکس اللہ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے.جرمنی نے کوئی چار ہزار سے زائد قرآن مجید کے نسخے اس ارادے سے ایکجا کئے کہ شاہد وہ اس میں کوئی ردوبدل ڈھونڈ سکیں جیسے دوسرے شرایع بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگئے تھے لیکن اللہ کا فیصلہ آٹل تھا اس لئے وہ اپنے اس ناپاک عمل میں ناکام رہے. مغرب کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہیں کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بدنام کریں کیونکہ و سمجھتے ہے کہ اسلام بھی ایسا دین ہے جیسے کے انکے ادیان تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے گئے.کوئی 2 سو پچاس سال قبل ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی وارد ہوئی. جنہوں نے یہاں اسٹیبلشمنٹ کے نام پر ایک نظام دیا. اسٹیبلشمنٹ یعنی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ. یہ نظام پاکستان سے عمر میں 2 سو سال بڑا ہے اب یہ بتایا جائے کہ کیا عمر میں چھوٹا اپنے عمر سے بڑے کا خدمت گزار رہے گا یا نہیں.؟ تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے غلام ہے اور مزارع ہے. کرنسی.......
1914 سے 1918 تک عالمی جنگ لڑی گئی ایک فریق کا محور برطانیہ اور اس کے ساتھی تھے تو دوسری طرف کا محور جرمنی ، خلافت عثمانیہ و دیگر تھے. اس جنگ میں ان ممالک کا کافی نقصان ہوا. مالی اور جانی مسائل بڑھ چکے تھے.
1919مین فرانس کے صدر مقام پیرس میں یہ لوگ آپس مین بیٹھ گئے امریکہ نے کہا کہ اگر ہم اسی طرح لڑتے رے تو اسلام اور مسلمان ہم پر مسلط ہوجائیں گے. اس لئےانہوں نے لیگ آف نیشن کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا جو ان کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے کام کرتا رہے. ..ان ممالک نے اپنے کرنسی کو ڈالر سے نتی کرلیا.
1970 کے ادوار سے ڈالر صرف کاغذی پرزہ رہ گیا. .
1939میں دوبارہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی 1945 تک. اس عالمی جنگ میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ مکمل شکست سے دوچار ہوئے. برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک نے مفتوح علاقوں کو تقسیم کردیا.. اس کے بعد پھر یہی ممالک دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے.
1944 میں امریکی نے درجہ زیل ادارے
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو تشکیل دیا ائی ایم ایف تشکیل دی اور عالمی بینک کےزریعے تمام دنیا کے بینکنگ نظام کو زیر تسلط لایا گیا.
1945 میں لیگ آف نیشن کے ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا.
پہلے عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک نے دو باتیں تبدیل کئے ہم براەراست حکومت نہیں کرینگے بلکہ قومی حکومتیں بنائی جائے گی.
دوسری بات. کہ جن خطوں پر ہماری حکمرانی ہے وہاں ہماری اسٹیبلشمنٹ ہی ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے.
اس کے بعد پی 1930 میں ہندوستان میں قومیتی خبریں اٹھنے لگیں اور برطانیہ یہ کہنے لگا کہ چونکہ ہماری معیشت اب اس حال میں نہ رہی جو یہاں کی دیکھ بھال کرسکیں لہذا ہم یہاں قومی حکومت بنائیں گے. قومیت فکر کی بنیاد پر اور دوسرے کہتے کہ قومیت زمین کی بنیاد پر ہونا چاہئے.
جمعیت علمائے ہند نے پاکستان کو ایک دھوکہ کہا تھا جو آج ہم سب نے دیکھ لیا.
5جولائی 1947 کو لیاقت علی خان لارڈ ماونٹ بیٹن کو خط لکھتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کو خط لکھیں کہ وہ قائداعظم کو پاکستان کا گورنر جنرل منتخب کریں
16 جولائی 1947 کو برطانیہ کے پارلیمان میں ایک انڈیپینڈنٹ ایکٹ منظور کیا جاتا ہے جس میں آزادی کی تاریخ 15 اگست مقرر کی جاتی ہے. اب ہمیں یہ بتایا جائے کہ جب ہماری آذادی کی تاریخ برطانوی پارلیمنٹ میں ایک بل کے زریعے طے کیا جاتا ہے تو کیا پم خود آزاد کہلاسکتے ہیں.؟
7 اگست 1947 کو لارڈ ماونٹ بیٹن قائداعظم کو اپنے جہاز میں ہمراہ کراچی لے آتا ہے. ..
14 اگست کو لارڈ کراچی آتا ہے اور پارلیمان سے خطاب کرتا ہے
15 اگست کو قائداعظم برطانیہ کے جارج ششم کے وفاداری کا حلف لیتا پے.
1956 تک ملک میں کوئی آئین نہ تھا اس دورانیہ میں کونسی آئین کے تحت اس ملک کا نظام چلایا جارہا تھا. ؟
گورنر جنرل کا مطلب ہے کی حکومت برطانیہ کا وفادار. پھر کونسی آزادی کو دیکھ رہے ہیں...؟
1948 اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی مین انسانی حقوق کے نام پر بل پاس ہوتا پے.
1949 مین نیٹو کی بنیاد ڈالی جاتی ہے سیٹو اور سینٹو کے معائدے عمل میں لائے جاتے ہیں.
اس کا ہدف روس بنایا جاتا پے. روس کے خلاف سرد جنگ پھیل کی جاتی ہے 1989 تک روس کا افغانستان سے نکلنے تک یہ سرد جنگ جاری رہتا پے.
اس کے بعد وہ کہتے ہے کہ اب ہمارے لئے سب سے خطرناک اسلام اور اسلامی ممالک ہے.
انہوں نے تین باتیں اپنے سامنے رکھیں مغرب مین ایک خوبی ہے کی وہ جھوٹ نہیں بھولتے.
1989 میں جب سویت یونین کی فوجیں افغانستان سے نکل گئے. تو پوکوہاما لکھتا پے کہ دنیا میں
کوئی بھی نظام یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ امریکی نظام کے سامنے سر تان کر کھڑا رہے. ..
سیموئیل پی وٹنگٹن نے اس کے تائید کی ہے. چہارم عالمی جنگ ہوگی. جو مسلمانوں کے خلاف ہوگی یہ طے شدہ ہے. ایک انہیں تہذیبوں کے جنگ کا نام دیتا ہے جبکہ دوسرا انہیں دہشتگردی سے جوڑنے بیٹھ گئے. اصل میں ان کا منصوبہ بھی یہی ہے کہ
تہذیبوں کے جنگ میں وی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے کیوں مسلمان دنیا کے کونے کونے میں اور مختلف تہذیبوں میں بکھرے پڑے ہے اس لئے انہیں اس ناکامی دکھائی دی.اس لئے انہوں نے دہشتگردی اور ان جیسے عوامل کو پروان چڑھانے لگے. اور یہ ان کے لئے ایک آسان ہدف بھی تھا.
پینٹاگان نے دستاویزات نشر کئے جس میں امریکا نے تمام دنیا کو بتایا کہ ہم نے دنیا میں جنگ مسلط کردی
جنگ میں ہماری بقا یے اب اس کا کیا مطلب ہے. ..؟اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے حالات سے پوری طور پر خبر لینا چاہئے اگر معلومات نہیں پے تو ایسے میں
تو فتوی کے شرعی احثیت کیا ہوسکتا ہے. بلڈ بارڈر کتاب مین لکھتا ہے کی حجاز مقدس کو الگ ریاست کا درجہ دیا جائے جیسے عیسائیوں کی ویٹی کن سٹی ایک چھوٹا سا ملک بنایا گیا اور جہاں عیسائی پوپ اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں. شیعہ ریاست عمل میں لایا جائے گا سنی ریاست عمل میں لایا جائے گا.
34اسلامی ممالک کا اتحاد عمل میں لایا گیا ان اسلامی ممالک نے اتحاد کی طرف قدم بڑھایا تو امریکا نے خوش آمدید کہا،مزید یہ کہا کہ اس سے سنی مضبوط ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔،نتیجہ یہ نکلے گا کہ سنیوں اور شیعہ مکتب فکر کے درمیان سخت خونریزی ہو گی۔۔اور فتح شیعہ کی ہو گی،پہر سعودی کے شاہوں کے لیے ریاض کے قریب محلات بنائیں جائیں گے،جس میں وہ اپنی عیاشیاں کریں گے ،اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کو وہی حیثیت دی جاے گی جو یورپ میں پادریوں کی ویٹی کن سٹی کی ہے،اور اس کا انتظام امریکا کے ہاتھ میں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد شیعہ آپس میں لڑ پڑیں گے،اور یہ عرب وعجم کے شیعہ ہوں گے،جو ایک دوسرے کی گردنیں ماریں.شیعہ اور سنی کے لڑائی کے بعد عرب و عجم کو آپس میں لڑایا جائگا. اس طرح دنیا پر امریکا کی حاکمیت اور تسلط قائم رہے گا. اس جنگ میں مغرب اور امریکا کے نہ وسائل خرچ ہونگے نہ زمین کام آئے گی. اس لئے استدعا کرتا ہوں کہجو تاریخ اور عالمی حالات سے ناواقف ہو تو وہ فتوای دینے سے اجتناب کریں.
وما علینا الا البلاغ
(بشکریہ عطاء الحق کاکڑ)
پندرہویں صدی تک دنیا عالم اپنے مذہبی اصولوں کے تحت ذندگی گزار رہے تھے. اسلام اور دوسرے شریعتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان شریعتوں نے حکومت نہیں کی سوائے حصرت داودعلیہ سلام اور ایک سلیمان علیہ السلام. اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان شرایع کے حفاظت کو وعدہ بھی نہیں کیا لیکن اس کے برعکس اللہ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے.جرمنی نے کوئی چار ہزار سے زائد قرآن مجید کے نسخے اس ارادے سے ایکجا کئے کہ شاہد وہ اس میں کوئی ردوبدل ڈھونڈ سکیں جیسے دوسرے شرایع بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگئے تھے لیکن اللہ کا فیصلہ آٹل تھا اس لئے وہ اپنے اس ناپاک عمل میں ناکام رہے. مغرب کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہیں کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بدنام کریں کیونکہ و سمجھتے ہے کہ اسلام بھی ایسا دین ہے جیسے کے انکے ادیان تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے گئے.کوئی 2 سو پچاس سال قبل ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی وارد ہوئی. جنہوں نے یہاں اسٹیبلشمنٹ کے نام پر ایک نظام دیا. اسٹیبلشمنٹ یعنی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ. یہ نظام پاکستان سے عمر میں 2 سو سال بڑا ہے اب یہ بتایا جائے کہ کیا عمر میں چھوٹا اپنے عمر سے بڑے کا خدمت گزار رہے گا یا نہیں.؟ تو ثابت ہوتا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے غلام ہے اور مزارع ہے. کرنسی.......
1914 سے 1918 تک عالمی جنگ لڑی گئی ایک فریق کا محور برطانیہ اور اس کے ساتھی تھے تو دوسری طرف کا محور جرمنی ، خلافت عثمانیہ و دیگر تھے. اس جنگ میں ان ممالک کا کافی نقصان ہوا. مالی اور جانی مسائل بڑھ چکے تھے.
1919مین فرانس کے صدر مقام پیرس میں یہ لوگ آپس مین بیٹھ گئے امریکہ نے کہا کہ اگر ہم اسی طرح لڑتے رے تو اسلام اور مسلمان ہم پر مسلط ہوجائیں گے. اس لئےانہوں نے لیگ آف نیشن کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا جو ان کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے کام کرتا رہے. ..ان ممالک نے اپنے کرنسی کو ڈالر سے نتی کرلیا.
1970 کے ادوار سے ڈالر صرف کاغذی پرزہ رہ گیا. .
1939میں دوبارہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی 1945 تک. اس عالمی جنگ میں جرمنی اور خلافت عثمانیہ مکمل شکست سے دوچار ہوئے. برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک نے مفتوح علاقوں کو تقسیم کردیا.. اس کے بعد پھر یہی ممالک دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے.
1944 میں امریکی نے درجہ زیل ادارے
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو تشکیل دیا ائی ایم ایف تشکیل دی اور عالمی بینک کےزریعے تمام دنیا کے بینکنگ نظام کو زیر تسلط لایا گیا.
1945 میں لیگ آف نیشن کے ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا.
پہلے عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک نے دو باتیں تبدیل کئے ہم براەراست حکومت نہیں کرینگے بلکہ قومی حکومتیں بنائی جائے گی.
دوسری بات. کہ جن خطوں پر ہماری حکمرانی ہے وہاں ہماری اسٹیبلشمنٹ ہی ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے.
اس کے بعد پی 1930 میں ہندوستان میں قومیتی خبریں اٹھنے لگیں اور برطانیہ یہ کہنے لگا کہ چونکہ ہماری معیشت اب اس حال میں نہ رہی جو یہاں کی دیکھ بھال کرسکیں لہذا ہم یہاں قومی حکومت بنائیں گے. قومیت فکر کی بنیاد پر اور دوسرے کہتے کہ قومیت زمین کی بنیاد پر ہونا چاہئے.
جمعیت علمائے ہند نے پاکستان کو ایک دھوکہ کہا تھا جو آج ہم سب نے دیکھ لیا.
5جولائی 1947 کو لیاقت علی خان لارڈ ماونٹ بیٹن کو خط لکھتا ہے کہ وہ حکومت برطانیہ کو خط لکھیں کہ وہ قائداعظم کو پاکستان کا گورنر جنرل منتخب کریں
16 جولائی 1947 کو برطانیہ کے پارلیمان میں ایک انڈیپینڈنٹ ایکٹ منظور کیا جاتا ہے جس میں آزادی کی تاریخ 15 اگست مقرر کی جاتی ہے. اب ہمیں یہ بتایا جائے کہ جب ہماری آذادی کی تاریخ برطانوی پارلیمنٹ میں ایک بل کے زریعے طے کیا جاتا ہے تو کیا پم خود آزاد کہلاسکتے ہیں.؟
7 اگست 1947 کو لارڈ ماونٹ بیٹن قائداعظم کو اپنے جہاز میں ہمراہ کراچی لے آتا ہے. ..
14 اگست کو لارڈ کراچی آتا ہے اور پارلیمان سے خطاب کرتا ہے
15 اگست کو قائداعظم برطانیہ کے جارج ششم کے وفاداری کا حلف لیتا پے.
1956 تک ملک میں کوئی آئین نہ تھا اس دورانیہ میں کونسی آئین کے تحت اس ملک کا نظام چلایا جارہا تھا. ؟
گورنر جنرل کا مطلب ہے کی حکومت برطانیہ کا وفادار. پھر کونسی آزادی کو دیکھ رہے ہیں...؟
1948 اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی مین انسانی حقوق کے نام پر بل پاس ہوتا پے.
1949 مین نیٹو کی بنیاد ڈالی جاتی ہے سیٹو اور سینٹو کے معائدے عمل میں لائے جاتے ہیں.
اس کا ہدف روس بنایا جاتا پے. روس کے خلاف سرد جنگ پھیل کی جاتی ہے 1989 تک روس کا افغانستان سے نکلنے تک یہ سرد جنگ جاری رہتا پے.
اس کے بعد وہ کہتے ہے کہ اب ہمارے لئے سب سے خطرناک اسلام اور اسلامی ممالک ہے.
انہوں نے تین باتیں اپنے سامنے رکھیں مغرب مین ایک خوبی ہے کی وہ جھوٹ نہیں بھولتے.
1989 میں جب سویت یونین کی فوجیں افغانستان سے نکل گئے. تو پوکوہاما لکھتا پے کہ دنیا میں
کوئی بھی نظام یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ امریکی نظام کے سامنے سر تان کر کھڑا رہے. ..
سیموئیل پی وٹنگٹن نے اس کے تائید کی ہے. چہارم عالمی جنگ ہوگی. جو مسلمانوں کے خلاف ہوگی یہ طے شدہ ہے. ایک انہیں تہذیبوں کے جنگ کا نام دیتا ہے جبکہ دوسرا انہیں دہشتگردی سے جوڑنے بیٹھ گئے. اصل میں ان کا منصوبہ بھی یہی ہے کہ
تہذیبوں کے جنگ میں وی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے کیوں مسلمان دنیا کے کونے کونے میں اور مختلف تہذیبوں میں بکھرے پڑے ہے اس لئے انہیں اس ناکامی دکھائی دی.اس لئے انہوں نے دہشتگردی اور ان جیسے عوامل کو پروان چڑھانے لگے. اور یہ ان کے لئے ایک آسان ہدف بھی تھا.
پینٹاگان نے دستاویزات نشر کئے جس میں امریکا نے تمام دنیا کو بتایا کہ ہم نے دنیا میں جنگ مسلط کردی
جنگ میں ہماری بقا یے اب اس کا کیا مطلب ہے. ..؟اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے حالات سے پوری طور پر خبر لینا چاہئے اگر معلومات نہیں پے تو ایسے میں
تو فتوی کے شرعی احثیت کیا ہوسکتا ہے. بلڈ بارڈر کتاب مین لکھتا ہے کی حجاز مقدس کو الگ ریاست کا درجہ دیا جائے جیسے عیسائیوں کی ویٹی کن سٹی ایک چھوٹا سا ملک بنایا گیا اور جہاں عیسائی پوپ اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں. شیعہ ریاست عمل میں لایا جائے گا سنی ریاست عمل میں لایا جائے گا.
34اسلامی ممالک کا اتحاد عمل میں لایا گیا ان اسلامی ممالک نے اتحاد کی طرف قدم بڑھایا تو امریکا نے خوش آمدید کہا،مزید یہ کہا کہ اس سے سنی مضبوط ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔،نتیجہ یہ نکلے گا کہ سنیوں اور شیعہ مکتب فکر کے درمیان سخت خونریزی ہو گی۔۔اور فتح شیعہ کی ہو گی،پہر سعودی کے شاہوں کے لیے ریاض کے قریب محلات بنائیں جائیں گے،جس میں وہ اپنی عیاشیاں کریں گے ،اور مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ کو وہی حیثیت دی جاے گی جو یورپ میں پادریوں کی ویٹی کن سٹی کی ہے،اور اس کا انتظام امریکا کے ہاتھ میں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد شیعہ آپس میں لڑ پڑیں گے،اور یہ عرب وعجم کے شیعہ ہوں گے،جو ایک دوسرے کی گردنیں ماریں.شیعہ اور سنی کے لڑائی کے بعد عرب و عجم کو آپس میں لڑایا جائگا. اس طرح دنیا پر امریکا کی حاکمیت اور تسلط قائم رہے گا. اس جنگ میں مغرب اور امریکا کے نہ وسائل خرچ ہونگے نہ زمین کام آئے گی. اس لئے استدعا کرتا ہوں کہجو تاریخ اور عالمی حالات سے ناواقف ہو تو وہ فتوای دینے سے اجتناب کریں.
وما علینا الا البلاغ
No comments