باڑه علم گدر اور کھجوری
نوٹ.
باڑے اور علم گدر پر میرا یہ مضمون اپنے مشاہدے مطالعے اور تجربے کا نچوڑ ہے ضروری نہیں کہ قارئین اتفاق کریں.
مضمون میں کسی کی تضحیک مقصد نہیں بلکہ یہ ایک معلوماتی مضمون ہے جو کہ باڑے میں آباد
نئ نسل کے لئے ہے تاکہ انہیں معلومات بہم پہنچائی جاسکے.علم گدر کے باسی صدیوں سے یہاں آباد ہیں اس لئے انہیں هم کوئی خدانخواستہ غیر نہیں سمجھتے .اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو معذرت طلب کرتا ہوں .کسی نے تصحیح فرمائی تو شکریے کے ساته اسی وقت انشاءالله تصحیح کردونگا....باڑے اور علم گدر پر میرا یہ مضمون اپنے مشاہدے مطالعے اور تجربے کا نچوڑ ہے ضروری نہیں کہ قارئین اتفاق کریں.
مضمون میں کسی کی تضحیک مقصد نہیں بلکہ یہ ایک معلوماتی مضمون ہے جو کہ باڑے میں آباد
فیروز آفریدی
.باڑه علم گدر اور کھجوری.
مجھے تاریخ سے دلچسپی ہے اگر چہ تاریخ کا ماہر هرگز نہیں.
قارئین کے دلچسپی کے لئے باڑہ خیبر ایجنسی کے حوالے سے چند گزارشات کرنا چاهتا ہوں .
باڑه کا ذکر آتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ باڑہ میں آفریدی آباد ہیں .باڑہ کے اصل باشندے آفریدی نہیں بلکہ اس کو سرکاری کاغذات میں خلیل مہمند کا علاقہ مانا جاتا ہے حالانکہ اب اس پر آباد آفریدی اقوام کے باشندے ہیں .میرے سامنے صورتحال اس وقت دلچسپ بنی جب پچھلے دنوں موضع شیخان کے شیخ اکبر علی نے گورنر اور وزیر اعلی کو اپیل کی شکل میں روزنامہ مشرق میں اشتہار دیا .جس میں حکومت سے اپیل کی گئ تھی کہ ہماری پدری جائیداد پر قوم اکاخیل آفریدی قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں روکا جائے .نیچے لکھا تھا عرضگزار شیخ اکبر علی موضع شیخان قوم خٹک. یہ شیخ اکبر علی وه شخص ہے جو انگریز کے زمانے میں ایک انتہائی اہم شخصیت شیخ مقبل خان کے نام سے شہرت پائی .شیخ مقبل خان پشاور کے کمشنر بھی رہے ہیں امیر امان الل خان حاکم افغانستان 1923 کے تخت سے دستبرداری کا اصل محور یہی شخص تھا جس نے پشاور کے مولویوں سے فتوے لیکر امیر کے خلاف موثر پروپیگنڈا کیا تھا اور جس کی بدولت امیر کو تخت سے هاته دھونا پڑا تھا .انگریزوں کا یہ چہیتا بہت بڑے انعامات اور جاگیروں سے نوازا گیا حتی کہ اس کے گاؤں تک خصوصی جی ٹی ایس بس اپنی آخری وقت جب تک جی ٹی ایس چلتا رہا شیخانو کلی تک آتا رہا. 80 کی دہائی میں عبدالکریم قصوری نے جی ٹی ایس کا خاتمہ فرمایا .آب میرے سامنے بہت ساری کڑیاں ملنا شروع ہوئی ہیں .پہلی کڑی یہ ہے کہ باڑہ کا پرانا بازار تو ویسے بھی مکمل بندوبستی علاقے یعنی خلیل مهمند و دیگر کی ملکیت ہے علاقہ غیر یا افریدیوں کا نہیں جن میں تقریبا سینکڑوں سالوں سے بنی کچی دکانیں ان کی ملکیت تهیں اور هم آفریدی اقوام تیراه سے آکر یہاں سے سودا سلف خرید کر اپنی خچروں پر لاد کر لیجاتے تھے. تیراه سے تعمیراتی لکڑیاں لاکر باڑه بازار میں بیچتے تھے .باڑہ بازار کے عقب موضع شیخان سے ملحق پرانے کھنڈرات سے بت مجسمے اور آثار قدیمہ اب بھی لوگ نکال لیتے ہیں اس کے بارے میں مرحوم پروفیسر پریشان خٹک کو میں نے خود سنا تھا اور شاید اسکی کتاب پشتون کون میں اسکا ذکر بھی ہے کہ یہاں ایک بہت بڑی شاید بت مت کے زمانے سے بنی ایک درسگاہ تھی جس میں علوم و فنون کے لئے لوگ دور دراز سے آتے تھے. جس کا اس وقت نام علم گدر تھا.جب مغل شاہنشاہ اورنگ زیب کو مثنوی روم کی نسخے کی ضرورت پڑی تو پورے هندوستان سے چار نسخے برآمد ہوئے ان میں سے ایک نسخہ یہاں سے بھیجا گیا تھا. موضع شیخان سے مغرب کی طرف جو علاقہ شروع ہوتا ہے اسے آج بھی علم گدر کے نام سے پکارا جاتا ہے جو شاید اسی بنا پر اس کا نام علم گدر پڑا کہ یہاں علم سکھانے کا بہت بڑا دارالعلوم تھا. پرانے باڑه بازار اور موضع شیخان سے اگے علاقہ غیر کے دیہات شروع ہوتے ہیں ان میں جو بہت ہی قدیمی دیہات ہیں وه بهی افریدیوں کے نہیں حالانکہ یہ لوگ اب قوم سیپائی افریدیوں میں شامل کئے گئے ہیں .قوم سیپائی تین ذیلی شاخوں کا نام ہے جن میں غیبی خیل سوران خیل اور ورمزخیل شامل ہیں جبکہ علم گدر کے رہائشی خودساختہ اپنے آپ کو سلور پلارئ سیپائی کہتے ہیں حالنکہ قومیت سے یہ لوگ پشاوری خٹک اور شینواری اور کسبگر یا جانی خیل دره ادم خیل سے ہیں صرف ملک گهڑی جو کہ ملک علی اکبر خان کے والد نے 1924 میں اباد کیا تها یہ نہ صرف سیپائی ہیں بلکہ سیپائی قوم کے ملکانان بهی ہیں ان میں سے ایک چیف آف سپائی ہیں اور پورے باڑه اور خیبر ایجنسی میں قابل احترام اور اثر و رسوخ والا خاندان مانا جاتا ہے .باڑه کے بعد جو سب سے پہلے گاؤں دریا باڑه کے کنارے اباد نظر اتا ہے وہ کاریگر گهڑی کہلاتا ہے پشتو میں اسے کاریگرو کلے کہتے ہیں ان چار پانچ گاؤں کے ساتھ اج کل لوگ لفظ گهڑی کا نام لگاتے ہیں جو شاید اردو میں چھوٹے دیہاتی گاؤں کو کہتے ہیں .پنجاب سے آئے ہوئے کپڑے بنانے والے کارخانہ دار پنجابیوں کاریگروں نے انہیں شاید کاریگر گهڑی کا نام دیا ہے. گاڑی بعد میں تمام دیہاتوں کے ساتھ لگایا گیا.یہ پشہ ور یعنی کسبگر لوگ ہیں زمانہ قدیم سے بندوقیں بناتے چلے ارے ہیں آجکل کوہاٹ روڈ پر سمال انڈسٹری میں انکے آرمز فیکٹریاں ہیں .ہمارے تیراه کے لوگ اس گاؤں سے اسلحہ بنواتے تهے. حاجی شیر رحمان مرحوم اس گاوں کے سربراه تهے .اس گاؤں کے باشندوں کا لہجہ اب بھی پشاوری ہے اور زیادہ تر رشتہ داریاں پشاوریوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں.البتہ آفریدی لہجے میں یہ لوگ بات کرسکتے ہیں اس کے بعد جو گاؤں کا نام آتا ہے وہ ذوالفقار گهڑی ہے .یہ گاؤں حاجی ذوالفقار مرحوم کے نام پر بنا ہے اور یہ گاؤں اتنا پرانا نہیں جتنا کہ حاجی ذوالفقار مرحوم کا پیدائشی گاؤں پیپل گهڑی پرانا ہے .حاجی ذوالفقار مرحوم پشاوری نہیں تھا اسکا لہجہ اور تعلق درہ آدم خیل کے جانی خیل شاخ سے ملتا جلتا تها .انتہائی کر سچا اور بہادر انسان تھا اور اغلب گمان یہی ہے کہ جس طرح جمرود ٹڈی بازار کے لہجے والے بھی درے کے آفریدی ہیں حاجی ذوالفقار گاؤں جو کہ ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں اور پیپل گهڑی کے لوگ بهی دره ادم خیل کے جانی خیل آفریدی ہیں.جو قابل احترام ہیں .ذوالفقار گهڑی کے بعد ملک گهڑی کا نام آتا ہے یہ انتہائی اثر و رسوخ والے ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں .پڑے لکھے حکومت میں اچھی پوسٹوں پر کام کرتے ہیں زیادہ تر خوشحال ہیں انکا آبائی علاقہ تیراه بره باڑه ہے .یہ قوم سپائی کے چیف ہیں اور علاقہ غیر میں شاید سب سے پہلے آفریدی یہی ہیں.1924 میں یہ لوگ یہاں آباد ہوئے .اس سے پہلے ملک صاحب کابل کے والی بهی رہ چکے ہیں .ان کی یہاں اباد ہونے سے اس پاس کے پڑوس والے گاؤں والے ان سے خوش نہیں لیکن ملک علی اکبر خان کے پیچهے پورا سیپائی قوم کهڑاتها اس لئے ان کو برداشت کرنا پڑا.ملک صاحب مرحوم کی آبادی سے سیپائی قوم کو باڑه میں بہت اثر و رسوخ اور قافی زمین هاته لگی ، جس پر دیگر آفریدی قوموں کو اب بھی خفیف سی رنجش ہے .حالانکہ دیگر اقوام ملک دین خیل قمبر خیل اکاخیل اور کمر خیل بہت بعد میں یہاں آباد ہوئے.ویسے بھی پروفیسر خواجہ محمد سائیل (د باڑے مهمند )اپنی کتاب میں خلیل مهمند کے وراثتی مثلوں میں انکی چراگاہیں مشرق میں جہانگیری اور اکوڑه خٹک تک اور کھجوری کے علاقہ گنداو تک بتاتے ہیں.یاد رہے کہ غوریاخیل یعنی خلیل مهمند داودزی اور چمکنی 1000هزار سال سے بھی پہلے یہاں آباد ہیں .توزک بابری ظہیر الدین محمد بابر( اول مغل بادشاہ 1526 میں جو هند کا بادشاہ بنا تھا ) کی کتاب میں موضع جمرود سے شکار کے لئے جب گهینڈے کی تعاقب میں اتے ہیں توشیخ محمدی اور ان علاقوں تک پہنچتے ہیں .اس وقت یہاں کے جنگلات کا ذکر کرتے ہیں اور خال خال چھوٹے چھوٹے دیہات کا ذکر بهی کرتے ہیں موضه شیخان کے اوپری علاقے کے جنگلات تو میں نے خود بھی دیکھے تھے جو 1975 تک پھیلے ہوئے تھے .اس کے علاوہ ڈوگرہ پیکٹ کے پیچھے غاڑیزه اور سنڈالی کلے تک بیر اور کیکر پلوسہ چیڑ کے جنگلات تھے اور میں نے خود بچپن میں دیکھے تھے کیونکہ میری پیدائش بھی ملک گهڑی میں ہوئی ہے .اور میری ماں کی پیدائش بھی یہی ہوئی ہے.لیکن میرے والد صاحب تیراه کے رہائشی تھے.ملک گهڑی تمام سیپائی قوم کا رہائشی مہمان خانہ تھا کیونکہ سپائی قوم تیراه میں آباد تھی. جب بھی پشاور یہ لوگ موجب یا کسی اور کام سے آتے تھے تو ملک صاحب کا بڑا حجره بلا احسان انکی رہائش ہوا کرتی تھی. ملک صاحب کے گاؤں کے بعد پیپلز گهڑی ہے جو کہ مجھے یاد ہے کہ گلادین مرحوم اس گاؤں کے سربراه هوا کرتے تھے .بعد میں سید احمد ملک مرحوم بھی اس گاؤں کے مشہور شخص تھے ذوالفقار حاجی مرحوم کا تعلق بھی ایسی گاؤں سے تھا جو بعد مین اپنے لئے اپنا نیا گاوں ذوالفقار گهڑی بنایا جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے.چونکہ زمینیں خالی پڑی تھی آفریدی قبیلہ تیراه مین رہائش پذیر تھا دیگر اقوام اگر سردیوں میں اتے تو پشاور کے مضافاتی گاؤں سنگھ سربند پشتخرہ بہادر کلے بڈهبیره میں رہائش اختیار کرتے تهے گرمیوں میں واپس تیراه میدان چلے جاتے.علم گدر کے لوگوں کا ملک علی اکبر کے علاوه تیراه میں حصہ نہیں اسی طرح جمرود کے پرانے رہائشی بھی تیراه میں حصہ دار نہیں .اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جمرود اور علم گدر والے سرے سے آفریدی نہیں .ان کا لہجہ بھی ایک جیسا ہے حتی کہ اصل آفریدی سپائی ملک گهڑی والوں کا لہجہ بھی انکی طرح ہوگیا ہے جیسے کہ مالٹا کو مولٹا ڈانس کو ڈانس چانس کو چوکس اور ٹرک کو ٹرک کہتے ہیں (یہ جملہ از روئے تفنن لکھا ) پیپل گهڑی کے بعد زیارت گهڑی کا نام آتا ہے جس کے ساته ملنگ گهڑی بھی متصل ہے ملنگ گهڑی والے بھی آفریدی یا سیپائی نہیں یہ لوگ شینواری ہیں اس گاؤں یعنی زیارت کلے یا گهڑی کے اصل سیپائی میان خان اور اعظم خان مرحومین اور انکی اولاد ہیں انکے تایازاد میرے نانا حسین خان آفریدی مرحوم تهے باقی سب کے سب کسبگر تهے.اس گاؤں کے بعد آخری گاؤں سنڈالی کا اتا ہے جو کہ انہی پرانے گاؤں کے باشندے ہیں بوجہ تنگی اپنی رهائش پھیلا کر نئے گاؤں بنائے جہاں جا کر آباد ہوئے بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ یہ بھی خٹک ہیں.علم گدر کا اخری گاوں یہاں ختم ہوتا ہے .یہ لوگ صدیوں سے آباد ہیں جبکہ تیراه کی لوگ ان کی زمینوں سے متصل علاقے پر بہت بعد میں یہاں آکر آباد ہوئے غلبہ 1960 کے بعد آباد ہونا شروع ہوئے .میرا اپنا گھر بھی 1967 کے بعد بنا ہے جو کہ اب دہشتگردوں کی مہربانیوں کی نذر ہوچکا ہے.ان تمام گاؤوں کے پہلوں میں سیکڑوں فٹ کی گہرائی میں دریائے باڑه بہتا ہے.جو کہ تیرا کی پہاڑیوں سے نکل کر سینکڑوں صدیوں سے بہہ رہا ہے.جس کا پانی انگریز مٹکوں میں بھر کر ولایت لے جاتے تھے .پرانے زمانے میں ان گاؤں کے باسیوں کا پیشہ کھیتی باڑی هوا کرتی تھی. دریا کے پانی سے انہوں نے اپنے کھیتوں کو سیرابی کے لئے سرنگیں کدهوائی تهیں .ان کاشت کرنے والے زمینی ٹکڑوں کے اپنے اپنے نام تهے جیسے خٹکو کس، حبیب کس اور سنڈلی کس. کس اس زمینی ٹکڑے کو کہتے ہیں جس پر کاشت کیا جاتا ہے.ان کے نام اب بھی موجود ہیں لیکن مجھے پتہ نہیں کہ کس کے نام پر یہ نام رکھے گئے تهے
قارئین کے دلچسپی کے لئے باڑہ خیبر ایجنسی کے حوالے سے چند گزارشات کرنا چاهتا ہوں .
باڑه کا ذکر آتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ باڑہ میں آفریدی آباد ہیں .باڑہ کے اصل باشندے آفریدی نہیں بلکہ اس کو سرکاری کاغذات میں خلیل مہمند کا علاقہ مانا جاتا ہے حالانکہ اب اس پر آباد آفریدی اقوام کے باشندے ہیں .میرے سامنے صورتحال اس وقت دلچسپ بنی جب پچھلے دنوں موضع شیخان کے شیخ اکبر علی نے گورنر اور وزیر اعلی کو اپیل کی شکل میں روزنامہ مشرق میں اشتہار دیا .جس میں حکومت سے اپیل کی گئ تھی کہ ہماری پدری جائیداد پر قوم اکاخیل آفریدی قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں روکا جائے .نیچے لکھا تھا عرضگزار شیخ اکبر علی موضع شیخان قوم خٹک. یہ شیخ اکبر علی وه شخص ہے جو انگریز کے زمانے میں ایک انتہائی اہم شخصیت شیخ مقبل خان کے نام سے شہرت پائی .شیخ مقبل خان پشاور کے کمشنر بھی رہے ہیں امیر امان الل خان حاکم افغانستان 1923 کے تخت سے دستبرداری کا اصل محور یہی شخص تھا جس نے پشاور کے مولویوں سے فتوے لیکر امیر کے خلاف موثر پروپیگنڈا کیا تھا اور جس کی بدولت امیر کو تخت سے هاته دھونا پڑا تھا .انگریزوں کا یہ چہیتا بہت بڑے انعامات اور جاگیروں سے نوازا گیا حتی کہ اس کے گاؤں تک خصوصی جی ٹی ایس بس اپنی آخری وقت جب تک جی ٹی ایس چلتا رہا شیخانو کلی تک آتا رہا. 80 کی دہائی میں عبدالکریم قصوری نے جی ٹی ایس کا خاتمہ فرمایا .آب میرے سامنے بہت ساری کڑیاں ملنا شروع ہوئی ہیں .پہلی کڑی یہ ہے کہ باڑہ کا پرانا بازار تو ویسے بھی مکمل بندوبستی علاقے یعنی خلیل مهمند و دیگر کی ملکیت ہے علاقہ غیر یا افریدیوں کا نہیں جن میں تقریبا سینکڑوں سالوں سے بنی کچی دکانیں ان کی ملکیت تهیں اور هم آفریدی اقوام تیراه سے آکر یہاں سے سودا سلف خرید کر اپنی خچروں پر لاد کر لیجاتے تھے. تیراه سے تعمیراتی لکڑیاں لاکر باڑه بازار میں بیچتے تھے .باڑہ بازار کے عقب موضع شیخان سے ملحق پرانے کھنڈرات سے بت مجسمے اور آثار قدیمہ اب بھی لوگ نکال لیتے ہیں اس کے بارے میں مرحوم پروفیسر پریشان خٹک کو میں نے خود سنا تھا اور شاید اسکی کتاب پشتون کون میں اسکا ذکر بھی ہے کہ یہاں ایک بہت بڑی شاید بت مت کے زمانے سے بنی ایک درسگاہ تھی جس میں علوم و فنون کے لئے لوگ دور دراز سے آتے تھے. جس کا اس وقت نام علم گدر تھا.جب مغل شاہنشاہ اورنگ زیب کو مثنوی روم کی نسخے کی ضرورت پڑی تو پورے هندوستان سے چار نسخے برآمد ہوئے ان میں سے ایک نسخہ یہاں سے بھیجا گیا تھا. موضع شیخان سے مغرب کی طرف جو علاقہ شروع ہوتا ہے اسے آج بھی علم گدر کے نام سے پکارا جاتا ہے جو شاید اسی بنا پر اس کا نام علم گدر پڑا کہ یہاں علم سکھانے کا بہت بڑا دارالعلوم تھا. پرانے باڑه بازار اور موضع شیخان سے اگے علاقہ غیر کے دیہات شروع ہوتے ہیں ان میں جو بہت ہی قدیمی دیہات ہیں وه بهی افریدیوں کے نہیں حالانکہ یہ لوگ اب قوم سیپائی افریدیوں میں شامل کئے گئے ہیں .قوم سیپائی تین ذیلی شاخوں کا نام ہے جن میں غیبی خیل سوران خیل اور ورمزخیل شامل ہیں جبکہ علم گدر کے رہائشی خودساختہ اپنے آپ کو سلور پلارئ سیپائی کہتے ہیں حالنکہ قومیت سے یہ لوگ پشاوری خٹک اور شینواری اور کسبگر یا جانی خیل دره ادم خیل سے ہیں صرف ملک گهڑی جو کہ ملک علی اکبر خان کے والد نے 1924 میں اباد کیا تها یہ نہ صرف سیپائی ہیں بلکہ سیپائی قوم کے ملکانان بهی ہیں ان میں سے ایک چیف آف سپائی ہیں اور پورے باڑه اور خیبر ایجنسی میں قابل احترام اور اثر و رسوخ والا خاندان مانا جاتا ہے .باڑه کے بعد جو سب سے پہلے گاؤں دریا باڑه کے کنارے اباد نظر اتا ہے وہ کاریگر گهڑی کہلاتا ہے پشتو میں اسے کاریگرو کلے کہتے ہیں ان چار پانچ گاؤں کے ساتھ اج کل لوگ لفظ گهڑی کا نام لگاتے ہیں جو شاید اردو میں چھوٹے دیہاتی گاؤں کو کہتے ہیں .پنجاب سے آئے ہوئے کپڑے بنانے والے کارخانہ دار پنجابیوں کاریگروں نے انہیں شاید کاریگر گهڑی کا نام دیا ہے. گاڑی بعد میں تمام دیہاتوں کے ساتھ لگایا گیا.یہ پشہ ور یعنی کسبگر لوگ ہیں زمانہ قدیم سے بندوقیں بناتے چلے ارے ہیں آجکل کوہاٹ روڈ پر سمال انڈسٹری میں انکے آرمز فیکٹریاں ہیں .ہمارے تیراه کے لوگ اس گاؤں سے اسلحہ بنواتے تهے. حاجی شیر رحمان مرحوم اس گاوں کے سربراه تهے .اس گاؤں کے باشندوں کا لہجہ اب بھی پشاوری ہے اور زیادہ تر رشتہ داریاں پشاوریوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں.البتہ آفریدی لہجے میں یہ لوگ بات کرسکتے ہیں اس کے بعد جو گاؤں کا نام آتا ہے وہ ذوالفقار گهڑی ہے .یہ گاؤں حاجی ذوالفقار مرحوم کے نام پر بنا ہے اور یہ گاؤں اتنا پرانا نہیں جتنا کہ حاجی ذوالفقار مرحوم کا پیدائشی گاؤں پیپل گهڑی پرانا ہے .حاجی ذوالفقار مرحوم پشاوری نہیں تھا اسکا لہجہ اور تعلق درہ آدم خیل کے جانی خیل شاخ سے ملتا جلتا تها .انتہائی کر سچا اور بہادر انسان تھا اور اغلب گمان یہی ہے کہ جس طرح جمرود ٹڈی بازار کے لہجے والے بھی درے کے آفریدی ہیں حاجی ذوالفقار گاؤں جو کہ ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں اور پیپل گهڑی کے لوگ بهی دره ادم خیل کے جانی خیل آفریدی ہیں.جو قابل احترام ہیں .ذوالفقار گهڑی کے بعد ملک گهڑی کا نام آتا ہے یہ انتہائی اثر و رسوخ والے ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں .پڑے لکھے حکومت میں اچھی پوسٹوں پر کام کرتے ہیں زیادہ تر خوشحال ہیں انکا آبائی علاقہ تیراه بره باڑه ہے .یہ قوم سپائی کے چیف ہیں اور علاقہ غیر میں شاید سب سے پہلے آفریدی یہی ہیں.1924 میں یہ لوگ یہاں آباد ہوئے .اس سے پہلے ملک صاحب کابل کے والی بهی رہ چکے ہیں .ان کی یہاں اباد ہونے سے اس پاس کے پڑوس والے گاؤں والے ان سے خوش نہیں لیکن ملک علی اکبر خان کے پیچهے پورا سیپائی قوم کهڑاتها اس لئے ان کو برداشت کرنا پڑا.ملک صاحب مرحوم کی آبادی سے سیپائی قوم کو باڑه میں بہت اثر و رسوخ اور قافی زمین هاته لگی ، جس پر دیگر آفریدی قوموں کو اب بھی خفیف سی رنجش ہے .حالانکہ دیگر اقوام ملک دین خیل قمبر خیل اکاخیل اور کمر خیل بہت بعد میں یہاں آباد ہوئے.ویسے بھی پروفیسر خواجہ محمد سائیل (د باڑے مهمند )اپنی کتاب میں خلیل مهمند کے وراثتی مثلوں میں انکی چراگاہیں مشرق میں جہانگیری اور اکوڑه خٹک تک اور کھجوری کے علاقہ گنداو تک بتاتے ہیں.یاد رہے کہ غوریاخیل یعنی خلیل مهمند داودزی اور چمکنی 1000هزار سال سے بھی پہلے یہاں آباد ہیں .توزک بابری ظہیر الدین محمد بابر( اول مغل بادشاہ 1526 میں جو هند کا بادشاہ بنا تھا ) کی کتاب میں موضع جمرود سے شکار کے لئے جب گهینڈے کی تعاقب میں اتے ہیں توشیخ محمدی اور ان علاقوں تک پہنچتے ہیں .اس وقت یہاں کے جنگلات کا ذکر کرتے ہیں اور خال خال چھوٹے چھوٹے دیہات کا ذکر بهی کرتے ہیں موضه شیخان کے اوپری علاقے کے جنگلات تو میں نے خود بھی دیکھے تھے جو 1975 تک پھیلے ہوئے تھے .اس کے علاوہ ڈوگرہ پیکٹ کے پیچھے غاڑیزه اور سنڈالی کلے تک بیر اور کیکر پلوسہ چیڑ کے جنگلات تھے اور میں نے خود بچپن میں دیکھے تھے کیونکہ میری پیدائش بھی ملک گهڑی میں ہوئی ہے .اور میری ماں کی پیدائش بھی یہی ہوئی ہے.لیکن میرے والد صاحب تیراه کے رہائشی تھے.ملک گهڑی تمام سیپائی قوم کا رہائشی مہمان خانہ تھا کیونکہ سپائی قوم تیراه میں آباد تھی. جب بھی پشاور یہ لوگ موجب یا کسی اور کام سے آتے تھے تو ملک صاحب کا بڑا حجره بلا احسان انکی رہائش ہوا کرتی تھی. ملک صاحب کے گاؤں کے بعد پیپلز گهڑی ہے جو کہ مجھے یاد ہے کہ گلادین مرحوم اس گاؤں کے سربراه هوا کرتے تھے .بعد میں سید احمد ملک مرحوم بھی اس گاؤں کے مشہور شخص تھے ذوالفقار حاجی مرحوم کا تعلق بھی ایسی گاؤں سے تھا جو بعد مین اپنے لئے اپنا نیا گاوں ذوالفقار گهڑی بنایا جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے.چونکہ زمینیں خالی پڑی تھی آفریدی قبیلہ تیراه مین رہائش پذیر تھا دیگر اقوام اگر سردیوں میں اتے تو پشاور کے مضافاتی گاؤں سنگھ سربند پشتخرہ بہادر کلے بڈهبیره میں رہائش اختیار کرتے تهے گرمیوں میں واپس تیراه میدان چلے جاتے.علم گدر کے لوگوں کا ملک علی اکبر کے علاوه تیراه میں حصہ نہیں اسی طرح جمرود کے پرانے رہائشی بھی تیراه میں حصہ دار نہیں .اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جمرود اور علم گدر والے سرے سے آفریدی نہیں .ان کا لہجہ بھی ایک جیسا ہے حتی کہ اصل آفریدی سپائی ملک گهڑی والوں کا لہجہ بھی انکی طرح ہوگیا ہے جیسے کہ مالٹا کو مولٹا ڈانس کو ڈانس چانس کو چوکس اور ٹرک کو ٹرک کہتے ہیں (یہ جملہ از روئے تفنن لکھا ) پیپل گهڑی کے بعد زیارت گهڑی کا نام آتا ہے جس کے ساته ملنگ گهڑی بھی متصل ہے ملنگ گهڑی والے بھی آفریدی یا سیپائی نہیں یہ لوگ شینواری ہیں اس گاؤں یعنی زیارت کلے یا گهڑی کے اصل سیپائی میان خان اور اعظم خان مرحومین اور انکی اولاد ہیں انکے تایازاد میرے نانا حسین خان آفریدی مرحوم تهے باقی سب کے سب کسبگر تهے.اس گاؤں کے بعد آخری گاؤں سنڈالی کا اتا ہے جو کہ انہی پرانے گاؤں کے باشندے ہیں بوجہ تنگی اپنی رهائش پھیلا کر نئے گاؤں بنائے جہاں جا کر آباد ہوئے بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ یہ بھی خٹک ہیں.علم گدر کا اخری گاوں یہاں ختم ہوتا ہے .یہ لوگ صدیوں سے آباد ہیں جبکہ تیراه کی لوگ ان کی زمینوں سے متصل علاقے پر بہت بعد میں یہاں آکر آباد ہوئے غلبہ 1960 کے بعد آباد ہونا شروع ہوئے .میرا اپنا گھر بھی 1967 کے بعد بنا ہے جو کہ اب دہشتگردوں کی مہربانیوں کی نذر ہوچکا ہے.ان تمام گاؤوں کے پہلوں میں سیکڑوں فٹ کی گہرائی میں دریائے باڑه بہتا ہے.جو کہ تیرا کی پہاڑیوں سے نکل کر سینکڑوں صدیوں سے بہہ رہا ہے.جس کا پانی انگریز مٹکوں میں بھر کر ولایت لے جاتے تھے .پرانے زمانے میں ان گاؤں کے باسیوں کا پیشہ کھیتی باڑی هوا کرتی تھی. دریا کے پانی سے انہوں نے اپنے کھیتوں کو سیرابی کے لئے سرنگیں کدهوائی تهیں .ان کاشت کرنے والے زمینی ٹکڑوں کے اپنے اپنے نام تهے جیسے خٹکو کس، حبیب کس اور سنڈلی کس. کس اس زمینی ٹکڑے کو کہتے ہیں جس پر کاشت کیا جاتا ہے.ان کے نام اب بھی موجود ہیں لیکن مجھے پتہ نہیں کہ کس کے نام پر یہ نام رکھے گئے تهے

فیروز آفریدی صاحب بہت اچھے معلومات۔۔۔۔ واقعی اپ نے بہت تاریخی کتابوں کامطالعہ کیاجیسے خوجہ محمد سائل کی وہ بھاری بھرکم کتاب کا مطالعہ کرنا۔۔۔۔ واقعی یہ علاقہ مہمند کا ہے یہاں بتاتھاچلو کہ خلیل اور مہمند میں زمین آسمان کا فرق ہے دونوں جدا جدا قومیں ہیں۔
ReplyDeleteروره کسبګر خو په هر قوم کي وي. خو تاسو لیکلي دي. چه دا کسبګر قوم دي. کسبګر څنګه ځان له قوم دي. مهرباني اوکئ. او وضاحت راته اوکړي.
ReplyDelete