Breaking News

بنیادی انسانی حقوق سے محروم قبائل






(غلام حسین محب)                                                                                                                   
دنیا بھرکے وسائل ،اختیارات اورحاکمیت انسان کے ہاتھوں میں ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی انسان انسانی حقوق کے لیے شور مچا رہا ہے جس سے پتہ چلتہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی انسان ہی کے ہاتھوں ہوتی رہی ہے۔دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کے حوالے سے حالات اور مسائل مختلف ہیں ۔اگر ہم پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو یہاں انسانی حقوق کے بارے میں روزانہ واقعات سامنے آتے ہیں اور ہر صوبہ کے عوام اپنے آپ کو سب سے مظلوم اورلاچار سمجھتے ہیں۔لیکن پاکستان میں ایک ایسا علاقہ ہے جو پاک افغان بارڈر پرقبائلی علاقہ کہلاتا ہے۔ 2500کلومیٹر طویل اس سرحدی پٹی کی آبادی ایک کروڑ تک ہے لیکن پاکستان میں شامل ہوتے ہوئے بھی ان کو پاکستانی شہریوں کے حقوق حاصل نہیں۔انتظامی طور پرشمال سے جنوب کی طرف سات زون بنائے گئے ہیں جن کو ایجنسیاں کہتے ہیں۔ ہر قبائلی ایجنسی ایک ضلع کی حیثیت رکھتی ہے۔بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اگر ان علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ابھی انیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔گزشتہ ستر سالوں سے قبائلی عوام کو انسانی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ملکی پارلیمنٹ میں قبائل کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔حالانکہ ان علاقوں سے ایم این ایز اور سنیٹرز بھی پارلیمنٹ میں موجود رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایف سی آرجو انگریز حکومت نے ضرورت کے تحت ایک وقتی ریگولیشن بنایا تھالیکن بعد میں کسی جمہوری یا فوجی حکومت نے ان علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جراٗت نہیں کی اور یہاں کے تمام تر اختیارات ایک آفیسریعنی پولیٹیکل ایجنٹ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہاں اجتماعی ذمہ داری کے نام پر ایک فرد کے جرم پراس کے قبیلے کے افراد یا رشتہ دار گرفتار کر لیے جاتے ہیں ۔ یہی وہ علاقے ہیں جب افغانستان پر روسی یلغار کے وقت ان قبائل کو ڈھال کے طور پر استعمال کیاگیا۔یہاں مجاہدین کے لیے ٹریننگ سنٹرزبنائے گئے تھے اور یہیں سے جاکر قبائل بھی افغانستان میں روسیوں کے خلاف لڑتے تھے۔پاک افغان سرحد پر ہونے سے اس علاقے میں دہشت گردوں کی آزاداہ نقل وحمل ہوتا تھا لیکن اس پر اب پاک فوج نے کافی حد تک قابو پالیا ہے مگراسی افغانی طویل سرحد پرہونے کی وجہ سے بہ آسانی افغانستان فرار ہوئے اور اب وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان اور افغانستان کوشدیدجانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑا لیکن اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان قبائلی عوام کو پہنچا۔ صرف مہمند ایجنسی میں جو قبائلی مشران اور ملکان کو ہدف بنا کر قتل کردیاگیا اُن میں ملک محمدافضل،ملک ظاہر شاہ،ملک داراخان،ملک عبدالرحمان،ملک فضل منان، ملک چمچمار،ملک شیر محمد اور ملک ولایت شاہ وغیرہ شامل تھے بم دھماکوں میں نشانہ بنانے والے ملک کچکول اور ملک سلیم ان کے علاوہ تھے جبکہ عام شہری ہزاروں کی تعداد میں موت کے منہ میں چلے گئے۔وزیرستان ، کرم،مہمند،خیبر،اورکزئی اور باجوڑایجنسیوں سے لاکھوں قبائلی عوام نقل مکانی کرگئے جو عارضی کیمپوں یاشہروں میں کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہی قبائل جب ایک عرصہ بعد واپس اپنے علاقوں میں گئے تو مزید مشکلات اورتکالیف کا شکار ہو گئے۔وزیرستان کے قبائل جو دس لاکھ تک کی تعدادمیں تھے جب واپس آئے تو وہاں اُن کے گھر اور آباد یاگاؤں ویران پڑے تھے۔کیونکہ اُن کے علاقے سے جانے کے بعدوہاں فوجی آپریشن کیے گئے تھے۔اب ان گھروں کی دوبارہ آبادکاری ہونی باقی ہے ۔لیکن اب سب سے خطرناک صورتحال اُن مائنز اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہے جو علاقہ خالی ہونے کے بعد دہشت گردوں نے چھپا رکھے تھے۔اس مألے کے حل کے لیے وزیرستان قبائل ایک عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔کیونکہ وزیرستان میں دو چھوٹے شہروں میران شاہ ور میرعلی کو فوجی آپریشن کے دوران مسمار کردیا گیا تھا۔اب پاک آرمی کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں ایک شکایت سیل قائم کیا ہے جس کا اعلان میجر جنرل نعمان نے کیا ہے جو قبائل کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔معاشی لحاظ سے بھی قبائلی علاقے شدید پسماندگی کا شکار ہیں اور ایک سروے کے مطابق فاٹا میں غربت کی شرح 73%ہے کیونکہ یہاں کوئی انڈسٹریل زون نہیں ہے۔پہلے یہاں افغانستان کے ساتھ سرحدی راستے کھلے تھے تو قبائلی عوام کا معاشی گزارہ باہمی تجارت کے ذریعے ہوتا تھا گزشتہ سولہ سال سے وہ راستے بھی بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے قبائل مزید غربت اور بے روزگاری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔قبائلی نوجوان جو پڑھے لکھے ہیں اُن کا سب سے بڑا مألہ بے روزگاری ہے اور جب کوئی این جی او یا پراجیکٹ میں ملازمتیں آتی ہیں تو اُ س پر زیادہ تر غیر مقامی افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔کرم ایجنسی کے قبائل نے پشاور آکر جو احتجاج کیا اُن کے مطالبات یہ تھے کہ اُن کے مسمار شدہ گھرون کا معاوضہ دیا جائے۔ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے 18000ہزار خاندانوں کے ساتھ مالی امداد کیا جائے۔اور نادرا آفس اور کیڈٹ کالج کی منظوری دی جائے۔فاٹا کے عوام میں شرح خواندگی 17،فی صد تک ہے جبکہ صرف مہمند ایجنسی میں موجودہ دہشت گردی کے دوران 126سکول تباہ کر دیے گئے جن میں گرلز،بوائز کے پرائمری سے لیکر ہائی سکول تک شامل تھے جن میں بہ مشکل چھیالیس سکول دوبارہ تعمیر کیے جاسکے ہیں۔ دوسری طرف مہمند ایجنسی میں تین ایسی تحصیلیں خوئزئی ،بائزئی اورامبارہیں جہاں ہائی سکول تک نہیں بچے مڈل تک پڑھ کر باقی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔یہی صورتحال خیبر کے علاقہ تیراہ،باجوڑ کے علاقہ ماموند،چارمنگ،اور دیگر ایجنسیوں کے سرحدی علاقوں کی بھی ہے جہاں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس کی ایک وجہ سرکاری عملے کا یہاں ڈیوٹی انجام نہ دینابھی ہے۔ کیونکہ یہاں ابھی سرحد پار سے شدت پسندوں کی کارروائیوں کا خدشہ موجود ہے۔اسی طرح فاٹا کی جیلوں میں سہولیات موجود نہیں جس سے اکثرقیدی بیمار پڑ جاتے ہیں خصوصاً ہیپا ٹائٹس سی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایک مئلہ فاٹا میں میسنگ پرسن کا بھی ہے جس میں جو لوگ اٹھاکر لے غائب کر دیے گئے ہیں اُن کے ساتھ ملاقات تک کا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔ایک اہم انسانی حقوق کا مألہ یہ کہ مہمند ایجنسی میں گزشتہ ایک سال سے ہر قسم موبائل نیٹ ورک بند ہے جس سے سرکاری،غیرسرکاری،تاجر،دکانداراور عام لوگوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ستر سال سے پسماندہ رکھے ہوئے ان قبائل کو انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ ان علاقوں کو صوبہ پختونخوا کا حصہ بنایا جائے تاکہ ان کو عام پاکستانی جیسے حقوق،پارلیمنٹ میں قانون سازی،ہائی کورٹ،سپریم کورٹ تک رسائی اور معاشی ذرائع کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔پاک افغان تجارتی راستے کھول دیے جائیں اور فاٹا میں موجود معدنیات کے خزانوں سے فائدہ اٹھاکرقبائل کو روزگار دیا جائے۔اس کے علاوہ فاٹا میں ٹوورزم کے مواقع بھی موجود ہیں جو آمدن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments