Breaking News

پختونوں کے خون کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے:



(بہ شکریہ:  محمدارشد خان)
--------------------------------------------------------
میرے آبائی وطن مہمند ایجنسی سمیت قبائلی علاقوں اور دہشتگردی کے خلاف امریکہ کے نام نہاد جنگ سے متاثرہ دوسرے پختون علاقوں کے مظلوم اور آفت زدہ عوام کو نہ تو سیاسی مداریوں اور قوم پرستی کے نام پر ذہنی امراض کے شکار خود ساختہ وکیلوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی نیم حکیم قسم کے بظاھر "نیک نیت" رہبروں کی کیونکہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق جہنم کا راستہ نیک نیتی کے اینٹوں سے سجا ہوا ہے- تاریخ گواہ ہے کہ اپنے اقوام اور طبقات کیلئے کامیاب مقدمات صرف دلیل، اصول اور حقائق کے کے بنیاد پر ہی جیتے گئے ہیں اور یہی ہمارے قرآن کا سبق بھی ہے پھر چاہے لڑنے والا امریکا کا سپاہی جارج واشنگٹن ہو، ساوتھ افریقہ کے ضمیر کا قیدی نیلسن منڈیلہ یا پھر پاکستان کا وکیل بیرسٹر محمد علی جناح-

سوشل میڈیا پر کسی کتاب کا ایک پیراگراف یا پھر "ہمخیال کارکنان" کے نقل کردہ "اقوال زریں" پڑھ لینے سے کوئی کسی موضوع پر تجزیہ نگار نہیں بن جاتا جب تک کہ انکو متعلقہ علوم اور حالات حاضرہ کی کم از کم بنیادی آگہی نہ ہو- فاٹا باوجود پاکستان کے ایک محروم علاقوں میں ایک ہونے کے باوجود ١٩١٧-١٨ کے مالی سال کے دوران غریب پاکستان کے محدود وسائل میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں ٢٧ بلین روپے یعنی آج کی تاریخ میں تقریباً ٢٤٣ ملین ڈالر کا حقدار ٹہرا جو کہ عام حالات میں بھی فاٹا کی ضروریات کیلئے بہت کم ہے اور یہاں ہمارے دنیا سے بےخبر افلاطون اور پختونوں کے خود ساختہ وکیل امریکا کے فاٹا میں بحالی کیلئے دیے گئے ان چند ملین ڈالر کے حساب میں لگے ہوے ہیں جوکہ امریکا کے گندی جنگ اور افغان فساد کے نتیجے میں پاکستان میں فوجی آپریشنوں سے بے گھر ہونے والوں کی کیمپوں کا پہلے مہینے کا خرچہ بھی شائد پورا نہ کرسکا ہو- دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی مسلط کردہ جنگ جانی اور مالی لحاظ سے کتنی مہنگی ہے اور جنگ کے بعد تعمیر نو اور آباد کاری کا مطلب کیا ہے اسکا حال بلکل پڑوس میں افغانستان سے پوچھ لیں جہاں پر قابض فوج کو کسی کو آئ ڈی پی بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جانی نقصان کے ڈر سے امریکی افواج مشکل علاقوں میں زمینی فوج کے ذریعے قبضے کے بجاۓ ب-٥٢ جہاز سے "تمام بموں کی ماں" کو پھینک کر پورے علاقے کو "صاف" کرلیتی ہے- ابھی تک افغانستان پر تقریباً ایک ٹریلین یعنی دس لاکھ ملین ڈالر لگانے کے باوجود سواۓ بگرام جیسے عقوبت خانوں یا کابل میں قابض افواج اور انکے افغان کارندوں کیلئے بناۓ گئے نام نہاد "گرین زون" کے علاوہ تعمیر نو تو دور کی بات طالبان کا قبضہ تک ختم نہیں کیا جاسکا اور ٣ دھائیوں سے پاکستان میں مقیم ٣ ملین مہاجرین کی آباد کاری تو دور کی بات انکی واپسی ممکن نہیں بنائی جاسکی- یہ اتنی بڑی رقم ہے جو کہ امریکا کا دوسری جنگ عظیم کے بعد مارشل ایڈ پروگرام کے تحت تباہ حال یورپ کی تعمیر نو پر لگاۓ گیے سرماۓ سے زیادہ ہے اور اس میں افغان نیشنل آرمی کی تنظیم و تربیت اور مسلح کرنے پر لگاۓ گئے ٦٠ بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم بھی شامل ہے جو کہ پاکستان کے دس سال کا پورا دفاعی بجٹ بنتا ہے جس کے متعلق پتہ نہیں کون کون سے جہالت اور جھوٹ پر مبنی افسانے سننے کو ملتے ہیں- اس کے باوجود ١٦ سال کے جنگ کے بعد حال یہ ہے کہ امریکا کے پاس بہترین آپشن اپنی "عزت" بچا کر افغانستان سے نکلنا رہ گیا ہے جبکہ اشرف غنی افغان انہی طالبان کو ایک جائز افغان سیاسی جماعت قرار دیکر مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں جنکو ہمارے افغانی بھائی، انکے پاکستانی میں نام نہاد پختون قوم پرست ترجمان اور امریکی اور بھارتی بیانیوں کے دیسی لبرل علمبردار پاکستانی پراکسی کہتے رہے ہیں- اور ایک وقت میں افغان طالبان سے کہی زیادہ، سفاک، خونریز اور باوسائل پاکستانی طالبان کے بچے کچے دہشتگرد بھی افغانستان میں ہی چھپے بیٹھے ہیں- احتجاج کا قانونی حق اور انکے فوائد اپنی جگہ لیکن پاکستان میں فوج اور ریاست کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کارکردگی اور متاثرہ علاقوں میں بحالی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے حوالے سے کارکردگی کو اسی بین الاقوامی اور علاقائی تناظر میں ہی درست طور پر جانچا جاسکتا ہے-
دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغان اور پاکستانی عوام، خصوصاً پختونوں کے خون سے بہتی اس گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھو کا مال بنایا وہ بھی اس جنگ کے بدولت لوگوں کے مالی حالت اور معاشرتی مقام و حیثیت میں ظہور پذیر ہونے میں ظاہری انقلاب سے صاف ظاہر ہے چاہے وہ کسی زمانے سے آئ ایس آئ سے چند ہزار ماہانہ کا وظیفہ پانے والا اور موجودہ وقت میں ارب پتی حامد کرزئی یا امریکا کے زیر سایا افغان حکومتوں میں شامل دوسرے سابق جہادی کمانڈر ہو یا "پختون قوم پرستی" کے نام پر امن و ترقی کیلئے جدوجہد کیلئے مبینہ طور دبئی اور ملیشیا میں اکاؤنٹس رکھنے والے ہو، "انتہاپسندی" کے خلاف برسرپیکار تھنک ٹینک اور این جی او مافیا ہو، بین اقوامی ایواڈز اور اعزازی غیر ملکی شہریتیں یا پھر سیاسی پناہیں حاصل کرنے والے ہو اور یا پھربوجوہ ان سب سے زیادہ "بدنام" پاکستانی جرنیل جو سارے مل کر بھی نواز شریف یا زرداری کے کارندوں جتنی دولت کے مالک بھی شائد نہ ہو- ان دونوں "جمہوری" چوروں نے بہرحال تمام پاکستانیوں کے وسائل کو لوٹ یہ دولت بنائی کسی پختون کی سر کی قیمت لیکر نہیں- دہشتگردی کے خلاف جنگ سے قطع نظر، فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی صنعت، سیالکوٹ میں کھیلوں کی سامان کے کارخانے کیوں ہیں اور ننگرہار میں ہیروئن کی فیکٹریاں کیوں، مردان میں گنا اور تمباکو کیوں اگتا ہےاور ایشیا کا سب سے بڑا شوگر مل کیوں ہے اور کنڑ اور ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں پوست کیوں اگتا ہے، کراچی کا ملک کو سب سے زیادہ آمدنی دینے کے باوجود لاہور میں میٹرو اور اورنج ٹرین کیوں ہے، سائبیریا کیوں ماسکو کی طرح ترقی یافتہ نہیں نہیں وغیرہ وغیرہ الگ سوالات ہیں ان سب کا دہشتگردی کے خلاف جنگ یا سے کوئی فوری تعلق نہیں -
اسی طرح قبائلی علاقوں کے نام نہاد آزادی کے نام ایف سی آر کے کالے قوانین کی اپنی ایک پیچیدہ تاریخ اور انکے آج تک نفاز کے کئی تاریخی وجوہات ہیں جس میں پاکستان کی ریاست کی عمومی کوتاہیاں صرف ایک وجہ ہے- اس کو افغان جنگ یا پھر دہشتگردی کے خلاف حالیہ جنگ میں ریاست کے کسی ادارے کی مبینہ پالیسی کے ساتھ جوڑنا بغیر کھلے جھوٹ اور بنیاد پروپگنڈے کے ممکن نہیں اور نہ ہی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہمارے خطے پر مسلط کی گئی جنگ جیسے گندے کھیل میں ریاست کے خفیہ دفاعی اداروں کو مشکوک لوگوں کو ماوراۓ قانون حراست میں رکھنے یا پھر غائب کرنے کیلئے کسی ایف سی آر کی ضرورت پڑتی ہے- ان تمام سلگتے مسائل کو انکے اصل وجوہات کو سمجھے اور مانے بغیر نہ ہی انکا حل ممکن ہے اور نہ ہی انکے ریاستی اور غیر ریاستی ذمہ داروں کے خلاف کامیاب اور سیر حاصل جدوجہد ممکن ہے

No comments