Breaking News

پشتو گلوکارائیں کیوں قتل کردی گئیں ؟







(غلام حسین محب)
ایک انگریزمورّخ اولف کیرو نے کافی عرصہ پہلے پختونوں کی تاریخ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ’’ پختون فطری طور پر فن کے دلدادہ ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں لیکن فنکار سے نفرت کرتے ہیں‘‘ اُن کی یہ بات آج ایک صدی بعد بھی سچ ثابت ہورہی ہے جب پشتو زبان کے کی نامور فنکاروں،اداکاروں خصوصاً گلوکاروں کو بے دردی سے قتل کیا جاچکاہے۔تازہ ترین واقعہ مردان میں پیش آیا جہاں ایک اداکارہ اور رقاصہ سُنبل کوگھرمیں قتل کردیا گیا۔سنبل کے قتل کا الزام اُس کے دادا نے اُسی جہانگیرخان پر لگایا ہے جس پر ایک معروف گلوکارہ غزالہ جاوید کے قتل کا بھی الزام ہے جسے جون 2012ء میں پشاور میں اپنے والد کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔قتل جس نے بھی کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فنکار اورگلوکار جیسے بے ضرر اور لوگوں کو اس دہشت گردانہ ماحول میں تفریح اور مسرت کے چند لمحے فراہم کرتے ہیں۔سنبل سی ڈی ڈراموں اور رقص کی محفلوں میں اپنے فن کا جادو جگایا کرتی رہی ہے۔غزالہ جاوید خوبصورت آواز کے ساتھ دلکش شکل و صورت کی بھی مالکہ تھی۔سوات میں پیدا ہونے والی غزالہ جاویدنے کم عمری میں پشتو کے معروف اور مشہور گلوکاروں اور فنکاروں کی صف میں جگہ بنائی تھی
اور ریڈیو،ٹی وی اور سٹیج کے لیے بے شمار گانے گائے تھے۔غزالہ جاوید کے قتل کا دعویٰ اُس کی بہن نے غزالہ کے سابق شوہر جہانگیر خان پر کیا تھا اور اسی جہانگیر پر فنکارہ سُنبل کے قتل کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے۔یاد رہے کہ سنبل کے قتل کے ساتھ پشتوکے قتل ہونے والے فنکاروں کی تعداد سات ہو گئی ہے جو پشتو فن و ثقافت کے لیے قابل تشویش ہے۔اسی سال 9جنوری،2018کو ایک اور فنکارہ ’’بریشنا ‘‘ کوپشاور میں اپنے والد کے ساتھ قتل کردیا گیا جس کا الزام پولیس کے مطابق اُس کے عاشق علی اکبر آفریدی پر لگایا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ملزم نے موصوفہ کو شادی کی پیش کش کی تھی جس سے انکار پر اسے والد سمیت قتل کردیا گیا۔بریشنا یکہ توت پشاور میں رہائش پذیر تھی جو نجی محفلوں میں فنکاری اور رقص کرتی تھی۔اسی قافلے کی ایک اور فنکارہ ’’ یاسمین گل ‘‘ کو نومبر 2010میں کوئٹہ میں قتل کردیا گیا تھا۔پچیس سالہ اس فنکارہ کے قتل کا دعویٰ یاسمین گل کی والدہ نے اُس کے شوہر اوربہنوئی پر لگایا تھا۔فنکارہ یاسمین گل پاکستان اور افغانستان میں لوک گیتوں کے مشہور تھی۔جو کہ ٹی وی پروگراموں میں بھی مقبول تھی ۔قتل کے واقعے کے وقت وہ گھر پر تھی اورایک عرصے سے اُس پر پابندی لگائی گئی تھی۔
ایک اور فنکارہ ’’ انوش خان‘‘ کو 14مارچ2017کو اسلام آبادمیں نامعلوم افراد نے رات اندھیرے گھر میں گھس کر قتل کردیا تھا۔انوش گانوں کے ویڈیوز بنواتی تھی اور حسن و فن کے حوالے سے مشہور تھی۔وہ اصل میں مردان سے تعلق رکھتی تھی ۔اُس کا تین سالہ بچہ رہ گیا جبکہ
مردان میں اس کے رشتہ داروں نے لاتعلقی ختیار کرکے اُس کی لاش کو لینے سے انکار کیا تھا۔پشتو کی ایک اور خوبصورت آواز ’’ایمن اُداس‘‘ کو سال 2009ء میں پشاور میں خاموش کردیا گیا تھاوہ خود شاعرہ اور گلوکارہ تھی جس کے گانے اور غزلیں ریڈیو اور ٹی وی پر مقبول ہو چکے تھے جبکہ آج بھی لوگ شوق سے سُنتے ہیں۔میڈیا کے مطابق ایمن اداس نے مرتے وقت کہا تھا کہ اُسے اُس کے بھائی نے مارا ہے۔ وہ اپنے آواز اور انداز کے لیے مشہور تھی۔جبکہ یہ گانا انتہائی مقبولیت اختیار کرچکاتھا۔’’زما د مینی نہ توبہ دہ بیا بہ نہ کڑم مینہ‘‘ ۔ ادھر دہشت گردی کی لہر نے بھی فنکاروں کو نشانہ بنایا ہے جب سال 2009میں سوات میں ایک رقاصہ’’ شبانہ ‘‘ کو قتل کردیا تھا کئی فنکاروں کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور موسیقی کی محفلوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔جبکہ اکثر گلوکار اور فنکارملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جاکر رہائش پذیر ہو چکے ہیں۔جن میں شہنشاہ باچا،مسعود گل،شکیلہ ناز،وحید گل،فرزانہ،تاج اکبر اورشاہسوارشامل ہیں جن میں بعض اپنے فن سے توبہ کرچکے جبکہ بعض باہر جا چکے ہیں۔لیکن اب بھی ایسے فنکار موجود ہیں جو ہمت کرکے اپنے فن سے جُڑے ہوئے ہیں اور سٹیج ،ریڈیو ،ٹی وی پر پروگرام کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح فنکاروں کے عدم تحفظ کا خوف ابھی باقی ہے کیونکہ ابھی تک کسی فنکار کے قاتل کو سزا نہیں دی جاسکی ہے۔ اور نہ فنکاروں کے اعتماد کوبحال کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر خاطرخواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔۔




No comments