Breaking News

جب پولیس دہشت گرد بن جائے؟





                              (غلام حسین محب)
پاکستان کا پولیس اور تھانہ کلچر پہلے ہی بدنام ہے جبکہ راؤ انور جیسے بدکردار اور باوردی مجرموں کا کیا کیا جائے ۔ایک طرف کراچی کئی سالوں سے زخم خوردہ اورآگ اور خون میں رنگ چکا ہے جہاں بھارتی ایجنٹ ایڑھی چوٹی کا زور لگاکر پاکستان کے اس اہم شہر کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ ویسے سینکڑوں  بے گناہ لوگ اس شہرمیں غداروں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اب تک ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ کون محب وطن ہیں اور کون غدار۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ عام عادی مجرموں اور دہشت گردوں سے زیادہ پولیس سے خوفزدہ ہیں جن کا ایک حالیہ مثال راؤ انور کی مشکوک بلکہ مجرمانہ کارکردگی ہے جس نے نقیب اللہ محسود کے قتل کو پولیس مقابلہ قراردینے کی ناکام کوشش کی ہے حالانکہ ایک عام پاکستانی بھی بخوبی جانتا ہے کہ ایک شخص کو اٹھاکر دوسرے روز اس کی لاش برآمد ہو تو یہ صاف قتل کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔اگر پولیس کسی کو اٹھاکر گرفتار کرلیتی ہے تو پہلے تو اس کا وارنٹ گرفتاری ضروری ہوتا ہے اور جب پتہ چلے بھی کہ وہ دہشت گرد ہے تو اسے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے مارنا کس کے حکم سے ہو سکتا ہے۔نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ راؤ انور کراچی کے بھتہ خوروں کے گروپس کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اسی طریقہ واردات میں اب تک کروڑوں کما چکا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نقیب اللہ جیسے سینکڑوں بے گناہ شہدا کے خون کا بدلہ لیکر ایسے خونخوار اور ملک دشمن غدار پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے ورنہ انصاف کا خواب ادھورا ہی رہے گا اور کئی نقیب اللہ پولیس گردی کے بھینٹ چھڑتے رہیں گے۔    

                                                                                         (اللہ کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں )
                                                                                    (دوسرا حصہ تحریر: ساجد علی مومند)
ایس ایس پی کراچی ملیر دبنگ راو انور جو کہ اکثر ھائی پروفائل خودکش، دھشت گردوں اور ماسٹر مائنڈ کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے جھوٹے دعووں کے لیے نہ صرف مشہور تھا بلکہ انکی جھوٹی ایمانداری کی قلعی بالااخر کھل گئی اس طرح کے کئی واقعات میں صرف دھشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور پولیس پارٹی کے ایک اہلکار پر اج تک خراش نہ انا بھی پہلے ہی سے مشکوک اور جھوٹ پر مبنی مقابلوں کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں ایک قبائلی نوجوان نقیب محسود جو کہ وزیرستان میں حالات سے تنگ اکر زریعہ معاش کے لیے کراچی منتقل ہوا تھا تا کہ اپنے بچوں اور والدین کے لیے ایک وقت کی روٹی کما سکیں لیکن کیا پتہ کہ کراچی ملیر میں بدنام زمانہ پولیس افیسر اور دھشت گردوں کا یار راو انور جنکے ہاتھ پہلے سے بھی سینکڑوں افراد کے خون سے رنگے ہوۓ نظر اتے ہیں ایسے ظالم اور جابر کے ہاتھوں ایک جعلی پولیس مقابلے میں شہید کرنا راو انور کی ظلم بربریت اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کی خوب غمازی کرتا ہے کراچی میں اج تک جسقدر خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا اسمیں راو جیسے لوگوں کا شامل ہونا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اللہ کی لاٹھی بے اواز ہوتی ہے اور بالاخر دبنگ اور دھشت گردوں کا یار راو اللہ تعالی کی گرفت میں اگیا اب کوئی بھی سیاسی لیڈر یا اپنے عہدے کی نشے میں مست دبنگ کو نہیں بچا سکتا اور پھانسی کی رسی اسکے گلے میں پڑ جاۓ گی۔ اگر راو کو پھانسی پر لٹکایا جاۓ تا کہ انکے خاندان اور بچوں کو بھی دوسروں کی ناحق قتل اور انکے بچوں کی منہ سے نوالہ چھینے کا پتہ چل سکے





No comments