Breaking News

ترقی پذیر ملک کا زوال پذیر معاشرہ






(۔۔۔ شمس مومند) 

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو ملک جتنا ترقی کرے گا ، وہاں کے عوام میں سکون اور خوشی آئے گی، یعنی جس ملک میں تعلیم صحت اور کمیونیکیشن کی سہولیات بہتر ہوں گی وہاں کا معاشرہ اور عام عوام بھی اعلی اخلاقی اقدار کے حامل قانون کے پاسدار اور ایک دوسرے کے قدردان ہوں گے۔ لیکن افسوس ، کہ پاکستان کی حد تک صورتحال بالکل الٹ ہے۔ ملک جس تیزی سے مادی ترقی کر رہا ہے، معاشرہ اسی رفتار سے تنزل کی جانب گامزن ہے،تعلیم و تربیت کے ادارے جس تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں جہالت اور درندگی اس سے دگنی رفتار سے محو پرواز ہے، صحت کی سہولیات شہروں سے دیہات تک منتقل ہو رہی ہیں مگر نت نئی اور جان لیوا بیماریاں اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہوتی ہیں، ماسٹر ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز ، سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں مگر علم و دانش کی بجائے سطحیت جنم لے رہی ہے۔ سننے اور سمجھنے کے بجائے سنانے ور سمجھانے والے بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں سیاست دانوں کی بھرمار ہے مگر لیڈر ناپید ہیں۔ سیاست میں دلچسپی اور لیڈر بننے کے شوقینوں کا یہ حال ہے کہ اب سیاست دان زیادہ اور سیاسی کارکن کم نظر آتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قوانین پر قوانین بنائے جا رہے ہیں، مگر پہلے سے موجود قوانین پر عملدر آمد کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔
یاد کیجئے یا تو وہ زمانہ تھا کہ جب دور دراز کسی گاوں میں کوئی پولیس والا نظر آجاتا تو چور اچکے کھیتوں میں چپ جاتے ۔ آج حکومت کی عملداری اور قانون کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ ڈاکو اور دہشت گردوں کے خوف سے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی پوری پارٹی شہر کے مضافات تک جانے سے کتراتی ہے۔ فوج سے لوگوں کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب کوئی باوردی سپاہی بازار سے گزرتا تو لوگ اسے محبت سے دیکھنے کیلئے دکانوں سے باہر نکل آتے، آج فوجی سپاہی کو دیکھ کر لوگ منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ عدلیہ کا احترام تو ہر خاص و عام کے نس نس میں بھرا ہوا تھا کیونکہ اس دور میں ججز صاحبان انصاف صرف کرتے نہیں ،بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آرہا تھا آج عالم یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے جج ،چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنے فیصلوں کی صفائیاں دینا پڑ رہی ہے۔ خبر کی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی ادارے یا سرکاری ملازم کے خلاف اخبار میں ایک کالمی خبر بھی چپ جاتی، تو اگلے ہی روز اس کے خلاف انکوائری شروع ہوتی اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا۔ مگر آج اخبارات کی شہ سرخیاں تو درکنار ایک ایک شخص اور ایک ایک کیس کے متعلق نیوز چینلز پروگرام پہ پروگرام کر رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ علی ھٰذالقیاس، درجنوں مثالیں اور بھی موجود ہیں، مگر وجوہات کیا ہیں۔
وجوہات یہ ہیں کہ ہم نے مغرب کی پیروی اور لبرل بننے کے شوق میں خدا کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکال دیا کہ یہ آوٹ ڈیٹڈ نظریہ ہے مگر مغرب کی طرح قانون کا خوف کسی کے دل میں نہ ڈال سکے، کیونکہ ہم میں سے ہر طاقتورخود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے ، اور ہماری سیاست صحافت اور وکالت کا مقصد دوسروں کو حقوق دینے کی بجائے اپنے آپ کو طاقتور بنانا ہوتا ہے۔ ہم نے تعلیم کو کاروبار بنادیا اور کاروبار میں نفع و نقصان کو دیکھا جاتا ہے قوم کا مستقبل نہیں۔ ھم نے انسانوں پر سر مایہ کاری کرنے کی بجائے عمارتوں پر سرمایہ کاری کی، یہی وجہ ہے کہ عمارتیں تو خوبصورت اور دیدہ زیب بن گئیں مگر انسان اپنا پرانا حسن بھی کھو بیٹھا ، اور وہ ڈارون تھیوری کے برعکس اب انسان سے واپس جانور بن رہا ہے۔الغرض جب تک ہم عمارتوں کی بجائے انسانوں پر سرمایہ کاری نہیں کرینگے، اور قانون سب کیلئے کا نعرہ حقیقت نہیں بنایینگے ہر روز کسی نہ کسی معصوم بچی زینب یا عاصمہ روتے رہینگے یا نقیب اللہ محسود کے بیگناہ قتل پر احتجاج کرتے رہینگے۔ اس لئے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سن لے، کہ زینب عاصمہ اور نقیب محسود پہلے بے گناہ نہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے، مگر اسے آخری بے گناہ مقتول بنانا آپ لوگوں کے اختیار میں ہیں۔سب ملکر قاتلوں کو ایسی عبرت کا نشان بنائے کہ کل کسی اور کو ایسا سوچنے کی ہمت بھی نہ ہو۔ ورنہ قیامت کے روز ان بے گناہوں کے خون آپ کے دامن پر ہونگے۔


1 comment:

  1. ہمارا واحد معاشرہ ہے جو جدت پسندی سے قدامت پسندی کی طرف رواں دواں ہے۔ جہاں دنیا میں ادارے مضبوط ہو رہے ہیں ۔ ہم ان کو تباہ کر رہے ہیں۔ تعلیم اب پریکٹس بن گئ ہے اور ہم رٹے لگا رہے ہیں ۔ خوب لکھا آپ نے کہ خدا خوفی جوڑ کر مغرب کو پکڑا ۔ نہ اس کو چھوڑ سکے نہ اس کو نبھا سکے

    ReplyDelete