پاکستانی پولیس نظام ایک دھبہ

پولیس نظام کوجاگیرداروں اور سیاستدانوں کی گرفت سے آزاد کرنے کی ضروت ہے
(غلام حسین محب)
بچپن میں ریڈیو پر پولیس کے حوالے سے ایک گانا سنتے تھے ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ،،کرے دل سے ان کی مدد آپ بھی‘‘۔یہ گانا سن کر بہت خوش ہوتے اور ایک قسم کا جذبۂ حب الوطنی ابھرنے کا احساس ہوتالیکن بعد میں جب ہم اس ملک کے نظام کو سمجھنے کی عمر کو پہنچے تو فلموں، ڈراموں اور شاعری میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنتے دیکھا تو وہ بھی پو لیس ہی کا محکمہ تھا۔آج ہم جس یورپ کی مثالیں دیکر نہیں تھکتے وہاں کے معاشرتی بیماریوں کی روک تھام اور ایک پرامن نظام کے قیام میں سب سے زیادہ حصہ پولیس ہی کا ہے۔اور ساتھ ہی ایک دلچسپ اور قابل فخر بات یہ ہے کہ پولیس محکمے کے قیام کا سہرہ معروف مسلمان خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے سر جاتا ہے جنہوں نے پولیس کا نظام متعارف کرکے ایک مثال نظام حکومت کی بنیاد رکھی۔چونکہ معاشرتی خرابیوں اورسٹریٹ کرائمزکی ابتداء گھروں،قصبوں اور شہروں سے ہوتا ہے اس لیے ان کو قابو کرنے اورقلع قمع کرنے لیے پولیس ہی کا کرداربنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔اس وقت جب پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں کے نشانے پر ہے اندرونی طور پر بھی مصائب اور مشکلات کا شکار ہے۔ان مشکلات میں تمام انگلیاں پولیس کی طرف اٹھتی ہیں کیونکہ آج تک کوئی کم ہی ایسا کارنامہ ہوگا جس پر پولیس کو شاباش دی جاسکے بلکہ قانون کے رکھوالے ہی جب قانون شکن اور مجرموں کا آلہ کاربنے تو ملک کا خدا ہی حافظ۔گزشتہ چند سالوں میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں ان کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔اس حوالے سے پنجاب اور سندھ پولیس کا چہرہ بہت داغدار نظر آتا ہے۔ان صوبوں میں پولیس سے وہ کام لیاجاتا رہا ہے جو کرائے کے قاتل کرتے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق دوہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ تک دوہزار چھپن پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے ہیں ۔اس میں کتنے اصلی اور کتنے جعلی تھے یہ اپنی جگہ مگران مقابلوں میں ’’تین ہزاردو سو تریسٹھ ‘‘ افراد جانیں گنوا بیٹھے۔جبکہ ان مقابلوں میں پولیس اہلکارجو ہلاک ہوئے ان کی تعداد’’ ایک سو تریالیس‘‘ بتائی گئی ہے۔ان مقابلوں کے لیے باقاعدہ انکاونٹرسپیشلسٹ پولیس آفیسرز کے نام سامنے آئے ہیں ۔پنجاب کے اکثر اضلاع جبکہ قصور خصوصی طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف صرف کراچی شہر میں گزشتہ سال دوسو اٹھاسی پولیس مقابلے ہوئے جن میں ایک سو انیس افراد مارے گئے لیکن دلچسپ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی پولیس اہلکار ہلاک نہیں ہوا البتہ سات پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔اس طرح کے مقابلوں کے ہوتے ہوئے شکوک وشبہات ضرور جنم لیں گے۔پولیس مقابلون کی روایت پرانی ہے اور ایک عرصے سے بااثر وڈیرے،خان اور چودھری پولیس کو اپنے دشمنوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے جرائم کے خاتمے کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے غریب اور تھانہ کچہری میں بے بس افراد ہی ہوتے ہیں۔گزشتہ جند سالوں کے مقابلوں میں ایسے بھی ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی لقمۂ اجل بنے۔ان مقابلوں میں قانونی تقاضے کہاں تک پورے کیے گئے یہ سوال ہمیشہ کی طرح تشنہ ہی رہے گاکیونکہ پولیس کی بات پر یقین کرنا پڑتا ہے اور آج تک پولیس کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی جس سے آئندہ ان کی اصلاح ہو سکے۔پولیس آفیسرز کے مطابق پراسیکیوٹرنظام میں خامی اور اکثر مجرم عدالتوں بہ آسانی رہائی پاتے ہیں، اس لیے ہمارے پاس یہی آسان راستہ رہ جاتا ہے کہ انکاونٹر کے ذریعے بات ختم ہو۔ ڈاکو اور دہشت گردوں کا ہمارے ہاں علاج یہی رہ جاتا ہے۔ بعض دفعہ سیاسی اشیر باد اور شاباس ملتی ہے۔راو انور جیسے لوگوں کو حکومتی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملتی رہی ہے اور وہ اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں۔راؤانورجو فرار اور روپوش ہے کے خلاف کمیٹی کی رپورٹ سامنے آچکی ہے کہ وہ 444لوگوں کوان کاونٹرمقابلوں میں مار چکاہے ۔اتنے بڑے قاتل کے خلاف بلاول بھٹو نے بھی کہا ہے کہ اس قسم کے واردات ختم ہونے چاہیے اور ایسے جعلی مقابلوں کی روک تھام کے لیے اقدامات ضروری ہیں حالانکہ کہا جاتا ہے کہ راؤانور کو زرداری کی آشیرباد حاصل تھی۔اگر ایسا ہے تو راؤانور کی گرفتاری میں ایسے ہی بااثر لوگوں کو شامل کرنا چاہیے ۔اب یہ بات کہ جن مجرموں کو عدالتوں سے سزا نہیں ملتی انہیں پولیس ماردیتے ہیں۔حالانکہ پولیس یا سیاسی لوگ اس کے مجاز نہیں کہ کسی کو ماردے کیونکہ یہ کام عدالتوں کا ہے ۔یہ واویلا اور پولیس کا اصل چہرہ تو نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد سامنے آیا اور اسی طرح کراچی میں انتظارنامی نوجوان کیس میں تو پولیس نے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کیا۔جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی بلکہ پولیس نے مخالف لوگوں سے پیسے لیکر ماردیا۔ مگر یہ حقائق تو تب سامنے آئے جب عوام نے سوشل میڈیا پر شور مچایا،اآرمی چیف قمر باجوہ نے ایکشن لیا اور سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔یہ دیکھتے ہوئے ہم یہ سمجھیں کہ کوئی ادارہ صحیح کام نہیں کرنا چاہتا جب تک عوام چیخ نہ اٹھے۔ ایسے کیسزمیں غیر اآفیشلی کہاجاتاہے کہ کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے لیکن آفیشلی جان بچاتے ہیں کہ یہ تو ہم پر اٹیک کرنے والے تھے۔انکوائری کرنا اور ثبوت فراہم کرنا پولیس کا کام ہے مگر اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہر قتل کو پولیس مقابلہ کہا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کے ساتھی چھڑانے آئے تھے مقابلہ ہوا اور مار گیا۔نقیب اللہ کیس میں ایک معصوم شخص اٹھاکر مار دیا۔پاکستان پولیس کی تربیت ایسی جدید خطوط پر ہو کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھیں۔پولیس کو سائنسی اور نفسیاتی طور پر تربیت کی ضرورت ہے کہ ملزم کو پہچان سکے۔ مجرم یا بے گناہ ہونے کا اندازہ ہو سکے۔ابھی تک کسی طاقتور یا امیر شخص کوایسے مقابلوں میں نہیں مارا گیا۔ قصور میں میڈیا کے مطابق بے شمار واقعات ایسے ہوئے کہ کوئی جرم کا ریکارڈ نہیں مگر مارا گیا۔جن کا سوشل اپروچ نہیں ہوتا وہ ہار جاتے ہیں، جیساشاہ زیب کیس میں ہوا۔اب تو شہراں میں سی سی ٹی کیمروں کی بہتات ہے مگر باوجوداس کے کوئی خاطر خواہ پولیس کارکردگی دیکھنے میں نہیں آتی۔حالانکہ اب جدید اسلحہ اور گاڑیاں فرہم کر دی گئی ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کیا جائے۔پولیس کو سیاسی اثر سے پاک کرکے ان کو عوام کی مدد اور حفاظت تک محدود کیا جائے۔اس کے لیے پولیس پر چیک اینڈ بلنس ضروری ہے۔اس وقت سب سے موثر آواز میڈیا کی ہے اگر وہ آواز نہ اٹھائے اور عوامی زورو شور نہ ہو۔ سوشل میڈیا،آرمی اور سپریم کورٹ سے آوازنہ اٹھتی تو زینب کیس میں جان نہ پڑ گئی ہوتی اور یہ کیس بھی سال 2015کی طرح دب جاتا جب سینکڑوں بچوں کے جنسی واقعات اور ویڈیوز سامنے آئے مگر پھر وہ کیسز ایسے بے جان ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔پولیس نظام جاگیرداروں اور سیاستدانوں کی گرفت سے آزاد کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی حکومتیں زیادہ ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے ان دو صوبوں میں کافی عرصہ حکومت کی۔۔۔۔
تین سو چوالیس سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈہیں مگر کسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں۔
No comments