Breaking News

مشروم (کھمبی) اگایۓ صحت اور دولت پایۓ







ہزاروں لوگوں کے روزگار اور ملک کیلئے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ
مشروم کو اردو میں کھمبی کہتے ہیں یہ ایک پھپھوند ہے جو راتوں رات اُگتی ہے۔ اس کی تعریف عظیم ماہر نباتات تھیوفراسیٹین نے کچھ اس طرح سے کی ہے۔” کھمبی ایک عجیب پودا ہے جس کی جڑ تنا شاخیں ، پتے اور پھول نظر نہیں آتے مگر پھل پھر بھی دیتاہے” ۔اس کا بیج بالکل باریک ہوتاہے جو پک کر گر جاتاہے۔ اور یوں سازگار موسم اور نمی میں پھوٹتاہے اور یوں کھمبی راتوں رات نکل آتی ہے۔ ہمارے علاقوں میں اس کی جنگلی اقسام خاص کر مارچ، اپریل میں نکلتے ہیں اور اس جنگلی قسم کو Morels کہتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کے روزگار اور ملک کیلئے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں ایک قسم بغیر کسی بیرونی مدد کے صف انسانی آنکھ سے نظر آتی ہے ۔اور ان کو میکروفجی کہتے ہیں اور دوسری جو خوردبین سے نظر آتی ہے اس کو مائیکروفجی کہتے ہیں۔ اس کی خوردہ اقسام ایک لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے صرف 150 کھانے کے قابل ہیں ان میں 50 کے قریب بے حد لذیز اور ذائقہ داراور 50 کم لذت والی ہیں۔
کھمبی کی ابتداء۔: مشروم کی کاشت ازمنہ قدیم سے ہورہی ہے۔ جس کے بارے میں آج سے 13000 سال قبل بھی بتایا گیا ہے۔ مشروم کے آثار قدیم زمانے میں چلی کے کھنڈرات سے بھی ملے ہیں۔ چینی سب سے پہلے لوگ ہیں جو مشروم کو بطور غذا استعمال کرتے تھے اور اس کو لمبی عمر کا راز کہتے تھے۔ زمانہ قدیم میں ایک اعلی ڈش کے طور پر بادشاہوں اور جرنیلوں کے دربار کی زینت رہی ہے۔ پرانے زمانے میں یونانی اور رومی اس کو اچھی خوراک سمجھتے تھے۔ رومی بادشاہ سیزیر اس کا دل دادہ تھا۔مشروم کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی بنی نوع انسانی کی اپنی تاریخ ہے۔ کہ مشروم کی ابتداء آغاز کائنات سے منسلک ہے اور انسانی قدموں نے مشروم کے ظہور کے بعد ہی زمین کو چھوا ور ہر سہولت سے محروم آتش شکم کی پیاس سے مجبور یہ انسان سیرابی شکم کیلئے کوشاں تھا۔ انسان نے جب پہلی بار اس کو چکھا تو اس کے ذائقہ اور خوشبو پر دل دادہ ہوگیا۔ مشروم پہلی مرتبہ اتفاقیہ غذائی استعمال میں شامل ہوئی اور انسان کوایسی نعمت غیر متروقیہ ملی کہ اسے مستقل غذا میں شامل کرلیا گیا۔ اُس وقت انسان اس کے فوائد اور خواص سے لاعلم تھا۔ مگر اس کے لذیذ خوش ذائقہ اور لطیف خوشبو سے مجبور ہوکر ہر قسم کی مشرومز کو آزماتا گیا۔مشرومز اور انسان کا گٹھ جوڑ ازمانہ قدیم سے ہی نظر آتا ہے اور یہ ساتھ اتنا پرانہ ہے کہ تاریخ بھی اس مسئلے میں مہر بلب ہے اور قدیم دور میں جب پتھروں کے اوزار استعمال ہوتے تھے۔ شکار پر گزارہ تھا اور فصلوں کی کاشت کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی یہی مشروم کسی نہ کسی حیثیت میں ضرورت انسانی کی تکمیل کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی رومی، چینی، اسلامی اور سنسکرت لٹریچر میں اس کے استعمال کا تذکرہ ملتاہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشرومز کی اہمیت مزید واضع ہوگئی۔ مشروم کبھی خوراک کے طور پر کبھی ادویات کے طور پر کہیں رومانی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ لیکن نئے سائنسی تجربات، تحقیقی حقائق کے بعد اس کی قدرتی بالیدگی اور دیگر اسرار جو سربستہ تھے۔ منظر عام پر آگئے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ اب اس کی مقبولیت کی انتہا ہوچکی ہے اور تمام دنیا میں اس کی دھوم ہے۔ مشروم دنیا کے کئی ممالک میں بہت بڑا کاروبار اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ گھریلو صنعت کے طور پر اُبھررہی ہے۔مصر کا فرعون اس کو درازی عمر کیلئے راز سمجھتاتھا اور اس کو شاہی دسترخواں تک محدود کررکھا تھا اور اس زمانے میں عام لوگ اس کے استعمال کی جسارت بھی نہ کرسکتے تھے۔ اہل روم نے بھی اس کو اعلیٰ شخصیات اور صرف رومی شہنشاہوں اور افواج کیلئے مخصوص کردیا۔ کیونکہ اس وقت بھی ان کا خیال تھا کہ یہ غیر معمولی قوت عطا کرتی ہے۔ امریکہ میں 18 ویں صدی عیسوی میں مشروم کی کاشت شروع ہوں اور اس کے لئے بیج میکسیکو سے لیا تھا۔
مشروم بلحاظ مذھب ۔: مشروم کوجنتی سبزی یا جنتی غذا بھی کہا جاتاہے کیونکہ من و سلویٰ نامی غذا جو ر ب کریم کی طرف سے بنی اسرائیل کیلئے اتاری گئی تھی۔ اس میں مشروم کی شمولیت مشکواۃ شریف سے واضع ہے اس لحاظ سے ایک منفرد غذا ہے۔ جو جدید تحقیقی حقائق ثابت کرتے ہیں وہ انمول مشروم جو من و سلویٰ کا ایک جزو تھی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اس دنیا میں قدرتی طور پر اگتی ہے۔ بہت سے ملکوں جیسا کہ وسطی امریکہ، میکسیکو، چین، سائبریا، یونان ، روس اور ہندوستان وغیرہ کی تہذیبوں میں بھی کھمبی کو مذہبی رسومات میں اہم مقام دیا گیا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مشرومز کے استعمال سے ایسی عجیب اعجازی قوت عطا ہوتی ہے۔ جس سے گمشدہ اشیاء دستیاب ہونے کے علاوہ انسان عالم بالا تک سیر کرلیتاہے۔یورپین لوگ خود مشرومز کو زمانہ قدیم سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سولہویں صدی کے انگریز شاعرہرمن نے بھی شاعری میں مشروم کی تعریف کی ہے اور آج بھی اہل یورپ چھٹی کے روز ٹوکریاں تھامے جنگلوں اور کھیتوں میں سارا سارا اون مشروم کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں جسے وہ مشروم ہنٹنگ کا نام دیتے ہیں۔علاقائی لوگ اس کو جم کرکے دھاگے میں پروکردھوپ میں خشک کرنے کے بعد خاصے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ کس طرح مل سکتی ہے ان علاقوں میں اس کے شائقین اور متلاشی اس کے اگنے کے موسم میں اس کی تلاش میں سرگردان نظر آتے ہیں۔ علاقائی لوگ اس مشروم کو سکھا لیتے ہیں جیسے اور سبزیوں کو سکھایا جاتاہے اور دیگر اشیاء کی مانند چھوٹے چھوٹے دکانداروں کے ہاتھ مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ آڑھتی لوگ اس قیمتی کھمبی کو چھوٹے چھوٹے دکانداروں سے خرید کر بڑے بڑے برآمد کنندگان کے ہاتھوں معقول رقم کے عوض فروخت کرتے ہیں جو بالاآخر اسے دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کرتے ہیں ہمارے ہاں اس کی قیمت 3000 روپے سے لیکر 4000 روپے تک فی کلو ملتی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت مزید دگنی ہوجاتی ہے۔

قدرتی کھمبی کی پہچان۔
یہ شکل و شباہت میں چھو ہارے سے ملتی جلتی ہے اس کا رنگ ہلکا اور گہرا خاکستری یاہلکا بھورا ہوتاہے۔ ان کی بعض اقسام ہلکے رنگ کی بھی ہوتی ہیں۔ بعض گہرے رنگ کی جنگلی علاقوں وہ حصہ جہاں پریہ اگتی ہے وہ بھی اسی رنگ کا ہوتاہے۔لہٰذا اس کی تلاش مشکل ہوتی ہے اس مقصد کیلئے بعض علاقوں میں مخصوص قسم کا کاجل بنایا جاتاہے۔ تاکہ بینائی تیز ہو اور اس کی پہچان آسانی سے ہوجائے یہ کوئی سائنسی طریقہ نہیں بلکہ ایک روایت ہے ان علاقوں میں اس کی تلاش کیلئے بعض مخصوص لوگوں کی خدمات بھی حاصل ہوجاتی ہیں مخصوص لوگ وہ ہیں جن کی بینائی اس مخصوص رنگ کیلئے زیادہ حساس ہوتی ہے اور اس طرح ان کی خدمات سے کم وقت میں زیادہ مشروم اکٹھی ہوسکتی ہے۔ زہریلی مشروم کیا ہے؟   زہریلی مشروم انسانی صحت کیلئے غیر موزوں ہے اردو ادب میں زہریلی مشروم کی اقسام کو ” سانپ کی چھتری” اور انگریزی ادب میں ” مینڈک کا فضلا” کہا جاتاہے۔ اس میں زیادہ زہریلی اقسام کو تباہی کا فرشتہ، موت کی ٹوپی اور موت کا فرشتہ جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتاہے۔
زہریلی مشروم کی خوبصورتی۔: یہ عموماً خوبصورت اور دلکش رنگوں میں ہوتی ہے بعض تو اتنی خوبصورت ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کی نظر اٹک جاتی ہے اور قدرت کی اس اضافی خوبصورتی کو بے اختیار داد دینے کو جی چاہتاہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ زہریلی مشرومز زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر وہتی ہیں کہ لوگ ان کی طرف لپٹ پڑتے ہیں اور بغیر کسی حیل وجحت کے ان کو نوش کر جاتے ہیں۔ ایک زہریلی مشروم Fly Agaric جس پر اگر مکھیا ں بیٹھ جائیں تو مر جاتی ہیں اس طرح انسان بھی کھمبیوں کا شکار ہوجاتاہے۔
زہریلی مشروم کی پہچان۔
زہریلی مشروم میں چھتری کا نچلا حصہ اس کے نوزائیدہ حالت اور نشوونما مکمل ہونے کے بعد سفید رہتاہے۔ اس کے تنے پر ایک چھلا ہمیشہ موجود رہتاہے اور تنے کے اختتام پر ایک تھیلا نما چیز ہوتی ہے جسے تھیلا ہی کہتے ہیں۔ تمام زہریلی مشرومز مہلک نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں موجود انتہائی زہریلی مشرومز کے AMANITA گروپ میں موجود انتہائی زہریلی مشرومز کھانے سے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے ان میں موجود مشرومز کی چھتری کا تنا کافی بڑا ہوتاہے۔ اگر تنے کا کچھ حصہ زمین میں رہ جائے تو تھیلا نظر نہیں آتا لہٰذا اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
زہریلی مشروم کی اقسام۔
موت کا فرشتہ۔
اس کو انگریزی میں AMANITA MUSCARIA کہتے ہیں۔ فلائی مشروم اور سائنسی اصطلاح میں اس کو ڈیتھ اینجل کہتے ہیں۔ اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔ اس کو مختلف اقسام میں چھتری مختلف رنگوں میں کی ہوتی ہے۔ بعض میں یہ چھتری سفید ہوتی ہے بعض کھمبیوں میں پیلی بعض میں مالٹے رنگ اور بعض میں بلڈریڈ کی ہوتی ہیں سفید تنے پر رنگیں اور حسین چھتری جو عموماً سفید نشانات سے سجی ہوتی ہیں بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ قسم موسم گرما اور خزاں کے دنوں میں امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے مختلف مقامات پر بھی ملتی ہیں اور نشوونما کے مکمل ہوجانے کے بعد بڑ ی آسانی سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس میں قدرت نے جزام کا علاج رکھا ہے اس کے الکلد بڈ سے مرگی کے علاج کیلئے دوا تیار کی جاتی ہے۔ جو شفا کا درجہ رکھتی ہے۔ اعصابی   
مشروم کی غذائی اہمیت۔
کھمبی کی دیگر اقسام کی طرح یہ بھی بہت سی غذائی اہمیت کی حامل ہے۔ پروٹین35-30 فیصد کے علاوہ وٹامن بی دو تھائیامیں، نائیسن، رائیبو فلوین، وٹامن جی اور وٹامن ای پائی جاتی ہے۔یہ وٹامن پکانے، جمانے یا کین کرنے سے ضائع ہوجاتی ہے۔ کیلشیم، فافسفورس اور دیگر نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے یہ جسمانی ساخت کیلئے مفید ہے۔ اس میں نشاستہ اور روغنیات بہت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جس بنا پر شوگر اور دل کے امراض اور غریب لوگوں کیئے مثالی غذا ہے اور وہ خواتین جو اپنے آپ کو سمارٹ رکھنا چاہتی ہیں بغیر ڈائٹنگ کئے مشروم استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ ان گوناگوں خاصیتوں کے علاوہ یہ ذائقہ اور خوشبو کی بنا پر شمار کی جاتی ہے اور یوں یورپین ہر سالن میں مشروم ڈال کر پکاتے ہیں اور میزبان اپنی مہمان نوازی سے مرغوب کرنے کیلئے مشروم کا سالن کھانے کی میز پر ضرور چنتے ہیں۔
مشروم کی اہمیت۔
کھمبی ایک انتہائی نفع بخش فصل ہے جیسے سورج کی روشنی کی غیر موجودگی میں مخصوص درجہ حرارت اور نمی کی موجودگی میں تیار کیا جاتاہے۔ یوں تو پاکستان میں مصنوعی طریقہ کاشت کیلئے یورپی کھمبی، صدف نما کھمبی پرائی کی کھمبی اور شاہ بلوط کی کھمبی اہم کھمبی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے اپنے ملک میں کھمبی کا استعمال پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی کیلئے مصنوعی طریقہ سے پوری کھمبی اور شاہ بلوط کی کھمبی تیز قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی کھمبی مشروم کی پیداوار میں استعداد بڑھائی کی جائے تاکہ وطن عزیز کیلئے اس فصل سے زرمبادلہ کا حصول بھی ممکن ہوسکے۔
مشروم کی معاشی اہمیت۔
کھمبی کی غذائی افادیت جاننے کے بعد آپ بخوبی یہ اجذ کرسکتے ہیں۔ کہ اس کی معاشی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں ہے ہمارے ہاں پروٹین کی کمی ہے اور ان حالات میں کھمبی پر ہی ہماری نظر جاتی ہیں اور اگر کھمبی کی کاشت ہماری خواتین گھروں میں کریں تو نہ صرف وہ تازہ کھمبی حاصل کرسکتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کو سکھا کر فروخت بھی کرسکتی ہیں یوں اپنے بچت کرسکتی ہیں۔ اس کیلئے بہت بڑ جگہ کی ضرورت بھی نہیں اس ضمن میں زرعی ریسرچ ڈھوڈیال نے خواتین کو تربیت بھی دی ہے اور بیج بھی فراہم کیا اور اس طرح خواتین مشروم کی کاشت گھریلو پیمانے پر رواج دے رہی ہیں۔ زرعی ماہرین نے یہ بات ثابت کردی ہے۔ کہ ایک قیمتی فصل کے طور پر کھمبی ہمارے ہاں جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ایک مربع میٹر کی جگہ سے تقریباً آٹھ کلو تازہ مشروم میسر آتی ہے اور اگر نئی ٹیکنالوجی اپنائی جائے تو سال میں اس کی پانچ فصلیں میسر آتی ہیں اور سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ کچرے کا استعمال ہوتاہے اور یوں ماحولیاتی آلودگی پر بھی اس کا اثر پڑتاہے معاشی ترقی کیلئے ہمیں چائیے کہ مشروم کی کاشت کریں اور منافع کائیں اپنے لیے بھی استعمال کریں اور باہر کے ممالک کو بھی بھیجوائیں اس ضمن میں ایکسپورٹ پروموشن بیورو تعاون کئے ہوا ہے۔

2 comments: