Breaking News

سوشل میڈیا اورکشمیری لیڈر گیری








تحریر ۔۔(انور حسین ماگرے)
اج اس اکیسویں صدی کو سوشل میڈیا کا دور کہا جاتا ہے لیکن ہم لوگ اس دور سے بھی میلوں دور ہیں آخر کیوں؟ِ
آجکل کشمیر میں واٹ اپس کا استعما ل عام ہے ہمارے لوگوں میں لوگ برادری کے نام پر گروپ بناتے ہیں پھر برادری کی ترقی کی راہیں دیکھاتے ہیں اور حتی کے برادری کے نام پر پیسے تک بٹورے جاتے ہیں کچھ واقع اچھے کاموں میں لگا رہے ہیں اور کچھ راے گاہ چلے جاتے ہیں تھوڑے دن بڑے جذبات سے ایک دوسرے کو دھات دیتے ہیں اور جب کسی کی بات سنی جانے لگے تو فورا سب لیڈر بننے لگتے ہیں جس سے تو تو میں میں اور بات بحث تک چلے جاتی ہے جس کے نتجہ میں کچھ کم پڑھے لکھے یا لا شعور ایک دوسرے کو گالیوں کا معمول بنالتے ہیں جس سے نہ کے اس برادری کو نقصان ہوتا ہے بلکے پوری کشمیری قوم کا نقصان ہے
سوال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہم سوال کا جواب ہی نہیں ہی نہیں ہرتا سوال وہی قومیں سنتی ہیں جو شعور رکھتی ہیں ہم گالیاں دے کر وقتی گڈی اونچی کرلیتے ہیں یا جان تو چھوڑا لیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کے انے والے کل اس کے اثرات باقی رہ جاہیں گیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کے گالیاں وہ لوگ دیتے ہیں جن کے پاس دلیل نہیں ہوتی کچھ ایسے احمق بھی ہیں ان کا بس جب اپنے کسی بڑے پر نہیں چلتا وہ دوسرے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں کسی اپنے کو بدنام کرنے کے لیے اگر کسی کا ذاتی لین دین ہو اس کو بھی مارکیٹ کرتے ہیں تاکہ اپنی بےوقوفی کی مثال دیں سکیں اور کچھ تو اپنے باپ داد کا نام لے لے کا تعروف کرواتے ہیں کے میرا دادا نمبردار تھا میرا ڈوگرے کا سیکیورٹی گارڈ تھا کوئی کچھ کوئی کچھ اور کچھ بیرونی ملک کے رشتہ داروں کے پتہ نہیں جو باہر ہے وہ کس حال ہو اور پھرکچھ چند نوجوانوں کو جو ان کے راشتہ یا اپنی بےوقوفی سے جذباتی ہو کر استعمال میں آجاتے ہیں ان کی بات اور قابل دید ہوتی ہے .... واہ کے اپ کے ساتھ کون کسی برادری اور قوم ہے حیرت کی بات ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کے برادری یا قوم ہماری نہیں بلکے ہم سب کی ہوتی ہے دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجاے حوصلے سے اگر ہم سن اور سمجھ لیں تو بہیت سے مسئاہل کا حل نکل جاتا ہے
غلطی کرکے ڈٹ جانا انسان کا کام نہیں شطان کا کام ہے انسان نے تو عاجزی قبول کی تھی تب بھی
کسی بھی ایشو پر سوال اٹھایا جاے یا کوئی بھی اٹھاے اس کا جواب اگر ہمارے پاس نہیں یا ہم واقع غلط ہو تو تسلیم کر لینا چاہیے نہ کے ڈٹ کے گال گلوچی کرنی چاہیے
ہم یہ نہیں سوچتے کے انے والے کل اس کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں سوال کا جواب دینا چاہے نہ کے گال گلوچی کرنی چاہیے اللہ پاک نے ہمیں اشرف امخلوقات بنایا ہے سوچ دی ہے
۔۔۔۔خدارا خیال کرو ۔۔۔
ہم کشمیری اگیے اتنے بڑے مسائل کے شکار ہیں ان کا حل نہیں نکل رہا اوپر سے اپ جسے نوجوان اگر ان پارٹیوں اور ان لوگوں کے ا ستعمال میں رہے یا ان کے لیے ٹائم ضایع کرتے رہے تو ہم کشمیر کی آذادی تو کیا ہم اپنے اپ سے بھی شرمندہ نہ ہوں

No comments