Breaking News

پاک افغان تعلقات بحالی میں چین کا کردار

پاک افغان تعلقات بحالی میں چین کا کردار



                                                                                                                     ’’ غلام حسین محب‘‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ عرصہ پہلے افغانستان کا ایک روزہ دورہ کیاتھاجہاں انہوں نے افغان صدراشرف غنی سے تفصیلی ملاقات اور بات چیت کی۔اس دورے کوپہلی بار افغانستان کی طرف سے بھی خوش آئند قرار دیا جارہا ہے جبکہ اشرف غنی نے کافی حد تک اسے حوصلہ افزاء بتایا ہے تاہم اشرف غنی کے اس بیان کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ پاک افغان تعلقات قیام پاکستان سے ہی بحران اور عدم اعتماد کا شکار رہے ہیں۔پاکستان کی ہر حکومت نے اسے بحال کرنے اور باہمی اعتماد سازی کے لیے کوششیں کیں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔اشرف غنی نے جب اقتدار سنبھالا تو پہلا دورہ پاکستان کا کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ افغانستان پاکستان کو ترجیح دیتا ہے مگر پاکستان دورُخی کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے۔اُن کے اس دورے کے تھوڑے عرصے بعد افغانستان پھر ناراض ہوگیااور پھرسے پاکستان پر الزامات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔دونوں ملکوں کے درمیان یہ آنکھ مچولی کب تک جاری رہے گی۔نائن الیون سے پہلے افغانستان کا دیرینہ شکوہ اورمطالبہ ڈیورنڈلائن کے حوالے سے تھا کہ افغانستان نے یہ سرحد مستقل طور پر کبھی قبول نہیں کی۔لیکن جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کرکے اپنے کٹھ پتلی بٹھائے تو افغانیوں کو بھاگنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیااور لاکھوں کی تعدادمیں پاکستان ہجرت کرکے آبسے۔
اُس وقت سے افغان قوم کی جانب سے الزامات اورناراضگی میں کمی آئی لیکن اب جب امریکہ اور نیٹو افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں تودونوں ممالک میں بے اعتمادی اور گلے شکوے روزخبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔اس کام میں مدعی سست اور گواہ چست کے مصداق بھارت پیش پیش ہے جو افغانستان میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اورپروپیگنڈا کرنے میں کامیابی سے مصروف ہے کامیابی سے اس لیے کہ افغان عوام کا رد عمل پاکستان کے خلاف کھل کر اور بڑے پیمانے پر سامنے آتا رہا ہے۔اس وقت افغان عوام پاکستان کے تمام احسانات پرتھوک رہے ہیں ۔تصورکریں کہ اگر روسی یلغار کے وقت پاکستان کے بجائے بھارت اور ایران ہی ہمسایہ ہوتے تو پناہ دینا تو درکنار، وہ چُن چُن کر افغانیوں کو روس کے حوالہ کرتے کیونکہ وہ روس کے ہمنوا اور ہم رکاب ساتھی تھے وہ ہر گز ایسا نہیں کرتے جوپاکستان نے کرکے دکھایالیکن اب اصل مألہ جو ابھر کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان پاکستان پر دہشت گردوں کوپناہ دینے اورسپورٹ کرنے کاالزام لگا رہا ہے کہ پاکستان میں ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں جبکہ پاکستان یہی الزام افغانستان پر لگاتا رہا ہے کہ پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کاکنٹرول مرکزافغانستان میں ہے۔ امریکہ اورانڈیا بھی افغانستان کے ہمنوا بن کریہی الزامات دہرا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ مودی نے امریکی دورہ میں صدر ٹرمپ کواچھی طرح قائل اور مائل کردیاجس کے بعدٹرمپ نے جو نئی پالیسی کا اعلان کیا تو اس میں پاکستان کے لیے واضح دھمکی جبکہ بھارت کے لیے شاباش اورسپورٹ کرنے کے اشارے موجود تھے۔یہاں تک کہ بھارت کو افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا گیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت افغانستان میں کیا کردار ادا کرے گاکیونکہ پاکستان کاگلہ شکوہ بھی یہی ہے کہ بھارت افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیاں کررہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان ایک آزاد اورخود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات رکھ سکتاہے لیکن جب بھارت پاکستان مخالف گروپوں کو سپورٹ کرتاہے تو پاکستان کبھی افغانستان کے ساتھ اعتماد میں نہیں رہ سکتا۔ جب جماعت الاحرار کے احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا کہ انڈیا طالبان کو پاکستان کے خلاف سپورٹ کررہا ہے،افغانستان اور دنیا کے لیے یہ ایک بڑاثبوت تھا ۔دوسری بڑا ثبوت یہ کہ جماعت الاحرارکے طالبان علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہماراٹارگٹ ہے ۔حالانکہ پاکستان نے افغانستان کو کئی باربتایاہے کہ اس کے سرحدی علاقے لالپورہ میں طالبان کے ٹھکانے موجود ہیں ۔جن پر گزشیہ دنوں خود افغان فورسز نے بمباری کی تھی جس میں جماعت الاحرار کے سات بندے مارے گئے تھے جن میں چھ کا تعلق مہمندایجنسی سے تھا۔توپاکستان یہ ثبوت پیش کرکے بھی ناکام ہے کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی گونگی بہری ہے وہ کلبھوشن جیسے زندہ ثبوت کے ساتھ بھی دنیا کو یہ باورنہیں کراسکا کہ بھارت اس خطے کا اصل دہشت گرد ہے۔اور نہ پاکستان افغان عوام کا اعتمادحاصل کرسکاہے جوانڈیاکے پروپیگنڈے سے شدیدمتاثر ہیں۔پاکستان کی اس ناکامی کا کریڈیٹ نوازشریف حکومت کو جاتا ہے جس نے چار سال بغیر وزیر خارجہ کے گزارے جس سے دنیا کی نظروں میں پاکستان دہشت گردوں کا مرکزبن چکا ہے۔ اُدھر افغانستان اب تک ایساکوئی دہشت گردٹھکانہ بتانے میں ناکام ہے جو پاکستان میں ہو۔ پاکستان آرمی مجبوراً خارجہ معاملات کو سنبھالتا رہا ہے کیونکہ پاکستان میں سیاسی حکومتیں ثبوتوں کے باوجود پاکستان کا اصل موقف پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک پُرامن افغانستان کے بغیر پاکستان بھی چین سے نہیں رہ سکتا۔ ان حالات میں پاک افغان تعلقات بحال کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ اس خطے میں باہمی اعتماد سازی ،امن ،ترقی ا ور خوشحالی کے لیے اچھے تعلقات اہم ہیں۔اس سلسلے میں چین بہت فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔چین نے افغانستان کی دوبارہ آبادکاری میں اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔دوسری طرف افغانستان بھی چین کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا ہے اور وہ چین کے کسی بھی کردار کو خوش آمدید کہے گا۔دوسری طرف چین بھی ایک اچھے منصف کی طرح غیرجانبداری پرمبنی کردار اداکرے گا۔ اب یہ کام پاکستان کا ہے کہ وہ فوری طور پر چین کواس کام کے لیے آمادہ کرے ۔ میرے خیال میں چین کے کردار سے افغانستان میں بھی ترقی وخوشحالی کا دوردورہ شروع ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس وقت سی پیک کا بڑا منصوبہ زیرعمل ہے جس سے اس خطے کے تمام ہمسایہ ممالک فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔یہ افغانستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے جب چین افغانستان میں بھی بڑے منصوبوں کا آغاز کرے۔دوسری طرف امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں جو کردار اداکرنے کا کہا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اُلٹا نقصان کا باعث ہوگا کیونکہ پاکستان بھارت کے کسی کردار کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا جبکہ پاکستان بھارت سے بڑھ کر افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کر سکتا ہے۔پاکستان پہلے ہی تعلیم کی مد میں افغان طلباء کو مواقع دے رہا ہے جس میں اب تک اڑتالیس ہزار افغان طلبہ اپنا تعلیم مکمل کر چکے ہیں جبکہ تین ہزار افغان طلبہ کو اسی ماہ سکالرشپ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔اسی طرح چین افغانستان میں تعلیم،صحت،مواصلات،میڈیااور ٹیکنیکل ٹریننگ دے سکتا ہے جوسینکڑوں سال پیچھے رہ جانے والے افغانستان کوترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ 

No comments