غزل
غزل
دل کے ویرانے میں اب کچھ بھی نہیں
اپنے افسانے میں اب کچھ بھی نہیں
ہائے وہ مستی بھری نظریں کہاں
تیرے میخانے میں اب کچھ بھی نہیں
بے وفائی کو سمجھ بیٹھے ہُنر
چھوڑ یارانے میں اب کچھ بھی نہیں
سب جوانی کی متاع ہے لُٹ چکی
پاس نذرانے میں اب کچھ بھی نہیں
روشنی جب قیدِ زنداں ہوگئی
جوش پروانے میں اب کچھ بھی نہیں
اب محبؔ کا حالِ دل مت پوچھیے
رہتا مستانے میں اب کچھ بھی نہیں
دل کے ویرانے میں اب کچھ بھی نہیں
اپنے افسانے میں اب کچھ بھی نہیں
ہائے وہ مستی بھری نظریں کہاں
تیرے میخانے میں اب کچھ بھی نہیں
بے وفائی کو سمجھ بیٹھے ہُنر
چھوڑ یارانے میں اب کچھ بھی نہیں
سب جوانی کی متاع ہے لُٹ چکی
پاس نذرانے میں اب کچھ بھی نہیں
روشنی جب قیدِ زنداں ہوگئی
جوش پروانے میں اب کچھ بھی نہیں
اب محبؔ کا حالِ دل مت پوچھیے
رہتا مستانے میں اب کچھ بھی نہیں
No comments