غزل
اب کہ باقی تیرے وعدے کا اعتبار نہیں
تیرے اقرار میں دل کے لیے قرار نہیں
گو اب بہار نہیں ہے گلوں کا ہار نہیں
پر محبت میں تو مانی بھی کوئی ہار نہیں
کوئی امید و فا بھی رہی باقی نہ مگر
تجھ سے اظہارِ محبت میں کوئی عار نہیں
ہاتھ دیتے ہیں مگر ہاتھ بھی کر جاتے ہیں
دوستی کا بھی یہاں تو کوئی معیار نہیں
اپنی منزل پہ خدا جانے کہ پہنچے کیسے
قافلہ بھی ہوا گمراہ کہ سالار نہیں
جھوٹ ہے عیب ہے دھوکہ سبھی مل جاتے ہیں
پر یہاں صدق و صفا کا کوئی بازار نہیں
اب تو اخلاص و وفا کی ہی کمی ہے ورنہ
حسن و صورت سے محبؔ تو کوئی انکار نہیں
No comments