غزل
غزل
نہ خود پہ ہے قابو نہ اپنی خبر ہے
سمندر سی آنکھیں نشیلی نظر ہے

حسیں لب پہ تیرے محبت ہی آئے
یہ خواہش تو دیکھو میری مختصر ہے
غضب کی ادائیں مرے دل کو لوٹیں
یہ کیسا ہے جادو یہ کیسا ہُنر ہے
تیری زلف کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھوں
یہ عشق تو تھکا دینے والا سفر ہے
مثل تیرے حُسن کی میں کس طرح دوں
کہ خود محو حیرت یہ شمس و قمر ہے
کٹھن زندگی جو ہے اہلِ خرد کی
محبؔ کو تو دیکھو سدا چشم تر ہے
No comments